"KDC" (space) message & send to 7575

خیبرپختونخوا میں الیکشن تاریخ کا اعلان

گزشتہ روز گورنر خیبرپختونخوا غلام علی نے صوبے میں عام انتخابات کے لیے 28مئی کی تاریخ دے دی ہے۔ گورنر خیبرپختونخوا نے مذکورہ تاریخ کا اعلان اسلام آباد میں چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی زیر صدارت منعقدہ اجلاس میں کیا۔ اجلاس کے دوران گورنر نے صوبے کی سکیورٹی صورتحال پر بھی الیکشن کمیشن کو بریفنگ دی۔ سکیورٹی صورتحال کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ صوبے میں حالات کافی گمبھیر ہیں‘ وہاں شدت پسند عناصر مردم شماری ٹیموں پر حملے کر رہے ہیں‘ ایسے میں پُرامن انتخابی مہم کیونکر ممکن بنائی جا سکے گی۔گورنر خیبرپختونخوا کا یہ بھی کہنا تھا کہ میرا کام صوبے میں الیکشن کے لیے تاریخ دینا تھا‘ وہ میں نے دے دی ہے‘ اب مقررہ تاریخ پر الیکشن کرانا الیکشن کمیشن کا کام ہے۔ گورنر خیبر پختونخوا کا یہ موقف درست ہے کیونکہ آئین کے آرٹیکل 105 کے تحت گورنر کے اختیارات بڑے محدود ہیں اور وہ صرف الیکشن کی تاریخ دینے کے مجاز ہیں اور صوبے میں امن و امان کی صورت حال اور الیکشن کے دیگر معاملات سے گورنر کا کوئی لینا دینا نہیں‘ یہ نگران حکومت اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ذمہ داری ہوتی ہے۔اُسی روز گورنر خیبر پختونخوا نے صدر مملکت سے ایوانِ صدر میں ملاقات کی۔ ملاقات کے دوران صدرِ مملکت اور گورنر نے آئین کے آرٹیکل 224 (2) اور یکم مارچ کے سپریم کورٹ کے حکم کی روشنی میں الیکشن کے حوالے سے گفتگو کی۔ یہ ملاقات صدرِ مملکت کی دعوت پر طے پائی تھی جس کا مقصد خیبر پختونخوا میں الیکشن کے حوالے سے موجود ڈیڈ لاک ختم کرنا اور وہاں نوے روز میں الیکشن کے انعقاد کے حوالے سے گفتگو کرنا تھا۔ اس موقع پر صدرِ مملکت نے گورنر خیبر پختونخوا کو یکم مارچ کو جاری ہونے والے سپریم کورٹ کے فیصلے کی بھی یاددہانی کرائی جس کے مطابق گورنر آئین کے مطابق صوبے میں نوے روز میں الیکشن کا انعقاد یقینی بنانے کے پابند ہیں۔ صدرِ مملکت نے آئین کی پاسداری کیلئے مقررہ مدت کے اندر انتخابات کے انعقاد پر زور دیا۔
پنجاب میں کل یعنی 16مارچ کاغذاتِ نامزدگی جمع کرانے کا آخری روز ہے۔ الیکشن کمیشن نے 8مارچ کو پنجاب کا الیکشن شیڈول جاری کیا تھا جس کے مطابق امیدوار وں کو12 سے 14 مارچ تک کاغذاتِ نامزدگی جمع کرانے کا پابند بنایا گیا تھا لیکن گزشتہ روز الیکشن کمیشن کی جانب سے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرانے کی تاریخ میں 2 دن کا اضافہ کر دیا گیا۔ پنجاب میں صوبائی اسمبلی کی 297نشستوں پر کاغذاتِ نامزدگی جمع کرائے جانے ہیں۔ خواتین اور اقلیتوں کی 74مخصوص نشستوں پر بھی کل تک ہی کاغذاتِ نامزدگی جمع کرائے جانے ہیں۔ پنجاب کے 36 اضلاع میں ڈپٹی کمشنرز کو ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران کی ذمہ داری سونپی گئی ہے‘ اس سلسلہ میں الیکشن کمیشن کی جانب سے نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا گیا ہے۔ مجموعی طور پر پنجاب کے 297 حلقوں میں بیورو کریسی کو ہی ریٹرننگ افسران تعینات کیا گیا ہے جبکہ اقلیتوں اور خواتین کی مخصوص نشستوں کے چیف الیکشن کمشنر پنجاب ہی ریٹرننگ افسر مقرر کیے گئے ہیں‘ اس کا نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا گیا ہے۔پاکستان تحریک انصاف پنجاب میں ہونے والے عام انتخابات کے لیے بیورو کریسی کے ریٹرننگ افسران کی مخالفت کرتے ہوئے عدالتی افسران فراہم کرنے کے لیے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کو خط لکھ چکی ہے۔جس کا متن یہ ہے کہ وفاقی اور پنجاب کی نگران حکومتیں تحریک انصاف کی قیادت اور کارکنان کو انتقام کا نشانہ بنارہی ہیں۔ الیکشن کمیشن بھی اپنی غیر جانبداری برقرار رکھنے میں ناکام رہا ہے۔ اس لیے شفافیت کے پیش نظر انتخابات عدالتی افسران پر مشتمل ڈی آر اوز اور آر اوز کے ذریعے ہی کرائے جائیں۔ عدالتی افسران کے بجائے اگر حکومت کے ماتحت افسران کو انتخابات کا انعقاد سونپا گیا تو ان کی شفافیت کے امکانات معدوم ہو جائیں گے اور عوام بھی انہیں قبول نہیں کریں گے۔ واضح رہے کہ اس سے قبل انتخابات کے انعقاد کے لیے عدالتی افسران کی نامزدگیوں کے لیے عدلیہ کی طرف سے الیکشن کمیشن کی درخواست بھی مسترد کی جا چکی ہے۔عدلیہ سے ریٹرننگ اور ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران لینے کی الیکشن کمیشن آف پاکستان کی تجویز سے اتفاق اس لیے نہیں کیا گیا تھا کہ عدلیہ کے پاس پہلے ہی بہت کیسز زیر سماعت ہیں‘ اس لیے لاہور ہائیکورٹ اپنا جوڈیشل سٹاف اور جوڈیشل افسران کی خدمات دینے سے قاصر ہے۔ یہی جواب الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ میں بھی جمع کرایا تھا۔ دوسری طرف الیکشن کمیشن نے صدرِ مملکت کی طرف سے اعلان کردہ تاریخ‘ 30اپریل کو پنجاب میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے انعقاد کیلئے تیاریاں شروع کر دی ہیں۔ اس ضمن میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کو نگران حکومت کی معاونت حاصل ہے اور کمیشن الیکشن کے انعقاد کیلئے امن و امان کی صورتحال پر بھی گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔ پنجاب کی نگران حکومت نے بھی الیکشن کمیشن کو صوبے میں انتخابات کے حوالے سے بریف کر دیا ہے۔ پنجاب کے اعلیٰ سرکاری و پولیس حکام نے بھی اپنا موقف پیش کرتے ہوئے پنجاب اور خاص طور پر لاہور میں جو سیاسی کشمکش چل رہی ہے‘ اس پر مضبوط موقف پیش کیا ہے؛ تاہم اس حوالے سے کوئی حتمی فیصلہ چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں الیکشن کمیشن کا پانچ رکنی بنچ ہی کرے گا۔
الیکشن کمیشن‘ الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 237 کے تحت اپنے مانیٹرنگ سسٹم کے نظام کو مؤثر بنانے کا بھی پابند ہے۔ الیکشن آبزرورز‘ جن کا تعلق مختلف غیر سرکاری تنظیموں سے ہو گا‘ انہیں بھی مانیٹرنگ کی مکمل سہولت دی جائے گی اور میڈیا کو بھی پولنگ سٹیشنوں کے اندر جانے کے لیے خصوصی کارڈز فراہم کیے جائیں گے۔ شفاف انتخابات یقینی بنانے کیلئے ہر ممکن طریقہ اختیار کیا جائے گا۔ اس ساری صورتحال میں پارلیمان بالکل غیر مؤثر ہو کر رہ گئی ہے۔ ملک میں نئے انتخابات کے حوالے سے ایسی بحث جاری ہے کہ کوئی اور موضوع قابلِ بحث قرار نہیں پا رہا۔الیکشن کمیشن نے تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ پنجاب اور خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلیوں کے عام انتخابات کے حوالہ سے مشاورت کر لی ہے اور ان سے ان کی آئینی و قانونی رائے لے لی ہے۔ الیکشن کمیشن نے آئین کے آرٹیکل 220 کے تحت تمام معتبر ایجنسیوں سے بھی امن و امان اور دیگر خدشات کے بارے میں ان کی بریفنگ لے لی ہے۔
ملک کو درپیش سنگین مسائل سے نبرد آزما ہونے کیلئے قومی اتحاد و یکجہتی آج جس قدر ناگزیر ہے‘ سیاسی قیادت کے ذاتی مفادات کی جنگ کی وجہ سے وہ موجودہ انتشار و خلفشار کی وجہ سے ناپید ہے۔ معیشت کی ڈوبتی کشتی کو گرداب سے نکالنے کیلئے تمام تر انحصار بظاہر آئی ایم ایف سے محض ایک ارب ڈالر کے قرض کی نئی قسط کے حصول پر ہے‘ جس کیلئے سخت ترین شرائط کی تکمیل کا سلسلہ جاری ہے لیکن یہ قسط ملنے کے بعد بھی معاشی بحالی کا سفر اسی صورت ممکن ہے‘ جب ملک میں سیاسی استحکام قائم ہوگا۔ ملک میں سیاسی استحکام کی ایک صورت ذاتی مفادات کو پس پشت ڈالتے ہوئے ملکی مفادات کو ترجیح بنانا اور پورے ملک میں ایک ہی دن عام انتخابات کا انعقاد ہے۔ ضروری ہے کہ موجودہ سیاسی اختلافات کے حل کیلئے ایک ہی روز میں انتخابات کیلئے درمیانی راستہ نکال لیا جائے۔ آئندہ عام انتخابات اعتماد کی فضا میں منعقد کرانے کیلئے ملکی سطح پر مارچ 1969ء کی طرز پر بامعنی‘ حقیقت پر مبنی‘ ذاتی مفادات‘ انا پرستی اور خودغرضی سے بالاتر ہو کر آل راؤنڈ ٹیبل کانفرنس پاکستان کے چیف جسٹس کی سربراہی میں منعقد کی جائے جس میں تمام سیاسی قیادت کو ملکی مفاد کو بالاتر رکھنے کا پابند بنایا جائے اور سیاسی جماعتوں کے اندر جو مکتی باہنی کی سوچ کے حامل نوجوان داخل ہو چکے ہیں‘ ان کو اپنی منفی سوچ تبدیل کرنے کی طرف راغب کیا جائے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں