"KDC" (space) message & send to 7575

توشہ خانہ کیس کا اہم کردار

سات جولائی کو پارلیمانی کمیٹی برائے انتخابی اصلاحات کا پہلا اجلاس منعقد کیا گیا جس میں سردار ایاز صادق کمیٹی کے چیئرمین منتخب ہوئے‘ جن کا کہنا تھا کہ انتخابی اصلاحات کے باعث عام انتخابات تاخیر کا شکار نہیں ہوں گے۔البتہ آئندہ انتخابات کس مردم شماری کے تحت ہوں گے یہ ابھی واضح نہیں۔ اس وقت تک 2017ء کی مردم شماری ہی قابلِ عمل ہے‘ 2023ء کی مردم شماری کی منظوری تک اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے‘ اگر الیکشن سے قبل نئی مردم شماری کو قانونی حیثیت مل گئی تو الیکشن کی پوزیشن تبدیل ہو سکتی ہے۔ جبکہ انتخابی اصلاحات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ الیکشن قوانین میں کیا ترامیم کرنی ہیں‘ اس کے لیے تمام سیاسی جماعتوں‘ قومی اسمبلی اور سینیٹ اراکین پر مشتمل کمیٹی قائم کی گئی ہے‘ انتخابی اصلاحات کے حوالے سے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں جمع تجاویز کا جائزہ لیا جائے گا اور تمام فریقین کے ساتھ مل کر متفقہ دستاویز تیار کرنے کی کوشش کی جائے گی‘ اس سلسلے میں پارلیمانی کمیٹی جلد از جلد سفارشات کو حتمی شکل دینے کی کوشش کرے گی کیونکہ ہمارے پاس صرف دس روز ہیں اور ہم نے جلد از جلد انتخابی اصلاحات کا کام مکمل کرنا ہے اور 13 اگست سے پہلے ان اصلاحات کو دونوں ہاؤسز سے منظور بھی کرانا ہے۔ حالات و واقعات‘ حکومتی زعما کے بیانات اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مضبوط عزم اور تیاریوں کو دیکھتے ہوئے تو یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ عام انتخابات تاخیر کا شکار نہیں ہوں گے اور اپنی مقررہ مدت کے دوران منعقد کیے جائیں گے۔
دوسری طرف آئین کا آرٹیکل 51بھی یہی کہتا ہے کہ جب تک نئی مردم شماری کو قانونی حیثیت نہیں مل جاتی تب تک پرانی مردم شماری ہی نافذ العمل رہے گی۔ اس دو ران اگر وفاقی حکومت آئین کے آرٹیکل 51 کے تحت نئی مردم شماری کا حتمی گزٹ نوٹیفیکیشن جاری کر دیتی ہے اور اسے آئینی حیثیت بھی مل جاتی ہے تو عام انتخابات کا الیکشن شیڈول تبدیل ہو سکتا ہے‘ جس کا اختیار الیکشن کمیشن کے پاس ہی ہے کیونکہ الیکشن ایکٹ 2017ء کے تحت الیکشن کمیشن انتخابی معاملات میں مکمل طور پر بااختیار ہے اور الیکشن شیڈول میں رد و بدل کر سکتا ہے۔ یعنی الیکشن کمیشن آف پاکستان بااختیار ادارہ ہے اور آئین کے آرٹیکل 220 کے تحت اسے مکمل آزادی حاصل ہے۔دیکھا جائے تو نئی مردم شماری حتمی گزٹ نوٹیفیکیشن سے پہلے ہی متنازع ہو چکی ہے۔ سندھ ‘ بالخصوص کراچی کی آبادی کے حوالے سے سندھ کی سیاسی جماعتوں کی طرف سے تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے اور حالات و واقعات یہی بتاتے ہیں کہ نئی مردم شماری کے حتمی گزٹ نوٹیفیکیشن کے بعد سندھ کی سیاسی جماعتیں اسے عدالتی فورم پر چیلنج کر سکتی ہیں‘ اگر ایسا ہوتا ہے تو الیکشن کمیشن لامحالہ2017ء کی مردم شماری کی بنیاد پر کی گئی حلقہ بندی کو ہی مدنظر رکھے گا اور پرانی مردم شماری کے مطابق ہی اگلے عام انتخابات کا انعقاد کروا دیا جائے گا۔ 12 اگست کو قومی اسمبلی اور دونوں صوبائی اسمبلیوں (سندھ اور بلوچستان) کی تحلیل کے بعد ملکی سیاست پر چھائے سے دُھند آلود بادل چھٹ جائیں گے۔ اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد الیکشن کمیشن آئین کے آرٹیکل 224اور 224 (اے) کے تحت وفاق اور دونوں صوبوں میں نگران سیٹ اَپ تشکیل دینے کی پوزیشن میں ہوگا۔
یہ اطلاعات بھی ہیں کہ الیکشن کمیشن اسلام آباد اور پنجاب میں نگران سیٹ اَپ کی زیر نگرانی بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کا خواہاں ہے‘ اس ضمن میں رواں ماہ کے آخر تک پنجاب میں مقامی حکومتوں کے انتخابات کا شیڈول بھی جاری ہو سکتا ہے اور قوی امید ہے کہ ستمبر تک لوکل گورنمنٹ کے انتخابات مکمل بھی ہو جائیں۔ واضح رہے کہ پنجاب میں لوکل گورنمنٹ کے انتخابات کا بوجھ صوبائی حکومت ہی اٹھائے گی کیونکہ آئین کے آرٹیکل 141 (اے) کے تحت بلدیاتی انتخابات کے اخراجات متعلقہ صوبائی حکومتیں ہی ادا کرتی ہیں جبکہ بلدیاتی ایکٹ 2022ء کے تحت بھی یہ ذمہ داری صوبائی حکومت پر ہی عائد ہوتی ہے۔ یوں قومی انتخابات سے پیشتر پنجاب میں لوکل گورنمنٹ کا نظام بحال ہو تا نظر آ رہا ہے جبکہ بلوچستان‘ سندھ اور کے پی میں پہلے ہی بلدیاتی انتخابات کا عمل مکمل ہو چکا ہے۔یوں قطع نظر اس کے کہ نئی مردم شماری کا گزٹ نوٹیفیکیشن جاری ہوتا ہے یا نہیں‘ اگر اسمبلیاں مقررہ مدت میں تحلیل ہو جاتی ہیں اور نگران سیٹ اَپ بھی مقررہ مدت میں تشکیل پا جاتا ہے تو انتخابات کے مقررہ مدت میں انعقاد کی راہ بھی ہموار ہو جائے گی۔ شاید انہی حالات کے پیش نظر الیکشن کمیشن اپنے حصے کی تیاریاں مکمل کر چکا ہے۔
دوسری جانب آئی ایم ایف کے وفد کی سٹینڈ بائی معاہدے کی حتمی منظوری سے قبل قومی سیاسی جماعتوں کی قیادت سے ملاقاتیں غیر معمول نہیں ہیں‘ ماضی میں بھی آئی ایم ایف نے سیاسی جماعتوں سے بیک ڈور ملاقاتوں کے لیے اپنے فوکل پرسنز رکھے ہوئے تھے اور ان کو معقول معاوضہ دیا جاتا تھا۔ سیاسی جماعتیں بھی انہی فوکل پرسنز کے ذریعے آئی ایم ایف کو اپنے اہم پیغامات اور تحفظات پہنچاتی رہی ہیں۔ آئی ایم ایف کے وفد کی قومی سیاسی جماعتوں کی قیادت سے ملاقاتوں کا مقصد یہ یقین دہانی حاصل کرنا ہے کہ سٹینڈ بائی معاہدہ اپنی مقررہ مدت کے دوران اور ان کی طے شدہ شرائط کے مطابق پورا کیا جائے اور کسی سیاسی سٹیک ہولڈر کی طرف سے اس کی راہ میں روڑے نہ اٹکائے جائیں۔ سابق وزیراعظم اور چیئرمین تحریک انصاف کی طرف سے آئی ایم ایف معاہدے کو جس طرح پس پشت ڈالا گیا اس سے نہ صرف ملکی وقار مجروح ہوا کہ پاکستانیوں کو اپنے وعدوں کا کوئی پاس نہیں‘بلکہ ملکی معیشت کیلئے ایسی باردوی سرنگیں بھی بچھائی گئیں جس کا خمیازہ قوم ابھی تک بھگت رہی ہے۔
ادھر اسلام آباد کی سیشن عدالت نے چیئرمین تحریک انصاف کے خلاف توشہ خانہ کیس قابلِ سماعت قرار دے دیا ہے اورکیس کی سماعت 12 جولائی کے لیے مقرر کی ہے۔ عدالت نے تمام گواہان کو بھی شہادت کے لیے طلب کر لیا ہے۔ہفتے کو کیس کی سماعت کے موقع پر نہ تو چیئرمین پی ٹی آئی عدالت کے روبرو پیش ہوئے اور نہ ہی ان کی قانونی ٹیم کے مرکزی وکیل عدالت آئے جبکہ عدالت نے گزشتہ سماعت پر انہیں کو آئندہ سماعت پر پیش ہونے کی واضح ہدایت بھی کی تھی۔عمران خان پر بطور وزیرِ اعظم توشہ خانہ سے قیمتی تحائف وصول کرنے اور انہیں اپنے گوشواروں میں ظاہر نہ کرنے کا الزام ہے۔یہ کیس آئینی ریفرنس کے حوالہ سے بڑی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 63 (ون) کے تحت ریفرنس پر 90 روز تک سماعت کی تھی اور آئین کے آرٹیکل 63 ون (ایف) کے تحت فیصلہ دیتے ہوئے فوجداری مقدمہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اسلام آباد کو بھجوا دیا تھا۔ سابق وزیراعظم نے توشہ خانہ کیس اپنے ملٹری سیکرٹری اور دیگر اہم افراد پر ڈالنے کی کوشش کی تھی۔ اب یہ خبریں گردش کر رہی ہیں کہ جلد ہی ایک ایسی پریس کانفرنس متوقع ہے جس میں توشہ خانہ کیس کے کچھ اہم کردار موجود ہوں گے اور اصل حقائق عوام کے سامنے رکھے جائیں گے کیونکہ انہیں یقین ہو چکا ہے کہ اس کیس میں سابق وزیراعظم کی گرفتاری کا قوی امکان ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ٹرائل کورٹ کو توشہ خانہ کیس قابلِ سماعت ہونے کے بعد معاملے پر سات دن کا وقت دیا تھا مگر دو دن سے نہ تو عمران خان عدالت میں پیش ہوئے نہ ہی ان کے وکیل۔ ان حالات میں تو یہی نظر آ رہا ہے کہ توشہ خانہ کے اہم کردار کی پریس کانفرنس کے بعد چیئرمین پی ٹی آئی بند گلی میں کھڑے ہوں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں