"KDC" (space) message & send to 7575

سیاسی رسہ کشی میں ملکی استحکام کو پسِ پشت نہ ڈالیں

جمعرات کے روز وزیرآباد میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان پر ہونے والا حملہ نہایت افسوسناک ہے اور اُس کی جس قدر مذمت کی جائے وہ کم ہے۔ اس افسوسناک واقعہ پر وزیراعظم شہباز شریف‘ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری اور مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف سمیت حکومتی اتحاد میں شامل دیگر رہنماؤں نے تمام تر سیاسی اختلافات پس پشت ڈالتے ہوئے نہ صرف اس واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کی بلکہ پنجاب حکومت سے حقائق کو منظر عام پر لانے کے لیے اعلیٰ سطح کی تفتیش کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دینے کی سفارش بھی کی۔ اس ناخوشگوار واقعہ کے بعد سے پی ٹی آئی کے کارکنوں کی طرف سے ملک گیر احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔اُمید کی جاتی ہے کہ اس افسوسناک واقعہ کی شفاف تحقیقات یقینی بنائی جائیں گی تاکہ تحریک انصاف کی قیادت اور کارکنان کی تشفی ہو سکے اور ملک احتجاجی مظاہروں کے باعث مزید عدم استحکام کی طرف جانے سے بچ جائے۔
ملک کی موجودہ تلخ سیاسی صورتحال میں خان صاحب فارن فنڈنگ کیس میں مشکلات کا شکار نظر آ رہے ہیں کیونکہ ایف آئی اے نے فارن فنڈنگ کیس کو منی لانڈرنگ کیس میں تبدیل کرتے ہوئے عمران خان کو ملزم نامزد کردیا ہے جس کے تحت انہیں طلبی کا نوٹس بھی جاری کیا گیا اور پیش نہ ہونے پر ان کی گرفتاری کے احکامات بھی جاری کئے جاسکتے ہیں؛ تاہم وزیر آباد والے افسوسناک واقعہ کے بعد یہ دیکھنا ہوگا کہ کیا یہ تحقیقات کا سلسلہ یونہی برقرار رہتا ہے یا اس حوالے سے کسی تبدیلی کا کوئی امکان بھی پیدا ہو سکتا ہے۔ لانگ مارچ میں عوام کی بڑی تعداد کی شرکت اور بعد میں لانگ مارچ کنٹینر پر ہونے والی فائرنگ کے بعد صورتحال یکسر تبدیل ہوتی نظر آ رہی ہے۔وفاقی تحقیقاتی ایجنسی کو اپنی کارروائی آگے بڑھانے کے لیے اب ان زمینی حقائق کو بھی مدِنظر رکھنا پڑے گا۔
فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے دو اگست کو سنایا تھا جس کے تحت ممنوعہ فنڈنگ کو ضبط کرنے سے پہلے الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعات 204اور 212کے تحت کارروائی کرتے ہوئے عمران خان کو نوٹس جاری کیے گئے تھے لیکن اس دوران خان صاحب کے قانونی ماہرین کی ٹیم نے الیکشن کمیشن کے دائرۂ اختیار کو چیلنج کر کے کارروائی ملتوی کروا دی تھی لیکن اب ایف آئی اے نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کی روشنی میں سیکشن 212کے تحت اور آئین کے آرٹیکل 17(3) کے تحت کارروائی کا آغاز کر رکھا ہے اور عمران خان صاحب نے ایف آئی اے کی کارروائی روکنے کے لیے حکم امتناعی بھی حاصل کر رکھا ہے۔ایف آئی اے کے مطابق خان صاحب نے بیرون ملک سے آنے والی رقم اسلام آباد میں ایک نجی بینک سے نکلوائی اور وہ اکاؤنٹ بھی خود استعمال کیا۔ ایف آئی اے کے جاری کردہ نوٹس کے مطابق ایف آئی اے کے سامنے پیش نہیں ہونے کی صورت میں خان صاحب قانون کی زد میں آ سکتے ہیں کیونکہ اس کیس میں انہوں نے حفاظتی ضمانت کے لیے تاحال عدالت سے رجوع نہیں کیا‘ لیکن اگر حالیہ فائرنگ کے واقعہ کے بعد ایف آئی اے کی طرف سے خان صاحب کی گرفتاری جیسا کوئی اقدام کیا جاتا ہے تو یہ تحریک انصاف کے کارکنان کو مزید غصہ دلا سکتا ہے اور ملکی صورتحال کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے۔ ممنوعہ فنڈنگ کیس الیکشن کمیشن آف پاکستان میں بھی زیر سماعت ہے‘ عمران خان صاحب کو چاہیے کہ صحت یابی کے بعد کیس کی سماعت میں ازخود پیش ہو کر اپنی وضاحت دیں‘ اگر وہ الیکشن کمیشن کے بار بار شوکاز نوٹس جاری کرنے کے باوجود پیش نہیں ہوتے تو الیکشن کمیشن آف پاکستان عدم تعاون کی بنیاد پر ان کے خلاف فردِ جرم عائد کرتے ہوئے ممنوعہ فنڈنگ کیس کو سیکشن 204کے تحت بحق سرکار ضبط کر لینے کا مجاز ہے۔ الیکشن کمیشن کو الیکشن ایکٹ کے سیکشن 215کے تحت پارٹی نشان واپس لینے کے اختیارات بھی حاصل ہیں۔
الیکشن کمیشن 21 اکتوبر کو عمران خان کے خلاف دائر کردہ توشہ خانہ ریفرنس میں بھی انہیں نااہل قرار دے چکا ہے۔ توشہ خان ریفرنس میں نااہلی کے بعد لاہور ہائی کورٹ میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو پارٹی کی سربراہی سے ہٹانے کے لیے درخواست بھی سماعت کے لیے منظور ہو چکی ہے۔ درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ الیکشن کمیشن نے عمران خان کو نااہل قراردیا ہے اور قانون کے مطابق نااہل شخص پارٹی چیئرمین کا عہدہ نہیں رکھ سکتا۔ نواز شریف کے معاملے میں عمران خان نے درخواست دائر کی تھی اور نواز شریف کو پارٹی صدارت سے ہٹایا گیا تھا‘ لیکن اس کیس کا کیا بنتا ہے اس بارے سر دست کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔
چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان پر 10 ارب روپے ہرجانے کا مقدمے کرنے کا اعلان بھی کر رکھا ہے۔ لیکن میری اطلاعات کے مطابق الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 237 کے تحت چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف ہرجانے یا ہتک عزت کا دعویٰ دائر نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ فیصلے آئین و قانون کی روشنی میں ہوتے ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے فیصلوں کے خلاف تو اعلیٰ عدالتوں میں اپیل دائر کی جا سکتی ہے مگر چیف الیکشن کمشنر پر کسی قسم کا مقدمہ‘ بشمول ہرجانے کا مقدمہ‘ دائر نہیں کیا جا سکتا کیونکہ الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 237 میں ان کو تمام ہتک آمیز مقدمات سے استثنیٰ دیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ 21 اکتوبر 2022ء کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے آئین کے آرٹیکل 63 ون پی اور الیکشن ایکٹ 2017ء کے دفعات 137‘ 167‘ 173اور 174کے تحت فیصلہ سناتے ہوئے عمران خان کو اپنے سالانہ اثاثہ جات میں حقائق کو چھپانے پر بدعنوانی کا مرتکب قرار دیا تھا اور انہیں قومی اسمبلی کی رکنیت سے نااہل قرار دیا تھا۔ اسی فیصلے کے خلاف عمران خان نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی جو زیر سماعت ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے تاحال عمران خان کی نااہلیت کے بارے میں کوئی حتمی حکم جاری نہیں کیا۔اس دوران الیکشن کمیشن آف پاکستان اپنے فیصلے کی روشنی میں اور الیکشن ایکٹ کی دفعات 137‘ 167 اور 173کے تحت عمران خان کے خلاف فوجداری کا مقدمہ متعلقہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی کورٹ میں دائر کرنے جا رہا ہے جس کے تحت عمران خان کو بدعنوانی کا مرتکب ثابت ہونے پر تین سال کی سزا سنائی جا سکتی ہے اور الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 120اور 192کے تحت ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج مقدمے کی کارروائی کے بارے میں الیکشن کمیشن کو آگاہ کرنے کا بھی پابند ہے۔
اب بات کرتے ہیں لانگ مارچ کی‘ لانگ مارچ کے کنٹینر پر فائرنگ کے بعدمارچ کے مستقبل اور اس کے اسلام آباد پہنچنے کے حتمی وقت کے حوالے سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اگرچہ تحریک انصاف کی قیادت نہ صرف اس لانگ مارچ کو جاری رکھنے کا اعلان کر چکی ہے بلکہ اپنے مطالبات کی منظوری تک ملک گیر احتجاج کا عندیہ بھی دے چکی ہے۔ لیکن اس سیاسی رسہ کشی میں ملکی استحکام کو کسی صورت پس پشت نہیں ڈالا جانا چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں