"KDC" (space) message & send to 7575

انتخابی رولز میں تبدیلی اور بدعنوانی کاتدارک

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے گزشتہ ہفتے آئندہ عام انتخابات میں بدعنوانی کے تدارک کے لیے الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 239 کے تحت حاصل اختیارات کے مطابق انتخابی رولز کی 18 شقوں میں تبدیلی کر دی ہے اور پانچ نئے فارم بھی جاری کردیے ہیں۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے جاری ہونے والے اعلامیے کے مطابق ترمیم شدہ انتخابی رولز پر سیاسی جماعتیں یا امیدوار15 روز میں یعنی سات اکتوبر تک اعتراضات عائد کرسکتے ہیں۔امیدواروں کے لیے الیکشن اخراجات کے لیے بینک اکاؤنٹ سے متعلق رولز میں بھی تبدیلی کر دی گئی ہے۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے جاری اعلامیے کے مطابق امیدوار کو انتخابی اخراجات کے لیے اب الگ بینک اکاؤنٹ کھولنا ہو گا۔ الیکشن میں حصہ لینے والے امیدوار کا مشترکہ اکاؤنٹ قابلِ قبول نہ ہو گا۔ دیگر ترامیم میں یہ شق بھی شامل ہے کہ امیدوار ریٹرننگ افسر کو الیکشن اخراجات کے ساتھ الیکشن مہم کی فنانسنگ کی تفصیلات بھی خود فراہم گا۔اگر امیدوار کسی اور شخص کو اپنے الیکشن اخراجات کی اجازت دیتا ہے تواس صورت میں امیدوار اُس شخص کا بھی تمام تر ریکارڈ فراہم گا۔ فنانسنگ کرنے والے کا شناختی کارڈ‘ اخراجات کی اقسام اور آمدن کے ذرائع بھی فراہم کیے جائیں گے۔انتخابی رولز میں ہونے والی تبدیلی کے مطابق ریٹرننگ افسر امیدوار کی موجودگی میں رزلٹ حوالے کرے گا اور مسترد شدہ ووٹوں کو امیدوار اور الیکشن ایجنٹ کی موجودگی میں کھولے گا۔ریٹرننگ افسر نتائج کے لیے فارم 47‘ 48 اور 49 خود مرتب کر کے سیل کرے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ الیکشن اخراجات کے لیے دو نئے فارم 67 اور 68 بھی شامل کیے جائیں گے۔ امیدوار کو اندرون و بیرونِ ملک منقولہ و غیر منقولہ پراپرٹی اور اثاثو ں کی تفصیلات بھی کاغذاتِ نامزدگی میں ظاہر کرنا ہوگی۔الیکشن رولز میں سیاسی جماعتوں پر یہ قدغن بھی لگائی گئی ہے کہ الیکشن اخراجات کے لیے سیاسی جماعت کو 10 لاکھ روپے سے زیادہ فنڈ دینے والوں کی تفصیلات بھی الیکشن کمیشن کو دینا ہوں گی۔ سیاسی جماعت کی فنانسنگ کے لیے نیا فارم 69 بھی شامل کیا جائے گا۔الیکشن کمیشن نے اعلامیے میں یہ تجویز بھی پیش کی ہے کہ کاغذاتِ نامزدگی کے ساتھ جو بھی رقم جمع کروائی جائے گی وہ ناقابلِ واپسی ہو گی اور یہ رقم حکومتی خزانے میں جمع کرائی جائے گی۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان آئندہ عام انتخابات کے جنوری کے آخری ہفتے میں انعقاد کا عندیہ دینے کے بعد سے اپنے اس اعلان پر الیکشن ایکٹ 2017ء اور آئین کے آرٹیکل 218(3) پر عملدرآمد کرتے ہوئے کاربند رہنے کے لیے متحرک ہو چکا ہے۔ الیکشن کمیشن کے ملک میں آئندہ عام انتخابات کے جلد از جلد انعقاد کے لیے اس تحرک سے سیاسی استحکام کی راہ ہموار ہوگی جس سے معاشی عدم استحکام میں بھی کمی واقع ہوگی۔ ملک کو مستقل بنیادوں پر سیاسی اور معاشی استحکام کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے آئندہ عام انتخابات کا شفاف اور غیر جانبدارانہ انعقاد بہت ضروری ہے۔ آئندہ انتخابات کی شفافیت اور غیر جانبداری یقینی بنانے کے لیے الیکشن کمیشن نے اس ضمن میں انتخابی رولز میں تبدیلی کی صورت پہلا قدم اٹھایا ہے۔ انتخابی رولز میں تبدیلی سے واضح ہے کہ الیکشن کمیشن شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات کے انعقاد کے لیے کتنا پُرعزم ہے اور اس مقصد کے لیے اس کی طرف سے ہر وہ قدم اٹھایا جا رہا ہے جو اس ضمن میں مؤثر اور نتیجہ خیز ثابت ہوسکتا ہے۔ ماضی میں بعض امیدواروں کی طرف سے مخالف امیدوار پر ناجائز دولت سے الیکشن مہم چلانے کے الزامات عائد ہوتے رہے ہیں لیکن اب الیکشن کمیشن نے اس عمل کو شفاف رکھنے کے لیے انتخابی رولز میں تبدیلی کی صورت میں قانونی رکاوٹیں کھڑی کر دی ہیں۔اب ہر امیدوار کو الیکشن کمیشن کی ان کڑی شرائط پر پورا اترنا ہوگا۔
ملک میں جمہوریت کی علمبردار سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوری روایات کا جو فقدان ہے اس کے ازالہ کے لیے انٹرا پارٹی الیکشن کا لازمی اہتمام اس صورتحال میں مثبت تبدیلی لائے گا۔ الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعتوں کو انٹرا پارٹی الیکشن کی تاکید کرتے ہوئے کہا ہے کہ سیاسی جماعتیں انٹرا پارٹی الیکشن سے 15روز پہلے الیکشن کمیشن کو آگاہ کرنے کی پابند ہوں گی اور انٹرا پارٹی الیکشن کے 7 روز بعد الیکشن کمیشن کو اس کی تفصیل جمع کروانے کی پابند ہوں گی۔بدقسمتی سے ماضی میں منعقد ہونے والے کم و بیش تمام انتخابات کی شفافیت پر سوال اٹھائے جاتے رہے ہیں لہٰذا یہ قومی مفاد کا ناگزیر تقاضا ہے کہ آئندہ عام انتخابات کو ہر قسم کی بدعنوانی سے پاک رکھا جائے ۔اس ضمن میں الیکشن کمیشن کو پولنگ عملے کی کارکردگی پر بھی گہری نظر رکھنا ہوگی۔ الیکشن کا عملہ عموماً سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کے زیرِ اثر رہتا ہے کیونکہ لوئر ٹریڈ کے ملازموں کے تقرر میں سیاسی جماعتوں کے اراکینِ پارلیمنٹ کا بڑاعمل دخل ہوتاہے۔ اُدھر الیکشن کمیشن آج ڈیجیٹل مردم شماری کے تحت نئی حلقہ بندیوں کی ابتدائی فہرست جاری کرنے جا رہا ہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے نئی حلقہ بندیوں کے حوالے سے جاری شدہ شیڈول کے مطابق پہلے یہ ابتدائی فہرستیں 10 اکتوبر کو جاری کی جانی تھیں؛ تاہم کمیشن کی جانب سے یہ کام 15 دن پہلے مکمل کیے جانے کے احکامات کے پیش نظر ابتدائی حلقہ بندیوں کی تفصیلات آج جاری کی جائیں گی جس کے بعد اس پر 26 اکتوبر تک اعتراضات وصول کیے جائیں گے جن کی سماعت 25 نومبر تک ہو گی جبکہ حتمی انتخابی فہرستوں کی اشاعت 30 نومبر کو کی جائے گی۔ ایسا بھی ممکن ہے کہ موجودہ قومی و صوبائی نشستیں ہی برقرار رہیں اور نئی حلقہ بندیوں پر اعتراضات بھی کم ہی آئیں۔حتمی حلقہ بندیوں اور انتخابی فہرستوں کی اشاعت کے بعد 54 دنوں میں الیکشن کمیشن نے انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا ہے۔ اُمید ہے کہ الیکشن کمیشن جنوری کے آخری ہفتے میں انتخابات کے انعقاد میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھے گا۔
ہارنے والی سیاسی جماعتوں کی طرف سے انتخابی نتائج تسلیم نہ کرنے کی روایت بھی موجود ہے اور خدشہ ہے کہ آئندہ عام انتخابات میں بھی یہ روایت برقرار رکھی جائے گی جس کی وجہ سے ملک میں آئندہ عام انتخابات کے باوجود سیاسی استحکام کا قیام مشکل نظر آ رہا ہے۔اگر انتخابات کے بعد بھی ملک میں سیاسی استحکام نہ آیا تو ملک کی معاشی حالت بھی درست نہیں ہو سکے گی جبکہ معاشی استحکام سیاسی اعتماد کے بغیر ممکن نہیں۔ عالمی بینک نے پاکستان کی معاشی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے مستقبل میں منتخب ہونے والی حکومت کے لیے ملک میں جمہوری اور معاشی استحکام کو یقینی بنانے کے لیے ایک روڈمیپ تجویز کیا ہے جس کے مطابق مشترکہ مفادات کونسل کے اختیارات کو وسیع کرتے ہوئے وفاق میں منسٹرز کونسل بنانے کی تجویز دی گئی ہے جس میں صوبائی حکومتوں کے نمائندے بھی شریک ہوں گے۔عالمی بینک نے یہ تجویز اس لیے دی ہے کہ خراب کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے وفاقی اور صوبائی اداروں‘ پالیسیوں اور احتسابی نظام کی بیک وقت اور مربوط مضبوطی کے خلا کو پُر کیا جاسکے۔ عالمی ادارے پاکستان کے آئندہ عام انتخابات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں جبکہ نگران وفاقی حکومت بھی عالمی اداروں سے رابطہ میں ہے۔
ملک میں انتخابی دنگل کا آغاز اکتوبر کے تیسرے ہفتہ میں شروع ہونے کا امکان ہے اورالیکشن کمیشن اس ضمن میں کافی متحرک ہے۔دوسری جانب سیاسی جماعتوں کو بھی مفاہمت کی پالیسی اختیار کرنا ہوگی اور الیکشن کمیشن کے طے شدہ ضابطۂ اخلاق کی مطابق ہی اپنی اپنی سیاسی مہمات چلانا ہوں گی۔ اگر انتخابی مہمات میں امن و امان کو کوئی خطرہ لاحق ہوا، سیاسی اختلافات سے ملک کے معاشی حالات پر کوئی اثر پڑا یا انتخابی عمل میں تشدد کا عنصر سامنے آیا تو پھر الیکشن کمیشن آئین کے آرٹیکل 218(3)اور الیکشن ایکٹ کی دفعہ 58 کے تحت انتخابی شیڈول تبدیل کرنے کا مجاز ہو گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں