"KDC" (space) message & send to 7575

تحریک انصاف قومی اسمبلی کا رُخ کرسکتی ہے ؟

اتحادی حکومت نے فو ری انتخابات کرانے کا عمران خان کا مطالبہ مسترد کر دیا ہے اور عام انتخابات چاروں صوبوں میں بیک وقت نومبر 2023ء میں ہی کروانے کا عندیہ دیا ہے۔ادھر پنجاب کی وزارت ِ اعلیٰ حمزہ شہباز کے پاس واپس جانے کے بعد وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت کو سکون کا سانس میسر آئے گا اور عمران خان محض سیاسی طور پر اپنے ارکان کو متحرک کرنے کے لیے جلد انتخابات کا مطالبہ کرتے رہیں گے لیکن ان کی خواہش یہی ہو گی کہ وہ کسی طرح پنجاب پر حکومت قائم کرسکیں اور انہیں مقتدرہ کے حلقوں تک بھی رسائی حاصل ہو سکے۔ لیکن اس کے باوجود وفاقی حکومت عمران خان کے گرد گھیرا تنگ کرتی رہے گی اور ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ اگر پاکستان تحریک انصاف کے خلاف آتا ہے تووفاقی حکومت ممنوعہ فنڈنگ کی ضبطی کے بعد تحریک انصاف کی قیادت کے خلاف الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 212‘ 213 اور 214 کے تحت کارروائی کرنے کے بارے میں بھی سنجیدگی سے سوچ سکتی ہے ۔ وزارت ِ انصاف و قانون اور وزیراعظم کے قانونی ماہرین شاید اس پر غور و خوض بھی کر رہے ہوں۔
دوسری جانب سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کی روشنی میں عمران خان‘ اسد قیصر‘ قاسم سوری اور کسی حد تک صدر مملکت کے خلاف آئین شکنی اور آئین سے انحراف پر مقدمہ دائر کرنے کی حکومتی سوچ بھی شاید آگے بڑھ رہی ہے۔ میری رائے میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے مذکورہ فیصلے کی روشنی میں ان شخصیات کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کا جواز نہیں بنتا۔ ویسے بھی پنجاب کی صورتحال میں فیصلہ کن تبدیلی کے بعد وفاقی حکومت کا دائرہ کار محدود ہو کر رہ گیا ہے‘ لہٰذا تحریک انصاف کے خلاف اسی طرح کی کارروائی کرنے سے حکمران اتحاد کی ساکھ مزید کمزور ہو گی کیونکہ پنجاب اسمبلی کے ضمنی انتخابات میں حمزہ شہباز کی شکست کے بعد ملک میں سیاسی بے یقینی کے سائے مزید گہرے ہو گئے ہیں۔سپریم کورٹ آف پاکستان نے قومی احتساب بیورو کے قانون میں ترامیم کے خلاف پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت کے دوران شاہ محمود قریشی سے استفسار کیا کہ احتساب بیورو کا ترمیمی بل پاس ہوتے وقت تحریک انصاف کہاں تھی؟ اس وقت اعتراض کیوں نہیں کیا گیا؟ چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دیے کہ یہ معاملہ واپس پارلیمنٹ کو جائے گا۔ عدالت عظمیٰ نے مزید ریمارکس دیے کہ عوام کے منتخب نمائندوں کی حیثیت سے نیب ترامیم کامعاملہ پارلیمنٹ میں اٹھائیں‘نیب ترامیم کے خلاف آپ نے پارلیمنٹ میں 40 فیصد عوام کی نمائندگی کیوں نہیں کی؟جسٹس منصورعلی شاہ نے قرار دیا کہ نیب ترامیم کی سنجیدگی سے آگاہ ہونے کے باوجودآپ نے اسمبلی سے واک آؤٹ کیا‘ کیا اس صورتحال میں درخواست گزارکا حقِ دعویٰ بنتا ہے؟
بادی النظر میں سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کو عوام کے مینڈیٹ سے انحراف کرنے کا آئینہ دکھا دیا ہے۔واضح رہے کہ ابھی تک قومی اسمبلی کے سپیکر نے تحریک انصاف کے ارکان کے استعفے منظور نہیں کیے اور اس کے پیچھے آصف علی زرداری کی تھیوری ہے‘ انہی کے اشارے پر راجہ پرویز اشرف نے بطور سپیکر قومی اسمبلی تحریک انصاف کے 130 ارکان قومی اسمبلی کے استعفے منظور نہیں کیے ۔دراصل پس پردہ آصف علی زرداری‘ نواز شریف پر دباؤ برقرار رکھے ہوئے ہیں اور وہ کسی وقت اچانک بنی گالا جا کر عمران خان سے بھی اسی طرح ملاقات کرسکتے ہیں جیسے وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے ایک روز پہلے انہوں نے چوہدری شجاعت حسین سے لاہور میں ملاقات کی۔آصف علی زرداری سندھی روایات کے مطابق خان صاحب سے ملاقات کر کے آئندہ کے سیاسی مستقبل پر ان سے سمجھوتہ کر سکتے ہیں اور ان کی ایما پر تحریک انصاف کے ارکان کو واپس قومی اسمبلی میں لا سکتے ہیں۔ اس کے لیے اسحاق ڈار فارمولا دہرایا جاسکتا ہے جس کے تحت 2016ء میں تحریک انصاف کے 26 ارکان ِ قومی اسمبلی واپس پارلیمنٹ میں داخل ہو گئے تھے‘ لیکن میری رائے کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان ایسا فیصلہ سنا سکتی ہے جس کے تحت عمران خان کو اپنا موقف تبدیل کرنے اور ارکان تحریک انصاف کو پارلیمنٹ میں داخل ہونے کے لیے محفوظ اور باعزت راستہ مل سکتا ہے۔
جہاں تک قانون احتساب میں ترامیم کی بات ہے تو سپریم کورٹ ترمیمی بل کی درخواست کو واپس پارلیمنٹ میں بھجوا سکتی ہے اور چونکہ صدر مملکت نے بھی دور اندیشی کے ساتھ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بل کی منظوری کے باوجود صدارتی دستخط کرنے سے انکار کردیا تھا اور خوبصورت انداز میں عندیہ دیا تھا کہ بل کی منظوری اسلامی نقطہ نظر سے غیراسلامی ہے‘ ممکن ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان صدر مملکت کے ریمارکس کو بھی حاصلِ کلام کا حصہ بنا دے۔
تحریک انصاف کے وکیل خواجہ حارث بھی صدر مملکت کے ریمارکس کو عدالتی حصہ بناتے ہوئے دلائل دے سکتے ہیں۔ مجھے یوں نظر آ رہا ہے کہ ملک کی بگڑتی معاشی صورت حال کو دیکھتے ہوئے اور ملک میں نفرت انگیز مہم‘ مخالفین کے خلاف تند و تیز حملے اور انتخابی جنگ و جدل کو دیکھتے ہوئے یہی تجویز بہتر معلوم ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کے ارکان قومی اسمبلی میں جا کر اپنا آئینی اور قانونی کردار ادا کریں۔
ملک کی موجودہ فضا قومی انتخابات کے لیے موزوں نہیں ہے۔ اگر اسی صورت حال میں عام انتخابات کرائے گئے ‘جبکہ چاروں صوبوں میں مختلف سوچ کی حامل حکومتیں موجود ہیں‘ تو قومی اسمبلی کے انتخاب میں ملک میں بے چینی‘ خلفشار‘ انتشار اور آپس میں لڑائی جھگڑے پیدا ہوں گے اور یک طرفہ انتخاب کو شکست کھانے والی جماعت تسلیم نہیں کرے گی جس سے ملکی وحدت کو شدید خطرات لاحق ہو ں گے۔ عمران خان کا سوشل میڈیا بہت بڑا طاقتور ہتھیار ہے اور ان کے نوجوان پیروکار گھر گھر سے سوشل میڈیا کی مہم چلا رہے ہیں اور اپنے سوشل میڈیا کے ذریعے عمران خان پیپلز پارٹی کا ووٹ بھی اپنی طرف لے جا چکے ہیں۔ پنجاب میں پیپلز پارٹی چند گھرانوں کی شخصیات کے اردگرد گھوم رہی ہے اور ورکر تک پہنچنے کے لیے پیپلز پارٹی کا سوشل میڈیا نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کا سوشل میڈیا جاتی امرا میں پرویز رشید کی نگرانی میں چل رہا ہے اور غیر مؤثر ہے۔
عمران خان کی سحر انگیز شخصیت سے ان کے مخالف زمین بوس ہو چکے ہیں اور ان کی حیثیت میری نظر میں ایک مقبول ترین سیاسی رہنما کی ہو چکی ہے۔ اب عمران خان کا راستہ مقدمہ بازی اور دیگر عوامل سے نہیں روکا جا سکتا۔ اب ایک ہی راستہ ہے کہ مقتدر حلقے ملک کی سالمیت اور وحدت کو بچانے کے لیے آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت سپریم کورٹ کو ریفرنس بھجوا کر آئینی راستہ تلاش کرتے ہوئے ملک میں فوری طور پر نگران قومی حکومت کی تشکیل دیتے ہوئے ملک میں انتخابی فضا سے نفرت کا ازالہ یقینی بنائیں اور بنگلہ دیشی فارمولا‘جو 2007ء میں نافذ کیا گیا تھا‘کا جائزہ لیتے ہوئے انتخابات کو ایک سال تک مؤخر کر دیں اور ملک میں ازسر نو صابطۂ اخلاق مرتب کر کے تمام سیاسی جماعتوں میں انٹراپارٹی الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 203 کے مطابق انتخابات کرائے جائیں۔الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بااختیار بنانے کے لیے انڈین الیکشن کمیشن کی طرز پر ریاستی اداروں کو اس کے ماتحت کر دیا جانا چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں