"KDC" (space) message & send to 7575

عمران خان کی گرفتاری اور رہائی

گزشتہ روز سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی القادر ٹرسٹ کیس میں گرفتاری غیرقانونی قرار دیتے ہوئے ان کو فوری طور پر رہا کرنے کا حکم دے دیا۔خیال رہے کہ منگل کے روز عمران خان 7 مقدمات میں ضمانت کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچے تھے جہاں سے رینجرز نے ان کو حراست میں لے لیا تھا۔ نیب کا اصرار تھا کہ عمران خان کی گرفتاری نیب کی جانب سے کی گئی انکوائری اور تفتیش کے قانونی تقاضے پورا کرنے کے بعد کی گئی۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی اُسی روز خان صاحب کی گرفتاری کا نوٹس لیا تھا جس کے فیصلے میں ان کی گرفتاری کو قانون کے مطابق قرار دیا گیا تھا۔گرفتاری کے اگلے روز عمران خان کو پولیس لائنز میں منتقل کردہ احتساب عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔عدالت میں نیب نے ان کے 14 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی تھی؛ تاہم عدالت نے انہیں عمران خان کا 8 روزہ ریمانڈ دے دیا تھا۔تحریک انصاف کے چیئرمین کی 9 مئی کو گرفتاری کے بعد سے ملک بھر میں پارٹی کارکنوں کی جانب سے ہنگامہ آرائی کا سلسلہ جاری رہا۔اس دوران عسکری املاک اور تنصیبات پر حملہ کیا گیا‘ سرکاری عمارتوں میں آگ بھی لگائی گئی‘ سرکاری و نجی گاڑیوں کو نذرِ آتش کیا گیا جبکہ پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں میں کم از کم 8 افراد جاں بحق اور 290 زخمی ہوئے۔اُمید کی جانی چاہیے کہ آئندہ کسی سیاسی جماعت کے کارکنوں کی طرف سے ایسا شدت پسندانہ طرزِ عمل نہیں اپنایا جائے گا کیونکہ موجودہ حالات میں ملک کسی انتشار کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
اُدھر اعلیٰ عدلیہ کے بعض فیصلوں کو‘جنہیں آئین کی تشریح سے منسوب کیا گیا ہے‘ بنیاد بنا کر سپریم کورٹ میں تقسیم کے تاثر کو ہوا دی جا رہی ہے۔ عدالتِ عظمیٰ کے تین رکنی بینچ نے نوے روز میں الیکشن نہ ہونے کی صورت میں توہینِ عدالت لگانے کا جوعندیہ دیا تھا‘ پارلیمنٹ نے اسے درخور اعتنا نہیں سمجھا۔ پارلیمنٹ میں عدالتی اصلاحات کے حوالے سے ہونیوالی قانون سازی اور آئین کی خلاف ورزی پر سنگین نتائج کے عندیے سے پیدا ہونے والی صورتحال کا اہم حلقے بغور جائزہ لے رہے ہیں۔ اگر موجودہ حالات میں توہینِ عدالت لگتی بھی ہے تو بھی اس فیصلے پر عملدرآمد کو روکنے کیلئے نئے راستے تلاش کیے جائیں گے۔ جس سے ملک کے سیاسی نظام کیساتھ ساتھ دیگر نظاموں کے بھی لپیٹے جانے کا اندیشہ ہے۔ نوے روز کے اندر الیکشن کرانے کیلئے آئین کے بنیادی ڈھانچے کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ اس کیلئے محض آئین کی دفعہ 224 کا سہارا لیا جا رہا ہے جبکہ یہ دفعہ دیگر دفعات(3) 218‘ 222 اور اہم ترین دفعہ 51 کی مرہونِ منت ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان کے فیصلہ کا محور یہی ایک نکتہ ہے۔ آئین کے آرٹیکل 51 کے تحت مردم شماری کا حتمی گزٹ نوٹیفیکیشن بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے‘ جس کا فیصلہ مشترکہ مفادات کونسل کے ستمبر 2021ء میں منعقدہ اہم ترین اجلاس میں اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کی سربراہی میں کیا گیا تھا کہ چونکہ جنوری 2018ء کی مردم شماری پر سندھ حکومت اور اہم ترین اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ پاکستان نے شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا اور 25 جولائی 2018ء کے انتخابات متنازع مردم شماری کے تحت ہوئے تھے‘ جسے نظریۂ ضرورت کے تحت آئین کے آرٹیکل 51 میں ترمیم کرتے ہوئے عبوری مردم شماری کی شق کے تحت تسلیم کیا گیا تھا اور یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ آئندہ انتخابات کیلئے نئی مردم شماری کرائی جائے گی اور نئی مردم شماری کے حتمی گزٹ نوٹیفیکیشن کے مطابق ازسرِ نو حلقہ بندیاں کی جائیں گی۔ اُس وقت کے وزیراعظم عمران خان کی سربراہی میں مشترکہ مفادات کونسل نے فیصلہ کیا تھا کہ 31 دسمبر 2022ء تک ساتویں مردم شماری مکمل کرلی جائے گی اور اس کو مدنظر رکھتے ہوئے الیکشن کمیشن آف پاکستان مارچ 2023ء تک نئی حلقہ بندیاں مکمل کر کے جولائی 2023ء تک انتخابی فہرستوں کے نظرثانی کے مراحل طے کر کے حتمی گزٹ نوٹیفیکیشن جاری کر دے گا اور اگست 2023ء میں اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد اکتوبر 2023ء میں عام انتخابات کا انعقاد آئین کے مطابق ممکن بنایا جائے گا۔ موجودہ حکومت ساتویں مردم شماری اب 15 مئی تک مکمل کرنے کا عندیہ دے رہی ہے لہٰذا توقع کی جا رہی ہے کہ 31 مئی تک مردم شماری کا حتمی گزٹ نوٹیفیکیشن جاری ہو جائے گا اور الیکشن کمیشن 15اگست تک حلقہ بندیاں مکمل کروانے کی پوزیشن میں ہوگا کیونکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان اکثرو بیشتر حلقہ بندیوں پر نظرثانی کرتا رہتا ہے لہٰذا ساتویں مردم شماری کے نتائج کی روشنی میں الیکشن کمیشن کو نئی حلقہ بندیاں کرنے میں دقت پیش نہیں آئے گی۔
مجھے حیرانی ہے کہ اٹارنی جنرل آف پاکستان نے معزز چیف جسٹس آف پاکستان کی توجہ ساتویں مردم شماری کی طرف کیوں مبذول نہیں کروائی اورمشترکہ مفادات کونسل کا یہ اہم ترین فیصلہ تین رکنی بنچ کو پیش نہ کرنے کا جواز کیا تھا؟ کیونکہ جب تک مردم شماری کا حتمی گزٹ نوٹیفیکیشن جاری نہیں ہو تا‘ حلقہ بندیوں پر نظر ثانی نہیں ہو سکتی اور پرانی حلقہ بندیوں پر الیکشن کا انعقاد مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے کی خلاف ورزی ہے۔اس وقت ملک میں سیاسی و آئینی بحران موجود ہے۔ پارلیمنٹ اور عدلیہ بھی آمنے سامنے ہیں۔ اداروں کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ملکی مفادات کے پیش نظر ریاستی اداروں بشمول الیکشن کمیشن آف پاکستان کا احترام آئین کے آرٹیکل 5 کے تحت لازم وملزموم ہے۔ اس لیے اس حوالے سے احتیاط کا دامن تھامے رکھنا چاہیے۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے اپنی ایک حالیہ تقریر میں ملک کے سابق چیف جسٹس اے آر کارنیلیئس کا ذکر کیا ہے‘ انہوں نے 1954ء میں انتخابی اصلاحات پر اہم تجاویز پیش کی تھیں‘ اگر اُن تجاویز پر عمل درآمد کر لیا جاتا تو ہمارا انتخابی نظام شفاف ہو سکتا تھا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے پریکٹس اینڈ پروسیجرز ایکٹ 2023ء کے حوالے سے پارلیمنٹ میں ہونیوالی کارروائی کا ریکارڈ سپریم کورٹ میں جمع کرانے کے احکامات نے وفاقی حکومت اور سپیکر قومی اسمبلی کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ حکومت کا موقف ہے کہ پارلیمان کے ریکارڈ کا کسٹوڈین سپیکر قومی اسمبلی ہے اور ایسا کوئی جواز موجود نہیں ہے کہ پارلیمنٹ کی کارروائی کا ریکارڈ سپریم کورٹ کو دیا جائے۔ آئین کے آرٹیکل 69 کے تحت اگرچہ پارلیمنٹ کی کارروائی کا ریکارڈ کسی ادارے کو دینے کی ممانعت ہے اور پارلیمنٹ میں جو تقاریر کی جاتی ہیں‘ اس کا باقاعدہ ریکارڈ موجود ہوتا ہے۔ اسی طرح کی صورتحال سابق چیف جسٹس سید سجاد علی شاہ کے دور میں بھی پیش آئی تھی۔ اُس وقت قومی اسمبلی کے اراکین نے چیف جسٹس سید سجاد علی شاہ کی ایک رولنگ‘ جو توہین عدالت کے بارے میں تھی‘ کے خلاف ردِعمل ظاہر کیا تھا۔ نواز شریف اور وزرا نے سجاد علی شاہ پر شدید تنقید کی تھی۔ جب سابق چیف جسٹس سید سجاد علی شاہ نے قومی اسمبلی کا ریکارڈ طلب کیا تو سپیکرقومی اسمبلی جو کہ غالباً الٰہی بخش سومرو تھے‘ نے یہ ریکارڈ دینے سے انکار کر دیا تھا لیکن جب سپریم کورٹ نے براہِ راست سیکرٹری قومی اسمبلی مرحوم محمد خان گورائیہ کو حکم جاری کیا تو وہ اسمبلی کا مکمل ریکارڈ لے کر رجسٹرار آفس پہنچ گئے تھے اور اسی ریکارڈ کو مدِنظر رکھتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف کو توہینِ عدالت کا نوٹس جاری کرتے ہوئے طلب کر لیا گیا اور وزیراعظم نواز شریف کو توہینِ عدالت کے نوٹس پر لامحالہ سپریم کورٹ میں سابق چیف جسٹس کی عدالت میں ذاتی حیثیت سے پیش ہونا پڑا۔اب اگر سپریم کورٹ آف پاکستان نے پارلیمانی کارروائی کا ریکارڈ جمع کروانے کا حکم دیا ہے تو پارلیمنٹ کو لامحالہ یہ ریکارڈ پیش کرنا پڑے گا اور بعد ازاں تمام تقاریر کا جائزہ لینے کے بعد سپریم کورٹ کا بنچ ہی فیصلہ کرے گا کہ کس کے خلاف توہینِ عدالت لگائی جائے گی۔ اگر ریکارڈ دیکھنے کے بعد توہین عدالت کی فردِ جرم عائد ہو جاتی ہے تو اس کے نتائج جو بھی نتائج نکلیں گے‘ وہ بڑی اہمیت کے حامل ہوں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں