"KDC" (space) message & send to 7575

ترمیمی بلوں کی منظوری

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے قومی احتساب بیورو اور الیکشن ترمیمی بل منظوری کے بغیر آئین کے آرٹیکل 75(2) کے تحت واپس پارلیمنٹ میں بھجوا دیے تھے۔ صدر مملکت کا مؤقف یہ تھا کہ بل کو پارلیمنٹ میں لانے سے قبل انہیں اس قانون سازی کی تجویز سے آگاہ نہ کرنا آئین کے آرٹیکل 46کی خلاف ورزی ہے۔ ایوانِ صدر کے اعلامیہ کے مطابق؛ صدر کا کہنا ہے کہ مجوزہ بلز 25اور 26مئی کو انتہائی عجلت میں پارلیمنٹ سے منظور ہوئے۔ ڈاکٹر عارف علوی انتخابی اصلاحات پر گہری نظر رکھتے رہے ہیں اور اکتوبر 2014ء میں انتخابی اصلاحات کمیٹی کی تشکیل کے بعد انہوں نے اسحاق ڈار کی صدارت میں انتخابی اصلاحات میں اہم شقیں شامل کروانے میں اہم کردار ادا کیا تھا‘ تاہم مجھے پہلی بار ادراک ہوا ہے کہ بل کو پارلیمنٹ میں لانے سے قبل اس قانون سازی کی تجویز سے صدر کو آگاہ نہ کرنا آئین کے آرٹیکل 46کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ ماضی میں الیکشن بلز قومی اسمبلی میں پیش ہوتے رہے ہیں جیسا کہ سابق حکومت نے انتخابی اصلاحات کی آڑ میں الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعات میں 48کے لگ بھگ ترامیم کے لیے بلز قومی اسمبلی میں پیش کیے‘ ان میںانتخابی فہرستیں بنانے کا سارا اختیار نادرا کو دینے کا بل بھی شامل تھا‘ جس کے ذریعے الیکشن کمیشن کے کئی اختیارات نادرا کو تفویض کر دیے گئے تھے۔ نہیں معلوم کہ اس وقت آئین کے آرٹیکل 46کے تحت صدر مملکت سے مشاورت کی گئی یا نہیں‘ بہرکیف یہ ترمیم آئین کے آرٹیکل 218 سے متصادم تھی کیونکہ اس آرٹیکل کے تحت انتخابی فہرستوں کے سارے قانونی عمل کو الیکشن کمیشن کے ذمے لگایا گیا ہے۔ اسی طرح حکومت نے الیکشن ایکٹ 2017ء میں ترامیم کرتے ہوئے حلقہ بندیاں ووٹرز لسٹ کی بنیاد پر کرنے کے لیے ترمیمی بل پیش کیا تھا‘ اور یہ بھی آئین کے آرٹیکل 51سے متصادم تھا۔ اس طرح آئین کے آرٹیکلز سے انحراف کی چند دیگر مثالیں بھی موجود ہیں۔ مجموعی طور پر ان کی تعداد کم و بیش 28کے لگ بھگ بنتی ہے۔ صدر مملکت کو اُس وقت آرٹیکل 46کے مطابق ان ترامیم کا جائزہ لینا چاہیے تھا۔ 25اور 26مئی کو منظور کرائے گئے اس ترمیمی بل کی منظور کا وقت بھی بڑا ڈرامائی تھا۔ یہ بل اس وقت منظور کروایا گیا جب لانگ مارچ کی وجہ سے اسلام آباد میں ہنگامہ خیز کارروائی ہو رہی تھی اور میڈیا کی توجہ بھی لانگ مارچ اور عمران خان کے جلوس کی جانب تھی۔ حالانکہ اس ترمیمی بل کی منظوری کی اتنی جلدی بھی نہیں تھی‘ جبکہ قومی احتساب بیورو کے جس بل کو منظور کروایا گیا بادی النظر میں یہ اسلامی فقہ اور آئین کے آرٹیکل 2 اے کی روح کے خلاف ہے۔
حکومت نے ماضی کی پالیسی کو برقرار رکھتے ہوئے صدر مملکت کی جانب سے بغیر منظوری کے واپس بھجوائے گئے قومی احتساب بیورو اور الیکشن ترمیمی بل کو منظوری کیلئے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پیش کیا جہاں ان کو منظورکر لیا گیا۔ آئین کے آرٹیکل کے تحت حکومت کو اختیار حاصل ہے کہ اگر صدر مملکت کسی بل کو منظور نہ کریں تو حکومت ان بلز کو مشترکہ اجلاس میں پیش کر سکتی ہے۔ مشترکہ اجلاس میں ان بلوں کو سادہ اکثریت سے منظور کیا جانا ضروری ہوتا ہے اور حکومت کو چونکہ سادہ اکثریت حاصل ہے؛ اب مشترکہ اجلاس سے منظوری کے بعد بل کی منظوری کیلئے صدر مملکت کے پاس دس دن ہیں‘ اگر وہ اس دوران ان بلوں کی منظوری نہیں دیں گے تو بل خودبخود منظور تصور ہوںگے۔
حکومت نے الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 94اور 103میں ترامیم کر کے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مؤقف کی تائید کر دی ہے کیونکہ زمینی حقائق کے مطابق الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے استعمال کا وقت گزر چکا ہے‘ اسی طرح سمندر پار پاکستانیوں کو انٹرنیٹ ووٹنگ کے ذریعے ووٹ کا حق دینا بھی اب الیکشن کمیشن کیلئے مشکل ترین عمل ہے کیونکہ الیکشن کا طبل کسی بھی وقت بج سکتا ہے جبکہ الیکشن کمیشن انتخابی فہرستوں کی نظرِثانی‘ حلقہ بندیاں کروانے‘ اور لوکل گورنمنٹ کے انتخابات میں قانونی طور پر مصروف ہے۔ الیکشن کمیشن کی ساری توجہ لوکل گورنمنٹ کے انتخابات پر لگی ہوئی ہے جبکہ ایک اہم قانونی نکتہ جو سابق حکومت کی نظروں سے اوجھل رہا وہ یہ ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے استعمال کیلئے الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 103میں تو ترامیم کی گئیں‘ لیکن سابق حکومت نے الیکشن کمیشن کے ساتھ تناؤ برقرار رکھا اور الیکشن کمیشن کے 34اعتراضات کے ازالہ کیلئے الیکشن کمیشن سے تعاون نہیں کیا اور الیکشن کمیشن کے معزز اراکین اور چیف الیکشن کمشنر کے خلاف منفی مہم جاری رکھی۔
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں مذکورہ دونوں بلز کی منظوری سے اتحادی جماعتیں اپنے ووٹ بینک سے محروم ہوسکتی ہیں اور عمران خان کا بیانیہ انہیں انتخاب میں کامیابی سے ہم کنار کر نے میں معاون ثابت ہوگا۔ حکومت کو چاہیے کہ قومی احتساب بیورو کے اختیارات میں توسیع کرے‘ اس ادارے کے اختیارات کم کرنے سے عمران خان انتخابات میں اس احتساب ترمیمی بل کو حکمران جماعتوں کے خلاف استعمال کریں گے۔ عمران خان انتخابی فہرستوں اور حلقہ بندیوں کے حوالے سے الیکشن کمیشن کو بلاوجہ تنقید کا نشانہ بنائے جا رہے ہیں۔
اس دوران انتخابی فہرستوں کی نظر ثانی الیکشن ایکٹ کے مطابق کی جا رہی ہے‘ چیف الیکشن کمشنر اور چیئرمین نادرا کے مابین انتخابی فہرستوں کے حوالے سے اہم ملاقات بھی ہو چکی ہے۔ الیکشن کمیشن نے سات نومبر سے 31دسمبر 2021ء تک انتخابی فہرستوں کی نظرِثانی کیلئے فارم تقسیم کیے تھے اور ووٹرز فہرستوں کا جائزہ بھی لیا گیا جس کے تحت بارہ کروڑ دس لاکھ ووٹرز میں سے ایک کروڑ 60لاکھ ووٹروں کی جانچ پڑتال نہ ہو سکی جس کے بعد ازسرِنو شیڈول جاری کیا گیا جس کے تحت چار مارچ سے 18مارچ تک ووٹرز لسٹ کی جانچ پڑتال کروائی گئی جس کے تحت 15ملین ووٹرز کی تصدیق مکمل ہو گئی اور ساڑھے نولاکھ ووٹرز کی تصدیق نہ ہو سکی۔ الیکشن کمیشن نے 20ہزار ڈسپلے سنٹر بھی قائم بھی کیے ہوئے ہیں‘ ان کو پولنگ سٹیشنوں کا درجہ دینا درست نہیں ہے۔ ان ڈسپلے سنٹرزکو 19جون تک ووٹرز فہرستوں کی تصدیق کیلئے سہولت فراہم کی گئی ہیں اور تصدیق کیلئے فارم 15 اور فارم 16 موجود ہیں۔ اگر ایڈریس درست نہیں ہے تو ڈسپلے سنٹرز پر فارم پُر کر کے جمع کروا دیں اور ان کی شکایات دور کر دی جائیں گی۔ دفتری امور کے مطابق تو سسٹم چل رہا ہے اب ہر ووٹرز کو بھی چاہیے کہ وقت نکال کر اپنا ایڈریس اور نام وغیرہ درست کرلے اور الیکشن کمیشن کے ووٹر ایس ایم ایس سروس نمبر8300 پر ایس ایم ایس کر کے اپنے ووٹ کی تفصیلات چیک کر لینی چاہئیں۔ اگر ووٹر ووٹ کا اندراج / اخراج یا کوائف کی درستگی چاہتا ہے تو قریبی ڈسپلے سنٹر جا کر تبدیلی کروا سکتے ہیں۔ ان تمام قانونی کارروائیوں کے ساتھ ساتھ الیکشن کمیشن کو مانیٹرنگ سسٹم اور کنٹرول روم بھی قائم کرنا ہوں گے۔ سنا ہے کہ الیکشن کمیشن کے بعض دفاتر میں ووٹرز کو سہولت فراہم نہیں کی جا رہیں اور چیف الیکشن کمشنر کے احکامات کے مطابق مسائل حل نہیں کیے جا رہے‘ جس کی وجہ سے سیاسی جماعتوں کو بھی تحفظات ہیں۔ بعض سیاسی جماعتیں الیکشن کے قوانین اور طریقہ کار سے بھی نابلد ہیں۔ الیکشن کمیشن انتخابی فہرستوں کی نظرثانی اور حلقہ بندیاں آئندہ کے انتخابات کے لیے کر رہا ہے جیسا کہ ضمنی انتخابات میں جولائی 2018ء کی انتخابی فہرستیں اور حلقہ بندیاں ہی استعمال کی گئیں۔ آئین کے آرٹیکل 51 میں درج ہے کہ عبوری مردم شماری کے تحت جو حلقہ بندیاں ہو چکی ہیں انہی کی بنیاد پر ہی ضمنی انتخابات ہوں گے‘ اب جو پنجاب میں 20اراکین کی نشستیں خالی ہوئی ہیں ان پر جو ضمنی انتخابات 17جولائی کو ہو رہے ہیں وہ پرانی حلقہ بندیوںکے مطابق ہی ہوں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں