"KDC" (space) message & send to 7575

حلقہ بندیوں کا گزٹ نوٹیفکیشن اور انتخابات

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ابتدائی حلقہ بندیوں کے حوالے سے ایک غیر سرکاری ادارے کی طرف سے کیا جانے والا تجزیہ غلط فہمی اور لا علمی پر مبنی قرار دے دیا ہے۔ الیکشن کمیشن کا مؤقف ہے کہ مذکورہ ادارے نے حلقوں کی آبادی کے سائز میں فرق کا تجزیہ کرتے ہوئے نشستوں کا تعین کرنے کے لیے ضلع کو ایک یونٹ کے طور پر نہیں لیا بلکہ صوبے کے کوٹے کو ایک یونٹ کے طور پر لیا اور بنیادی انتظامی یونٹ یعنی ضلع کو نظر انداز کیا جس سے ابہام پیدا ہوا۔ جبکہ الیکشن کمیشن کے مطابق پورے صوبے میں نہیں بلکہ صرف ایک ضلع کے اندر حلقوں کی آبادی کے درمیان برابری برقرار رکھی جانی چاہیے اور یہ کہ آئین کے آرٹیکل 51کے تحت صوبوں کو اُن کی آبادی کی بنیاد پر قومی اسمبلی کی 266نشستیں مختص کی گئی ہیں۔ الیکشن کمیشن کا اس حوالے سے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہنا تھا کہ صوبوں کے لیے مختص نشستوں اور ان کی آبادی کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کا کوٹہ طے کیا گیا جس کی بنیاد پر ہر ضلع کی نشستیں مختص کی گئیں جس کے بعد ہر ضلع کی آبادی اور نشستوں کی تعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے حلقہ بندی کی گئی۔ اگر اس حوالے سے الیکشن ایکٹ 2017ء سے رہنمائی لی جائے تو انتخابی ایکٹ کی دفعہ 20 کی ذیلی شق (3) میں لکھا ہے کہ جہاں تک ممکن ہو‘ کسی اسمبلی یا بلدیاتی حکومت کے حلقوں کی آبادی میں فرق عموماً 10فیصد سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔ جبکہ اسی دفعہ کی ذیلی شق (4) کے مطابق اگر ذیلی شق (3) کے تحت 10فیصد کی حد کسی غیرمعمولی صورتحال میں تجاوز کر جاتی ہے تو الیکشن کمیشن حلقہ بندیوں کے آرڈر میں اس کی وجوہات درج کرے گا۔ الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ حلقہ بندیوں کے دوران آبادی کے علاوہ دیگر اصول بھی ہیں جن کا تذکرہ الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 20 میں کیا گیا ہے‘ مثلاً انتظامی اکائی اور یکسانیت جسے الیکشن کمیشن نے ابتدائی حلقہ بندیوں کے دوران مدنظر رکھا ہے۔
درحقیقت بیشتر غیر سرکاری اداروں کی رپورٹیں اورتجزیے اُن ممالک یا اداروں کے مفادات کی عکاسی کرتے ہیں جو اُنہیں فنڈز مہیا کرتے ہیں۔ ایسے اداروں کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ حکومتی اداروں کی کارکردگی کو منفی انداز میں پیش کرکے گورننس پر سوالات اٹھائے جائیں۔ اور وہ غیرسرکاری ادارے جو ریاست یا ریاستی اداروں کے مثبت پہلوؤں کو اُجاگر کرتے ہیں‘ غیرملکی فنڈنگ سے محروم رہتے ہیں۔ ابتدا میں یو این ڈی پی اور یو ایس ایڈ جیسے بین لاقوامی پروگرام ان اداروں کی حوصلہ افزائی کرتے تھے جو روشن مستقبل کی راہ دکھاتے تھے لیکن بعد ازاں گلوبل ورلڈ آرڈرز کی حکمتِ عملی کے تحت انہوں نے بھی اپنی پالیسی تبدیل کر لی۔ یورپی یونین اور دیگر غیرملکی ادارے ان غیرسرکاری تنظیموں یا اداروں کی زیادہ حوصلہ افزائی کرتے ہیں جو ان کے ایجنڈوں کو آگے بڑھاتے ہیں۔ ملک میں ان غیر سرکاری تنظیموں اور اداروں کی طرف سے الیکشن کے حوالے سے منعقد کیے جانے والے سرویز کے سوالات بھی انہی ممالک سے درآمد ہوتے ہیں جو ان تنظیموں کو فنڈنگ کرتے ہیں لہٰذا ایسے اداروں سے غیر جانبدار اور شفاف رپورٹوں کی امید نہیں رکھنی چاہیے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے ابتدائی حلقہ بندیوں کے اجرا اور الیکشن کی متوقع تاریخ کی طرف اشارہ کرنے کے باوجود تاحال ملک میں انتخابات کی فضا نہیں بن سکی ہے لیکن ابتدائی حلقہ بندیوں کے الیکشن کمیشن کی مقرر کردہ تاریخ پر اجرا کے بعد جنوری کے آخری ہفتے میں آئندہ عام انتخابات کا انعقاد ممکن نظر آ رہا ہے۔واضح رہے کہ الیکشن کمیشن نے ڈیجیٹل مردم شماری 2023ء کے تحت نئی حلقہ بندیاں کی ابتدائی فہرست جاری کر دی ہے جس کے مطابق قومی اسمبلی کی جنرل نشستوں کی تعداد 266 ہے‘پنجاب اسمبلی کی جنرل نشستوں کی تعداد 297 ہے‘ سندھ اسمبلی کی جنرل نشستوں کی تعداد 130 ہے‘ خیبرپختونخوا اسمبلی میں کل جنرل نشستوں کی تعداد 115ہے جبکہ بلوچستان اسمبلی کی جنرل نشستوں کی تعداد 51ہے۔ قومی اسمبلی کی وفاقی دارالحکومت میں تین‘ پنجاب میں 141‘ سندھ میں 61‘ خیبرپختونخوا میں 45 اور بلوچستان میں 16 نشستیں ہیں جبکہ ملک بھر میں قومی اسمبلی کی کل 60 مخصوص نشستیں ہوں گی۔60 مخصوص نشستوں کے بعد قومی اسمبلی کی ٹوٹل نشستوں کی تعداد 326 ہوگئی ہے۔نئی حلقہ بندیوں کے بعد وزیراعظم کے انتخاب کے لیے نمبر گیم تبدیل ہو گئی ہے۔نئی حلقہ بندیوں کے بعد نئے وزیراعظم کو منتخب کرنے کے لیے 169 ووٹ درکار ہوں گے۔ پرانی حلقہ بندیوں کے مطابق وزیراعظم منتخب کرنے کے لیے 172 ارکان کی حمایت درکار ہوتی تھی۔
ماضی میں طویل المیعاد معاشی منصوبہ بندی نہ ہونے کی وجہ سے ملک آج ابتر معاشی حالات کا شکار ہو چکا ہے۔ماضی کی حکومتوں کی ناقص معاشی پالیسیوں کا خمیازہ آج عوام کو روز افزوں مہنگائی‘ بے روز گاری اور غربت کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے۔ لیکن اس حوالے سے ایک خوش آئند امر یہ ہے کہ اب حکومتی اداروں نے معیشت کی بحالی کو اپنی اوّلین ترجیح بنا لیا ہے۔ اس کے لیے حکومتی اور سیاسی دونوں سطحوں پر کوشش کی جا رہی ہے۔ سیاسی سطح پر آئندہ عام انتخابات کے حوالے سے سیاسی جماعتوں میں اتفاق رائے کے لیے غیر رسمی بات چیت چل رہی ہے جس کا مقصد ملکی معیشت کو سیاسی مفادات کی لڑائی سے محفوظ کرنا ہے۔ اقتدار کی راہداریوں سے یہ اطلاعات موصول ہو رہی ہیں کہ متحارب سیاسی قوتیں اس بات پر آمادہ ہیں کہ وہ اپنی انتخابی مہم کے دوران ایسے بیانات سے اجتناب کریں گی جس سے معاشی ابتری میں اضافہ ہو۔ کوشش ہو گی کہ سیاسی پارٹیاں اپنے اپنے منشور میں معاشی بحالی کے لیے مثبت اقدامات تجویز کریں ۔ نگران وفاقی حکومت بھی اس حوالے سے ٹھوس اقدامات پر عمل پیرا ہے۔ کابینہ کمیٹی برائے اقتصادی بحالی نے ایک تفصیلی روڈ میپ پیش کیا ہے جس کے تحت سرکاری دفاتر میں افسران کا تناسب سٹاف کے مقابلے میں کم ہو گا۔ سرکاری اخراجات کم کرنے کے لیے غیر ہدف شدہ گرانٹس پر نظرثانی کی غرض سے منصوبہ بھی تیار کر لیا گیا ہے‘ ممکن ہے یہ منصوبہ آئندہ آنے والی منتخب حکومت کی صوابدید پر چھوڑ دیا جائے۔
دیکھا جائے تو چین اور عرب ممالک صحیح معنوں میں پاکستان کے مشکل وقت کے ساتھی ہیں جنہوں نے گمبھیر معاشی حالات میں پاکستان کے ساتھ بھرپور تعاون کیا۔ آئی ایم ایف کے سٹینڈ بائی معاہدے نے بھی ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ سخت شرائط بھی عائد کیں۔ غیرملکی قرضوں کا بوجھ کم کرنے کے لیے حکومت مقامی سطح پر اقدامات کر رہی ہے۔ مہنگائی کم کرنے کے لیے بھی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ منتخب حکومت نہ ہونے کے باوجود نگران حکومت ان تمام معاشی مسائل پر نہ صرف توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے بلکہ ان کے حل کے لیے بھی کوشاں ہے۔ ان حکومتی کوششوں کے اثرات مستقبل میں ظاہر ہوں گے۔ معاشی بحالی کا روڈمیپ اس سلسلہ کی اہم کڑی ہے۔ شنید ہے کہ موجودہ معاشی مسائل کا ایک حل ریکو ڈیک ذخائر کی سعودی عرب کو فروخت تجویز کیا گیا ہے۔اس حوالے سے میری جو تجاویز ہیں وہ اگلے کالم میں پیش کی جائیں گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں