"KDC" (space) message & send to 7575

سائفر کو پبلک کرنے کی سزا

19جولائی کو سابق وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان نے دفعہ 164 کے تحت مجسٹریٹ کے سامنے امریکی سائفر سے متعلق اپنا اعترافی بیان ریکارڈ کروا دیا ہے۔ اپنے بیان میں اعظم خان نے کہا کہ سابق وزیراعظم نے تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے اور اپنی حکومت بچانے کے لیے سائفر کا ڈرامہ رچایا تھا۔اعظم خان نے امریکی سائفر کو عمران خان کی ایک سوچی سمجھی قرار دیا اور بتایا کہ سابق وزیر اعظم نے کس طرح سائفر کے معاملے میں پوری کابینہ کو ملوث کیا اور پھر انہیں یہ بتایا گیا کہ سائفر کو کیسے استعمال کیا جا سکتا ہے۔بقول اعظم خان سابق وزیر اعظم نے اس سیکرٹ مراسلے کو ذاتی مفادات کے حصول کے لیے ملکی اداروں کے خلاف جھوٹا بیانیہ بنانے کے لیے استعمال کیا۔ اعظم خان نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا کہ آٹھ مارچ 2022ء کو سیکرٹری خارجہ نے اعظم خان کو سائفر کے بارے میں بتایا جبکہ شاہ محمود قریشی وزیراعظم کو سائفر کے متعلق پہلے ہی بتا چکے تھے اور وہ اس سائفر کو ارادتاًاپوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بیانیہ بنانے کے لیے استعمال کرنے کا فیصلہ کر چکے تھے۔ اعظم خان کے مطابق سابق وزیراعظم نے وہ سائفر اپنے پاس رکھ لیا تھا جو کہ قانون کی خلاف ورزی تھی اور سائفر واپس مانگنے پر انہوں نے اس کے گم ہونے سے متعلق بتایا تھا۔بقول اعظم خان عمران خان نے ان کے سامنے سائفر کو عوام کے سامنے بیرونی سازش کے ثبوت کے طور پر پیش کرنے کی بات بھی کی تھی۔گزشتہ برس 28 مارچ کو بنی گالا میٹنگ اور پھر 30 مارچ کو کابینہ کی خصوصی میٹنگ میں بھی سائفر کا معاملہ زیربحث آیا۔ ان میٹنگز میں سیکرٹری خارجہ نے شرکا کو سائفر کے مندرجات سے متعلق بتایا۔اس پر اعظم خان نے مشورہ دیا کہ سائفر ایک خفیہ کوڈڈ دستاویز ہے اور اس کے مواد کو ظاہر نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن 31 مارچ 2022ء کو قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا جہاں مذکورہ بالا عمل پھر دہرایا گیا۔
سابق وزیراعظم عمران خان کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کا امریکی سائفر سے متعلق اعترافی بیان تحریک انصاف کے چیئرمین کے خلاف اُسی طرز کی ایک چارج شیٹ ثابت ہو سکتا ہے جو ستمبر 1977ء میں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت کے ڈائریکٹر جنرل فیڈرل سکیورٹی فورس مسعود محمود کے نواب احمد خان قتل کیس میں ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف وعدہ معاف گواہ بننے کے بعد بھٹو صاحب کے خلاف قائم ہوئی تھی۔ اعظم خان کے امریکی سائفر سے متعلق اعترافی بیان کے بعد چیئرمین تحریک انصاف کے گرد قانونی گھیرا تنگ ہوتا نظرآ رہا ہے کیونکہ اس سے پہلے ایک آڈیو لیک میں بھی سابق وزیراعظم کو امریکی سائفر سے کھیلنے کا منصوبہ بناتے ہوئے سنا گیا تھا۔ بادی النظر میں یہی نظر آ رہا ہے کہ امریکی سائفر عمران خان کی ملکی اداروں کے خلاف سوچی سمجھی سازش تھی۔ انہوں نے تحریک عدم اعتماد کے قانونی اور آئینی طریقۂ کار سے بچنے اور اپنے ذاتی مقاصد کی خاطر ملکی سفارتی تعلقات کو داؤ پر لگایا اور پاکستان کے لیے سفارتی بحران پیدا کیا۔ انہوں نے گزشتہ سال ایک انٹرویو میں اعتراف کیا تھا کہ سائفر کی ایک کاپی ان کے پاس تھی جو غائب ہو گئی جبکہ ایک کاپی صدر ڈاکٹر عارف علوی کے پاس ہے۔ وزارتِ خارجہ کو یہ تحقیقات بھی کرانی چاہئیں کہ اہم ترین اوریجنل سائفر خط عمران حان کے ہاں سے کیسے غائب ہو گیا۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ وزیراعظم آفس اور چیئرمین پی ٹی آئی کی رہائش گاہ اہم ترین دستاویزات کے حوالے سے غیر محفوظ جگہ تھی۔ جبکہ ایسی اہم دستاویزات کے لیے ایوانِ صدر اور ایوانِ وزیراعظم میں باقاعدہ جدید ترین سکیورٹی لاکر موجود ہوتے ہیں جن میں ایسی اہم ترین دستاویزات کو محفوظ کیا جاتا ہے۔
اعظم خان کے اعترافی بیان کے بعد یہی محسوس ہوتا ہے کہ اب عمران خان کے خلاف اپنے حلف کی خلاف ورزی کا مقدمہ چلے گا یا آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کا مقدمہ درج ہو گا کیونکہ بطور وزیراعظم انہوں نے آئین کے آرٹیکل (5)91 کے تحت جو حلف 18 اگست 2018ء کو اٹھایا تھا‘ آئین کی رُو سے وہ اس حلف کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ سانحہ نو مئی کے تناظر میں بغاوت کیس‘ توشہ خانہ کیس‘ 190ملین پاؤنڈ کیس‘ غیر شرعی نکاح کیس‘ توہینِ الیکشن کمیشن کیس‘ ممنوعہ فنڈنگ کیس اور اعظم خان کے وعدہ معاف گواہ بننے پر سائفر سکینڈل کیس کی وجہ سے بظاہر چیئرمین پی ٹی آئی پر مایوسی طاری ہے۔ اور اب تو 190ملین پاؤنڈ کیس میں بھی اعظم خان نے عمران خان کے دعووں کے برعکس بیان دے دیا ہے اور احتساب عدالت کو بتا یا ہے کہ کس کس موقع پر عمران خان نے اس حوالے سے کیا کیا ہدایات جاری کیں جبکہ شہزاد اکبر بھی رقم کے حوالے سے مشاورت کرتے رہے۔ اس حوالے سے کابینہ میں سمری پیش کرنے کا فیصلہ بھی سابق وزیراعظم کی منظوری سے ہوا تھا۔ چیئرمین تحریک انصاف اس وقت مختلف مقدمات میں گھرے ہوئے ہیں۔ گوکہ انہیں کچھ مقدمات میں ضمانتوں میں توسیع کی صورت میں ریلیف بھی مل رہا ہے لیکن کسی نہ کسی مقدمہ میں سزا ملنے کی صورت میں ان کی نااہلی کا خطرہ بھی موجود ہے۔
اعظم خان کے دفعہ 164کے تحت ریکارڈ کرائے گئے اعترافی بیان کا جائزہ لیا جائے تو یہ بیان چیئرمین تحریک انصاف کے خلاف واضح طور پر ایک چارج شیٹ ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اس کیس میں مزید کارروائی کے دوران بھی اعظم خان اپنے موقف پر قائم رہتے ہیں یا اس سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں کیونکہ سابق وزیراعظم کے ان پر بہت زیادہ احسانات بھی ہیں۔ شنید ہے کہ وہ اربوں روپوں کی مبینہ کرپشن میں بھی ملوث ہیں اور پی ٹی آئی حکومت میں وزیراعظم کے بعد ان کی حیثیت سب سے اہم تھی۔ تمام وزرا‘ وزرائے اعلیٰ‘ گورنرز اور سیاستدان اعظم خان کے پیچھے پیچھے پھرتے نظر آتے تھے۔سائفر کو پبلک کرنا قابلِ سزا جرم ہے اور اس کی سزا 14سال تک قید ہے۔ اب اگر چیئرمین تحریک انصاف کے خلاف سیکرٹ ایکٹ کے تحت کوئی مقدمہ درج ہوتا ہے تو اس میں ان کو 14سال تک کی سزا ہو سکتی ہے۔
موجودہ حالات کے تناظر میں میرا تجزیہ یہ ہے کہ اگر چیئرمین پی ٹی آئی کو جیل نہ بھی بھیجا گیا تو انہیں نااہلیت کی سزا ضرور مل سکتی ہے۔ چیئرمین پی ٹی آئی کی سیاسی حکمت عملی یہ ہے کہ نگران سیٹ اَپ آنے تک وہ کسی نہ کسی طرح عدالتوں سے ریلیف لیتے رہیں۔ کیونکہ نگران سیٹ اَپ کی ترجیحات آئین کے آرٹیکل (3)218 کے تحت آزادانہ اور غیر جانبدارانہ ماحول میں انتخابات کروانا ہوتی ہیں‘ نگران حکومت کے دور میں کسی انتقامی کارروائی کا خدشہ موجود نہیں ہوتا۔ اس لیے ممکن ہے کہ نگران سیٹ اَپ اور الیکشن کمیشن آئین و قانون کے مطابق خوشگوار ماحول پیدا کرکے تمام سٹیک ہولڈرز کے لیے الیکشن میں حصہ لینے کی راہ ہموار کر دیں۔ آئندہ عام انتخابات کے دوران یورپی یونین کا وفد بھی پاکستان میں موجود ہوگا۔ اس وفد کے سربراہ مائیکل گوبلز کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں۔ وہ 2018ء کے الیکشن سے دو ماہ قبل ہی پاکستان میں اپنا سیکرٹریٹ قائم کر چکے تھے تاکہ پاکستان کے انتخابات کو قریب سے دیکھ سکیں۔ یورپی یونین میں جمع کرائی گئی اپنی الیکشن رپورٹ میں انہوں نے 2018ء کے انتخابات کو فرسٹ ورلڈ ڈیموکریسی کے تقاضوں کے مطابق قرار دیا تھا اور اپنی بین الاقوامی رپورٹ میں بطور وفاقی سیکرٹری الیکشن کمیشن آف پاکستان کا خصوصی ذکر کیا تھا۔ مائیکل گوبلز پاکستان کے سیاسی پس منظر سے بخوبی واقف ہیں۔ ایسے بین الاقوامی مبصرین کی موجودگی میں الیکشن کمیشن اور نگران حکومت کی ذمہ داری مزید بڑھ جائے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں