"KDC" (space) message & send to 7575

نئی حلقہ بندیوں کا معمہ

اگلے روزچیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال سے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی دو گھنٹے طویل اِن چیمبر ملاقات ہوئی جس میں ملک میں عام انتخابات کے معاملے پر گفتگو ہوئی اورمختلف آئینی اور قانونی امور پر بھی بات چیت کی گئی۔ دو روز قبل سپریم کورٹ میں چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے الیکشن کمیشن کی سندھ میں صوبائی حلقہ بندیوں کے خلاف درخواستوں پر سماعت کے دوران کہا تھا کہ الیکشن کمیشن حلقہ بندیاں شفاف طریقہ کار سے کرے۔عدالتِ عظمیٰ کا کہنا تھا کہ حلقہ بندیاں عوامی مفاد کا معاملہ ہیں‘ سپریم کورٹ میں متعدد بار حلقہ بندیوں کا معاملہ آ چکا‘ حلقہ بندیوں میں سرکل ذرا سا متاثر کرنے سے امیدوار کے ووٹ متاثر ہوتے ہیں‘ الیکشن کمیشن حلقہ بندیاں شفاف طریقہ کار سے کرے۔دوسری جانب سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے نئی حلقہ بندیوں پر انتخابات کرانے کا مشترکہ مفادات کونسل کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی طرف سے اس مقصد کیلئے آئین کے آرٹیکل 184(3)کے تحت سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی ہے۔ مذکورہ درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ خیبرپختونخوا اور پنجاب کے نگران وزرائے اعلیٰ کی مشترکہ مفادات کونسل میٹنگ میں شرکت کو غیرقانونی قرار دیا جائے کیونکہ دو صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد صدر ازسر نو مشترکہ مفادات کونسل کی تشکیل ہی نہیں کر سکتے اور نگران وزرائے اعلیٰ منتخب وزرائے اعلیٰ کی طرح اپنے اختیارات استعمال نہیں کرسکتے اور وہ مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں شرکت کے اہل ہی نہیں تھے۔ 90روزگزرنے کے بعد پنجاب اور خیبرپختونخوا کی حکومتوں کی حیثیت ہی غیرقانونی ہے۔ قومی اسمبلی کی تحلیل سے ایک ہفتہ قبل مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بلا کر نئی مردم شماری کے اجراء کی منظوری لینے کا مقصد انتخابات میں تاخیر کرنا ہے۔ قبل از وقت اسمبلیوں کی تحلیل پر 90 روز میں انتخابات کروانا آئین کا بنیادی جزو ہے جبکہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے عام انتخابات میں مزید تاخیر آئین کوسبوتاژکرنے کے مترادف ہے۔اس درخواست میں وفاق‘ چاروں صوبائی حکومتوں‘ سیکرٹری مشترکہ مفادات کونسل اور الیکشن کمیشن کو فریق بنایا گیا ہے۔
سول سوسائٹی کے ہر فرد کو آئین کی تشریح اور حکومتی فیصلوں کے خلاف اعلیٰ عدالتوں میں درخواست دائر کرنے کا آئینی اور قانونی حق حاصل ہے لیکن مشترکہ مفادات کونسل میں نگران وزرائے اعلیٰ کی شرکت کو غیر قانونی کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟ آئین کے آرٹیکل 224اور اس کے ساتھ ساتھ الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 230میں ایسی کوئی پابندی نظر نہیں آتی۔ نگران وزرائے اعلیٰ اور وزیراعظم اور ان کی کابینہ کو وہی اختیارات حاصل ہیں جو کسی بھی منتخب وزیراعلیٰ اور ان کی کابینہ کو حاصل ہوتے ہیں۔ مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں شرکت کا مقصد آئینی تقاضوں پر عمل کی راہ ہموار کرنا تھا اور یہ روز مرہ کے معمولات کے زمرے میں آتا ہے۔ مشترکہ مفادات کونسل ایک آئینی ادارہ ہے۔ آئین کا آرٹیکل 153واضح کرتا ہے کہ وزیراعظم مشترکہ مفادات کونسل کے چیئرمین‘ چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اس کے اراکین ہوں گے جبکہ وفاقی حکومت کے تین اراکین بھی اس میں شامل ہوں گے۔ لہٰذا اس آرٹیکل کے تحت پنجاب اور خیبرپختونخوا کے وزرائے اعلیٰ مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں شرکت کرنے کے آئینی طور پر مجاز ہیں۔
الیکشن کمیشن نے نئی مردم شماری کے گزٹ نوٹیفیکیشن کے مطابق نئی حلقہ بندیاں کرنے کیلئے شیدول جاری کر دیا ہے جس کے بعد 90روز کی آئینی مدت کے دوران عام انتخابات کا انعقاد ناممکن ہو گیا ہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری اعلامیہ کے مطابق الیکشن کمیشن نے نئی حلقہ بندیوں کے حوالے سے صوبائی حکومتوں اور ادارۂ شماریات سے معاونت طلب کی ہے اور اس سلسلہ میں ضروری احکامات بھی جاری کر دیے گئے ہیں۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری شیڈول کے مطابق حلقہ بندیاں حتمی طور پر 14دسمبر 2023ء کو شائع کی جائیں گی۔ شیڈول کے مطابق 21اگست تک اسلام آباد سمیت ہر صوبے کیلئے حلقہ بندیوں کی کمیٹیاں تشکیل دے دی جائیں گی۔ اس کے بعد 31اگست تک انتظامی امور نمٹانے کے بعد حلقہ بندیوں کی کمیٹیوں کو یکم سے چار ستمبر تک تربیت دی جائے گی اور پانچ سے سات ستمبر تک قومی اور صوبائی اسمبلیوں کیلئے ڈسٹرکٹ کوٹہ کا تعین اور اسے شیئر کیا جائے گا۔ آٹھ ستمبر سے سات اکتوبر تک کمیٹیاں ابتدائی حلقہ بندیاں کریں گی جس کے بعد نواکتوبر کو حلقہ بندیوں کی ابتدائی رپورٹ شائع کی جائے گی۔ 10اکتوبر سے آٹھ نومبر تک حلقہ بندیوں کے حوالے سے کسی بھی قسم کے اعتراضات کمیشن کے سامنے دائر کیے جا سکیں گے اور 10نومبر سے نودسمبر تک کمیشن ان اعتراجات پر سماعت کرے گا جس کے بعد 14دسمبر 2023ء کو حتمی حلقہ بندیاں شائع کردی جائیں گی۔ مشترکہ مفادات کونسل کی طرف سے نئی مردم شماری کی منظوری کے بعد یہ یقینی ہو گیا تھا کہ عام انتخابات کا انعقاد اس سال نہیں ہو سکے گا کیونکہ منظوری کے بعد انتخابات کا انعقاد نئی حلقہ بندیوں کے بعد ہی ہو گا۔اگر نئی حلقہ بندیوں کا عمل دسمبر تک مکمل ہوجاتا ہے تو حلقہ بندیوں کے حتمی گزٹ نوٹیفکیشن کے بعد ہی الیکشن کمیشن‘ الیکشن شیڈول جاری کرسکے گا۔عام انتخابات کیلئے الیکشن ایکٹ 2017ء نے 48دنوں کا شیڈول دیا ہوا ہے۔ جس کے بعد انتخابات فروری کے بجائے مارچ میں جاتے دکھائی دے رہے ہیں۔
نگران وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے قیام کے بعد ملک عام انتخابات کے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔ شفاف اور پُرامن انتخابات‘ جن کے ذریعے عوام کے حقیقی اعتماد کی حامل قومی و صوبائی حکومتیں وجود میں آ سکیں‘ ملک کی سب سے بڑی ضرورت ہیں۔ سیاسی استحکام ہی کے نتیجہ میں ملک معاشی بحران سے بھی نجات پا سکتا ہے اور باقی پورا نظامِ مملکت بھی قومی امنگوں کے مطابق چلایا جا سکتا ہے۔ یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ ملک میں اب تک ہونیوالے کم و بیش تمام انتخابات متنازع قرار دیے جاتے رہے۔ اسی وجہ سے ملک ابھی تک پائیدار استحکام کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکا‘ تاہم اس تناظر میں یہ امر خوش آئند ہے کہ الیکشن کمیشن نے نگران حکومتوں کو اب ایسی ہدایات جاری کی ہیں جن پر عمل درآمد قابلِ اعتماد انتخابی عمل کو یقینی بنا سکتا ہے۔جہاں تک مہنگائی کی بڑھتی ہوئی مشکلات کی بات ہے توپی ڈی ایم حکومت کے 16ماہ کے دوران عوام نے بے تحاشا مشکلات کا سامنا کیا۔ حکومت کی ناقص معاشی منصوبہ بندی کی وجہ سے نہ صرف توانائی کی قیمتیں قابو سے باہر ہو گئیں بلکہ اشیائے خورونوش کے نرخ بھی آسمان کو چھوتے نظر آئے۔ عالمی مالیاتی فنڈ سے بیل آؤٹ پیکیج کی بحالی میں تاخیر کی وجہ سے ملک میں ڈالر کی قلت پیدا ہونے سے روپے کی مقابلے میں ڈالر کی قدر میں ہوشربا اضافہ بھی دیکھا گیا۔ زرِ مبادلہ کے ذخائر میں کمی کی وجہ سے درآمدی خام مال پر پابندی کے باعث ملک کا صنعتی شعبہ بھی بری طرح متاثر ہوا اور تقریباً 50فیصد صنعتی یونٹس جزوی یا مکمل بندش پر مجبور ہوئے۔ صنعتوں کی بندش کے باعث برآمدات میں تو کمی واقع ہوئی ہی لیکن اس سے بے روزگاری میں بھی بہت زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا۔ روز افزوں بے روزگاری اور مہنگائی کے پیش نظر عوام یہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ آخر کیونکر وہ ان حالات کا مقابلہ کریں گے۔ ایک طرف عوام دو وقت کی روٹی کی تگ و دو میں لگے ہوئے تھے تو دوسری طرف نہ صرف لمبی چوڑی کابینہ تشکیل دے دی گئی بلکہ انہیں اتنی ہی زیادہ مراعات بھی دی گئیں۔ اب نگران کابینہ کو پروٹوکول کی روش کو ترک کرنا ہوگا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں