"KDC" (space) message & send to 7575

عدم استحکام سے گریز کیا جائے

حکومت پاکستان کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے اراکین سے دریافت کرنا چاہیے تھا کہ اگر پاکستان نے ان کی عائد کردہ تمام شرائط پوری کر دی ہیں تو پھر پاکستان کو اکتوبر تک گرے لسٹ پررکھے جانے کا کیا جواز ہے؟ وزیر مملکت برائے خارجہ امور حنا ربانی کھر جو اس فورم پر پاکستان کی نمائندگی کر رہی تھیں اگرایف اے ٹی ایف کے اراکین کے سامنے اپنے تحفظات کا اندراج کراتیں تو پاکستان مغربی ممالک کے سامنے سرخرو ہو جاتا۔ کیا ایف اے ٹی ایف کے اراکین اتنے بے خبر ہیں کہ پاکستان کا دورہ کیے بغیر حقائق معلوم نہیں کر سکتے کہ آیا جو اقدامات کیے گئے ہیں پاکستان ان پر عمل پیرا ہے یا نہیں؟ ایف اے ٹی ایف کے رکن ممالک کے سفیر اسلام آباد میں موجود ہیں‘ ان سے زمینی حقائق معلوم کیے جا سکتے ہیں۔ ایف اے ٹی ایف کے حالیہ اجلاس کے بعد مختلف حلقوں سے مبارک باد کے پیغامات اس طرح جاری ہو رہے تھے گویا عید ملن پارٹی ہو رہی ہے۔ حقیقت میں ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو مایوس کیا ہے‘ اقوامِ عالم میں ہماری تنزلی کے زینہ پر ایک قدم نیچے جانے کا تکلیف دہ مرحلہ ہمارے سامنے ہے‘ مگر یہاں سب ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کا کریڈٹ لے رہے ہیں۔ پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے اکتوبر میں نکلے گا یا اگلے سال فروری میں‘ بہرکیف ابھی تک ہم گرے لسٹ سے نکلے نہیں لیکن کریڈٹ ہر پارٹی لینے کی کوششیں کر رہی ہے۔ عوام کے ذہنوں میں یہ سوال کلبلا رہا ہے کہ ملک گرے لسٹ میں کیسے آیا؟ کیا کوئی قوم کو بتائے گا کہ اس کی کیا وجوہات تھیں؟ ٹاسک فورس کی تمام ہدایات پر عملدرآمد کے باوجود منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت روکنے میں خاطر خواہ کارکردگی کا مظاہرہ نہ کر پانے والے ملکوں کی اس فہرست سے پاکستان کا نام ابھی نکالا نہیں گیا۔ اکتوبر میں جب ٹاسک فورس کی ٹیم پاکستان کی کوششوں کے نتائج کا جائزہ لینے کیلئے اسلام آباد آئے گی اور سب کچھ اس کے اطمینان کے مطابق ہوا تو ہی گرے لسٹ سے پاکستان کا نام حتمی طور پر نکالا جائے گا۔ اس کا کریڈٹ یقینی طور پر تحریک انصاف کی حکومت کو بھی جاتا ہے جس نے اپنے دور میں ٹاسک فورس کی ہدایات کے مطابق عملی اقدامات کیے؛ تاہم ٹاسک فورس کے عدم اطمینان کا خدشہ ابھی باقی ہے؛ چنانچہ قبل از وقت ''جشنِ فتح‘‘ منانے سے گریز کرنا چاہیے۔ ایف اے ٹی ایف اور آئی ایم ایف کی وجہ سے حالات اس رُخ کی طرف جا رہے ہیں کہ انتخابات کے فوری انعقاد کا مطالبہ ناقابلِ عمل معلوم ہوتا ہے۔ اگر حکومت عمران خان کے دباؤ کے تحت انتخابات کے انعقاد کا فوری اعلان کرے تو ٹاسک فورس اور آئی ایم ایف سے معاہدات‘ جو ابھی تک مکمل نہیں ہو سکے‘ مزید طوالت کا شکار ہو سکتے ہیں۔ نگران حکومت سے یہ معاہدات ممکن نہیں جبکہ ہر کوئی جانتا ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ معیشت کو بحال بلکہ برقرار رکھنے کیلئے کس قدر ضروری ہے۔ آئندہ سات‘ آٹھ ماہ عوام کو اس حکومت کی طرف سے سخت دباؤ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ حالات آئی ایم ایف کے معاہدے سے جڑے ہوں گے۔ ان حالات میں عمران خان کو لانگ مارچ جیسی کال سے گریز کرنا چاہیے کہ حالات کے تقاضے اس کے برعکس ہیں۔ ہر محب وطن شہری کی یہی خواہش ہو گی کہ مسائل اور معاشی مشکلات میں گھرا ہوا ملک کسی انتشار کا شکار نہ ہو‘ اس لیے خان صاحب کے فوری الیکشن کرانے کے مطالبے کی کسی جانب سے پذیرائی کا کوئی امکان نہیں۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان 17جولائی کو پنجاب اسمبلی کی 20نشستوں پر ضمنی انتخابات کروا رہا ہے جو پنجاب کی آئندہ حکومت کی قسمت کا فیصلہ کریں گی۔ حمزہ شہباز شریف‘ چوہدری پرویز الٰہی کی ہر حکمت عملی اور اُس وقت کے گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ کی ہر کوشش کے باوجود وزیراعلیٰ منتخب ہو گئے اور صوبائی اسمبلی پنجاب میں مشرقی پاکستان اسمبلی کا سانحہ ہوتے ہوتے رہ گیا‘ جب 23ستمبر 1958ء کو مشرقی پاکستان اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر شاہد علی پٹواری ہنگامے کی نذر ہو گئے تھے۔ حمزہ شہباز وزیراعلیٰ منتخب تو ہو گئے ہیں لیکن ان کی حکومت کو آئینی اور سیاسی بحران کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ حمزہ شہباز کو جس طرح کے سیاسی بحران اور عدلیہ کے فیصلوں سے گزرنا پڑ رہا ہے ایسے بحران کسی بھی وزیراعلیٰ کے حصہ میں نہیں آئے۔ اگرچہ جولائی 1993ء میں گورنر پنجاب الطاف حسین اور منظور وٹو کو ایسے بحران سے گزرنا پڑا تھا لیکن ان کی پشت پر صدر غلام اسحاق خان آئین کے آرٹیکل 58(2)(b)سے لیس تھے۔
17 جولائی کے انتخابات میں امیدواروں کی پوزیشن کا جائزہ لیا جائے تو حالات یہی بتاتے ہیں کہ مہنگائی کا طوفان حکمران جماعت کو بند کمروں میں بٹھا دے گا۔ مہنگائی کے الزامات سابقہ حکومت پر لگانا عوام کو مطمئن نہیں کر پائے گا۔ وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کو بجٹ کی منظوری کے لیے بھی گورنر کے آرڈیننس کا سہارا لینا پڑا جو متنازع شقوں کی زد میں ہے۔ بجٹ سیشن اصولی طور پر پنجاب اسمبلی کی عمارت میں ہونا چاہیے تھا‘ ایوانِ اقبال میں بجٹ اجلاس کا انعقاد صوبائی حکومت کی پسپائی ہے اور سپیکر صوبائی اسمبلی کی اخلاقی فتح کا مظہر۔ گورنر کے آرڈیننس میں آئین کے آرٹیکل 122‘ 127‘ 128اور دیگر آرٹیکل کا ذکر ہے‘ وہ محض کمزور دلائل کے دائرہ کار میں آتے ہیں۔ جب صوبائی اسمبلی کے سپیکر نے اجلاس طلب کیا ہوا تھا‘ اس کی موجودگی میں بادی النظر میں آرڈیننس غیرقانونی تصور کیا جائے گا۔ اگر چوہدری پرویز الٰہی بجٹ کی منظوری میں رکاوٹ بنے ہوئے تھے تو گورنر مقررہ وقت سے پہلے فنانشل آرڈیننس کے ذریعے بجٹ کی منظوری دینے کے مجاز تھے۔ پنجاب اسمبلی کا ایک اجلاس صوبائی اسمبلی کی عمارت میں اور دوسرا ایوانِ اقبال میں کرانا اور حکومت کا آرڈیننس کے ذریعے اسمبلی کو کنٹرول کرنا درست اقدام نہیں۔ سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی کی جانب سے وزیراعلیٰ کے انتخاب کے دوران اسمبلی میں پولیس کے داخلے پر آئی جی پولیس اور چیف سیکرٹری سے معافی کا جو مطالبہ رکھا گیا تھا وہ بھی مناسب نہیں تھا۔ یہ معاملہ بجٹ کی منظوری کے بعد کسی قائمہ کمیٹی کے ذریعے حل کیا جا سکتا تھا۔ گورنر پنجاب‘ جو فیڈریشن کے نمائندے کے طور پر پنجاب میں کام کر رہے ہیں‘ کو سپیکر صوبائی اسمبلی اور قائدِ ایوان حمزہ شہباز کو گورنر ہاؤس مدعو کر کے معاملہ حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تھی۔ اس افسوسناک صورتحال سے اسمبلی متاثر ہو رہی ہے‘ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔
بظاہر ایسا لگتا ہے کہ صوبائی حکومت نے آخری حربے کے طور پر آرڈیننس کو استعمال کیا لیکن یہ نئی روایت قائم کی گئی ہے‘ جس سے حکومت کو گریز کرنا چاہیے تھا۔ میری رائے میں 18ویں ترمیم کے بعد ریاست فیڈریشن نہیں‘ کنفیڈریشن بن گئی ہے۔ پنجاب کی موجودہ سیاسی صورتحال کے باوجود وفاق کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں اور وہ اپنا کردار ادا نہیں کر سکتا اور ایمرجنسی یا گورنر راج لگانے کی سخت شرائط ہیں جن پر پورا اُترنا تقریباً ناممکن ہے اور وفاقی حکومت آئین کے آرٹیکل 148 کے نفاذ کے ذریعے پنجاب پر کنٹرول حاصل نہیں کر سکتی کیونکہ صدرِ مملکت نے اس پر رضامند نہیں ہونا تھا۔ پاکستان اس وقت فنانشل ایکشن ٹاسک فورس اور آئی ایم ایف کے نرغے میں ہے‘ لہٰذا ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا جا سکتا جس سے ملک میں عدم استحکام کی فضا قائم ہو ۔ایک راستہ یہ ہوسکتا ہے کہ ملک کو سیاسی اور معاشی بحران سے نکالنے کے لیے صدرِ مملکت ٹیکنوکریٹ حکومت کے قیام کے لیے سپریم کورٹ سے رہنمائی حاصل کریں اور سپریم کورٹ کی آئینی اور قانونی رائے اگر اجازت دے تووفاقی پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کر کے ایک سال کے لیے نگران سیٹ اپ قائم کر دیا جائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں