"KDC" (space) message & send to 7575

پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کے مضمرات

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے آئین اور قانون کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے خلاف ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ دیتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کی رجسٹریشن کی منسوخی اور پارٹی کا انتخابی نشان واپس لینے کے بجائے الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 215 کے تحت شوکاز نوٹس جاری کیا ہے کہ کیوں نہ غیر قانونی طریقوں سے حاصل کیے ہوئے فنڈز الیکشن ایکٹ کی دفعہ 204 کے تحت ضبط کر لیے جائیں۔
چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں بنچ نے 68 صفحات پر مشتمل فیصلے میں پاکستان تحریک انصاف کو 34 غیرملکی شخصیات اور 351 غیرملکی کمپنیوں اور کاروباری اداروں سے فنڈنگ وصول کرنے کا مجرم قرار دیا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ تحریک انصاف ان رقوم کے قانونی ہونے کا ثبوت پیش نہیں کر سکی۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے فنڈنگ کے حوالے سے جو سرٹیفکیٹ الیکشن کمیشن آف پاکستان میں 2008ء سے 2013ء تک جمع کرائے وہ بھی غلط قرار پائے اور جو اقرارنامے داخل کئے گئے انہیں بھی جھوٹ پر مبنی مانا گیا ہے۔ عمران خان کے خلاف یہ مقدمہ تحریک انصاف کے بانی رکن اکبر ایس بابر نے نومبر 2014ء میں دائر کیا تھا‘ جس کا فیصلہ ہونے میں آٹھ سال لگ گئے۔ اس تاخیر کی وجہ کچھ یہ بھی تھی کہ تحریک انصاف نے تقریباً ساڑھے چار سال مختلف عدالتوں سے سٹے لیے رکھا اور الیکشن کمیشن کے ریکارڈ کے مطابق 75 سے زائد دفعہ التوا بھی لیا اور نو کے لگ بھگ وکلا تبدیل کیے۔ اسی عرصے میں سابق اور موجودہ چیف الیکشن کمشنر پر دباؤ بڑھانے کی کوشش بھی کی گئی اور میری اطلاع کے مطابق عمران خان کی ایک اہم شخصیت نے الیکشن کمیشن کی ذمہ دار شخصیت کو 2019ء اور 2020ء کے درمیانی عرصے میں مختلف ذرائع سے ذہنی‘ سیاسی اور اخلاقی دباؤ کا نشانہ بھی بنایا اور سکروٹنی کمیٹی کا کورم بھی پورا نہیں ہونے دیا گیا۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے نمائندے کے تقرر میں بھی بلاوجہ رخنے ڈالنے کا سلسلہ جاری رہا۔ جب سردار محمد رضا چیف الیکشن کمشنر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے تو ان کی جگہ نئے چیف الیکشن کمشنر کے تقرر میں بلاوجہ تاخیری حربے بھی استعمال کیے گئے اور وزیراعظم عمران خان نے بطور لیڈر آف دی ہاؤس کے لیڈر آف اپوزیشن شہباز شریف سے مشاورت کرنے سے انکار کر دیا جو آئین کے آرٹیکل 213 کے سراسر منافی تھا‘ لہٰذا سکروٹنی کمیٹی کی کارروائی معطل رہی۔ عام توقع تھی کہ جسٹس (ر) سردار محمد رضا اپنی سبکدوشی سے پیشتر فارن فنڈنگ کیس کا معاملہ طے کر دیں گے لیکن سکروٹنی کمیٹی رپورٹ پیش کرنے میں ناکام رہی۔بہر حال 2020ء کے اوائل میں موجودہ چیف الیکشن کمشنر کے تقرر کے بعد فارن فنڈنگ کیس کی سکروٹنی کمیٹی نے اپنا سفر ازسر نو شروع کیا اور سٹیٹ بینک آف پاکستان اور آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی رپورٹ کی روشنی میں مقدمہ چلایا۔ دو اگست کے فیصلے میں کہا گیا کہ پارٹی کے ممنوعہ فنڈنگ کے 116 اکاؤنٹس پوشیدہ رکھے گئے اور ممنوعہ فنڈنگ کی وصولی آئین کے آرٹیکل 17 کی ذیلی شق چار کی خلاف ورزی کی گئی اور پولیٹکل آرڈر 2002ء کے آرٹیکل چھ سے بھی انحراف کیا گیا اور اسی بنا پر الیکشن کمیشن نے الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 212کے تحت فیصلے کی کاپی وفاقی حکومت کو بھیجنے اور دیگر قانونی کارروائی کا حکم دیا۔ آئین کے آرٹیکل 17 اور الیکشن ایکٹ 2017ء اور پولیٹکل آرڈر 2002ء کے تحت الیکشن کمیشن کا فیصلہ حتمی ہے اور اس کی روشنی میں وفاقی حکومت تحریک انصاف کے خلاف ریفرنس پولیٹکل پارٹیز ایکٹ 2002ء کے آرٹیکل 15 کے تحت سپریم کورٹ آف پاکستان کو ریفرنس بھیج سکتی ہے۔
تحریک انصاف کے رہنماؤں بشمول عمران خان نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو ان کا قانونی حق ہے‘ مگر فیصلے کا غیر جانبدارانہ تجزیہ کیا جائے تو اس فیصلے کی اگر سپریم کورٹ آف پاکستان کے لارجر بنچ نے یا فل کورٹ نے توثیق کر دی تو عمران خان اور ان کی پارٹی آئین کے آرٹیکل 17 کی زد میں آ جائے گی۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے اکبر ایس بابر سپریم کورٹ آف پاکستان میں ایسی دستاویزات پیش کرسکتے ہیں جن سے عمران خان الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 210 کے تحت غلط بیانی اور حقائق کو چھپانے اور آئین کے آرٹیکل 17 کی شق چار کے تحت نااہل ہونے کے قریب پہنچ سکتے ہیں۔
عمران خان اور ان کے قریبی رہنما ایک عرصے سے الیکشن کمیشن آف پاکستان خصوصاً چیف الیکشن کمشنر کو ہدف تنقید بناتے ہوئے ان کے استعفیٰ کا مطالبہ کرتے آ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ معزز عدلیہ پر بھی حرف زنی کی جاتی رہی ہے‘ مگر ان اداروں کی طرح الیکشن کمیشن نے بھی صبر وتحمل سے کام لیا اور ممنوعہ فنڈنگ کا فیصلہ خالص قانونی اور آئینی شواہد اور نکات پر کیا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے تفصیلی فیصلے میں اس کیس کے بہت سے چشم کشا حالات بے نقاب ہو چکے ہیں۔ ممنوعہ فنڈنگ کے فیصلے کے بعد عمران خان صاحب نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے دفاتر کے سامنے احتجاجی جلسے کرانے کا اعلان کیا اور شاہراہ دستور پر الیکشن کمیشن کے سامنے پُرامن احتجاج کی روداد سامنے آئی ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ایک اہم شخصیت نے مجھے بتایا تھا کہ میڈیا پر گردش کرنے والی یہ خبر کہ تحریک انصاف نے چارٹر آف ڈیمانڈ الیکشن کمیشن کے ڈپٹی ڈائریکٹر آصف اقبال کو جمع کرائی‘ سراسر غلط ہے۔بتایا گیا کہ اس نام کا کوئی ڈپٹی ڈائریکٹر الیکشن کمیشن میں نہیں اور نہ ہی الیکشن کمیشن کو کوئی چارٹر آف ڈیمانڈ موصول ہوئی ہے۔ اسی طرح الیکٹرانک میڈیا پر بعض اوورسیز پاکستانیوں کے حوالے سے انٹرویوز آ رہے ہیں کہ وہ پاکستان میں ہیں اور انہوں نے تحریک انصاف کو فنڈز فراہم کیے تھے مگر ان اوورسیز پاکستانیوں کے بارے الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ اس نے ان لوگوں کا ڈیٹا نادرا سے چیک کروایا تھا اور نادرا کی رپورٹ کے مطابق ہی یہ سب غیرملکی شہریوں کے زمرے میں آتے ہیں‘لہٰذا جن افراد نے الیکٹرانک میڈیا پر اپنے آپ کو پاکستانی پاسپورٹ ہولڈر ہونے کا دعویٰ کیا‘ وہ غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن ان اشخاص کے خلاف بھی کارروائی کرنے کے لیے نادرا سے معاونت حاصل کر رہا ہے۔اسی طرح ایک بھارتی خاتون کا ریکارڈ پاکستان کے حساس اداروں کے پاس موجود ہے۔ الیکشن کمیشن کی سکروٹنی کمیٹی نے موجودہ چیف الیکشن کمشنر کی آمد کے بعد جانچ پڑتال کرتے ہوئے ان تمام پہلوؤں کا بخوبی جائزہ لیا اور متعلقہ اداروں سے معاونت حاصل کی۔تحریک انصاف کے بعد اب الیکشن کمیشن دیگر دوسری سیاسی جماعتوں کے فنڈنگ پر بھی کارروائی کر رہا ہے۔
تحریک انصاف کے ممنوعہ فنڈنگ کیس کے فیصلے کے بعد اتحادی حکومت نے تحقیقات پی ٹی آئی قیادت کے خلاف تحقیقات شروع کر دی ہیں اور ان کے خلاف ڈیکلریشن جاری کرنے کا فیصلہ بھی کابینہ میں ہو چکا ہے۔ ان حالات میں چیف الیکشن کمشنر اور ارکان کمیشن کے خلاف جوڈیشل کونسل میں ریفرنس بھجوانے کا عمل بدنیتی کے مترادف سمجھا جائے گا اور توقع یہی ہے کہ اگر ایسا کوئی ریفرنس بھیجا بھی گیا تو اسے مسترد کر دیا جائے گا کیونکہ سپریم جوڈیشل کونسل پاکستان کے معزز ججوں پر مشتمل ہے اور اس کے سربراہ پاکستان کے چیف جسٹس آف پاکستان ہیں۔حاصل کلام یہی ہے کہ عمران خان پاکستان کے مقبول ترین قومی لیڈر ہیں ان کے خلاف گروہ بندی کی کوشش ہو رہی ہے اور ان کے خلاف انہی کے قریبی ساتھیوں کو استعمال کیا جارہا ہے۔ عمران خان کو بلاوجہ احتجاجی تحریک پر اکسا کر ان کو پارٹی قیادت سے ہٹانے کی سازش ہو رہی ہے‘ خان صاحب کو اپنے ارد گرد نظر رکھنی چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں