"KDC" (space) message & send to 7575

سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کروایا جا سکتا ہے

منگل کے روز نیشنل ایکشن پلان کی اپیکس کمیٹی کے اجلاس کے بعد نگراں وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے ایک پریس کانفرنس میں اعلان کیا تھا کہ اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ پاکستان میں غیر قانونی طور پر رہائش پذیر غیرملکی افراد کو یکم نومبر تک کی ڈیڈ لائن دی گئی ہے کہ وہ اس تاریخ تک رضاکارانہ طور پر اپنے اپنے ممالک میں واپس چلے جائیں اور اگر وہ یکم نومبر تک واپس نہیں جاتے تو ریاست کے قانون نافذ کرنے والے ادارے اس بات کا نفاذ یقینی بناتے ہوئے ایسے افراد کو ڈی پورٹ کریں گے جبکہ یکم نومبر کے بعد ایک آپریشن شروع ہو گا جس کیلئے وزارتِ داخلہ میں ایک ٹاسک فورس بنا دی گئی ہے جس کے تحت پاکستان میں غیر قانونی طریقے سے آکر رہنے والے افراد کی جتنی بھی غیر قانونی املاک ہیں‘ انہوں نے جتنے بھی غیر قانونی کاروبار کیے ہیں‘ جو ٹیکس نیٹ میں شامل نہیں ہیں انہیں ضبط کر لیا جائے گا۔یکم نومبر ہی پاسپورٹ اور ویزا کی تجدید کی ڈیڈ لائن ہے‘ اس تاریخ کے بعد کوئی بھی شخص‘ کسی بھی ملک کا رہنے والا پاسپورٹ اور ویزا کے بغیر پاکستان میں داخل نہیں ہو سکے گا۔وزارتِ داخلہ کے اس الٹی میٹم کے فوری اثرات نظر آ رہے ہیں اور پاکستان میں مقیم غیرقانونی افغان باشندوں کا انخلا شروع ہو چکا ہے۔ دو روز کے دوران تقریباً 30 افغان خاندان طورخم بارڈر کراسنگ سے افغانستان واپس روانہ ہوچکے ہیں۔
حکومتِ پاکستان کا یہ فیصلہ بین الاقوامی قوانین کے عین مطابق ہے۔دنیا میں کہیں ایسا نہیں ہوتا کہ لوگ پاسپورٹ یا ویزا کے علاوہ کسی اور دستاویز پر کسی ملک میں سفر کریں۔ ہمارا ملک واحد ہے جہاں غیر ملکی بغیر پاسپورٹ یا ویزا کے آتے ہیں جن میں اکثریت افغان باشندوں کی ہوتی ہے۔جمعرات کے روز ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرا بلوچ کا کہنا تھا کہ پاکستان نے افغان مہاجرین بارے پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں کی ہے‘ پاکستان افغان مہاجرین کے خلاف نہیں بلکہ غیر قانونی مہاجرین کے خلاف ہے اور افغان مہاجرین سمیت تمام غیرقانونی رہائش پذیر باشندوں کے خلاف کارروائی کر رہا ہے۔اصولی طور پر افغان تارکینِ وطن کو 1990ء سے ہی مرحلہ وار طریقے سے افغانستان بھجوانے کا عمل شروع کر دینا چاہیے تھا۔ اگر یہ اقدام تبھی کر لیا جاتا تو پاکستان کو ان سکیورٹی مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑتا جن کا آج کرنا پڑ رہا ہے۔ شاید پھر 11ستمبر 2001ء کا واقعہ بھی نہ ہوتا اور مسلم ممالک بھی امریکی جارحیت سے محفوظ رہتے‘ امریکہ کو افغانستان‘ عراق‘ شام اور لیبیا میں مداخلت کرنے کا جواز نہ ملتا۔ ملک میں غیرقانونی طور پر مقیم غیرملکیوں کا انخلا ایک بڑا چیلنج ہے جس سے نبرد آزما ہونے کیلئے وفاقی و صوبائی حکام کے درمیان رابطے جاری ہیں۔ گوکہ کچھ حلقوں کی جانب سے اس فیصلے پر عملدرآمد کے طریقہ کار کے حوالے سے تشویش پائی جاتی ہے لیکن اکثریت کے نزدیک یہ فیصلہ ملک کے بہترین مفاد میں ہے۔غیر قانونی افغان مہاجرین کیساتھ ساتھ اس حکومتی فیصلے پر دوسرا ردِعمل طالبان کی عبوری حکومت کی طرف سے دیا گیا۔افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اس فیصلے پر ردِعمل دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا غیر قانونی افغان شہریوں کو بے دخل کرنے کا فیصلہ ان کیلئے ''ناقابلِ قبول‘‘ ہے اور یہ کہ پاکستانی حکام اس فیصلے پر نظرثانی کریں لیکن نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے غیر قانونی طور پر رہائش پذیر غیر ملکی شہریوں بشمول 17 لاکھ 30 ہزار غیر رجسٹرڈ اور غیر قانونی افغان شہریوں کو ملک چھوڑنے کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ کوئی ملک غیر قانونی تارکینِ وطن کو اپنے ہاں رہنے کی اجازت نہیں دیتا اور یہ فیصلہ عالمی طرزِ عمل کے عین مطابق ہے۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان تقریباً 2600کلو میٹر طویل سرحد ہے اور بہت سے خاندان اس سرحد کے دونوں اطراف رہائش پذیر ہیں جن کا اکثر سرحد پار آنا جانا لگا رہتا ہے لیکن اس آمد و رفت کے لیے بین لاقوامی اصولوں کے مطابق ویزا اور پاسپورٹ کا استعمال نہیں کیا جاتا۔ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا اور وہاں طالبان کی عبوری حکومت کے قیام کے بعد افغانیوں کی بڑی تعداد نے پاکستان کی طرف ہجرت کی ہے اور ان میں اکثریت کے پاس کوئی شناختی دستاویز موجود نہیں ہوتی۔ یہ افراد واضح طور پر پاکستان کے لیے سکیورٹی رسک ہیں۔ ملک میں حالیہ دنوں ہونے والے دہشت گردی کے بیشتر واقعات میں زیادہ تر افغان شہری ہی ملوث پائے گئے ہیں۔ اس لیے حکومتِ پاکستان کا یہ فیصلہ بروقت اور ناگزیر ہے۔ دہشت گردی کے ساتھ ساتھ پاکستان میں منشیات کے استعمال میں اضافے کی بڑی وجہ بھی افغان بارڈر سے غیر قانونی آمد و رفت ہے۔ دنیا میں کاشت کی جانے والی افیون کا 80 فیصد افغانستان میں پیدا ہوتا ہے۔اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کی 95 فیصد ہیروئن افغانستان سے سپلائی کی جاتی ہے جو دنیا بھر میں جرائم پیشہ گروہوں کیلئے کمائی کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ پاکستان میں رہنے والے غیر قانونی افغانی باشندے دیگر اشیا کے ساتھ ساتھ منشیات کی سمگلنگ میں بھی ملوث پائے گئے ہیں۔افواجِ پاکستان اور قانون نافذ کرنیوالے ادارے بھی غیر قانونی تارکین وطن کے پاکستان سے انخلا کے فیصلے میں نہ صرف حکومت کیساتھ ہیں بلکہ اس پر عملدرآمد یقینی بنانے کیلئے فعال بھی ہو چکے ہیں۔ ریاستی ادارے معاشی بحالی میں بھی بہت اہم کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں۔ انہی دنوں بلوچستان میں ریکو ڈک کے ذخائر میں پاکستان کے شیئر سعودی عرب کو فروخت کرنے کے حوالے سے بھی خبریں سننے کو مل رہی ہیں۔ ایسا کوئی فیصلہ کرتے ہوئے ملکی مفادات کو مدنظر ضرور رکھنا چاہیے اور ایسی کوئی ڈیل نہیں کی جانی چاہیے جس پاکستان کو فائدہ پہنچنے کے بجائے نقصان پہنچنے کا احتمال ہو۔
ان حالات سے ہٹ کر اگر الیکشن کی بات کی جائے تو الیکشن کمیشن آئندہ عام انتخابات کے جنوری میں انعقاد کے لیے نہ صرف پُرعزم ہے بلکہ اس کے لیے ہر ممکن کوشش بھی کر رہا ہے۔ ملک میں رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں کی تعداد 172 سے زائد ہو چکی ہے۔ الیکشن کے مشاہدے کے لیے غیر ملکی مبصرین کو بھی وزارتِ خارجہ کے ذریعے مدعو کرنا الیکشن کمیشن کی اہم پیش رفت ہے۔ اب اگر چند ماہ میں یورپی یونین کے فعال مبصرین کا گروپ پاکستان پہنچ گیا تو الیکشن فروری کے پہلے ہفتہ میں کروانا لازمی ہو جائے گا کیونکہ عالمی مبصرین کا گروپ یا مشن الیکشن سے 60روز پہلے پاکستان پہنچتا ہے اور یہاں انہیں اپنے سیکرٹریٹ‘ میڈیا سنٹر کیلئے مکمل سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ یہ گروپ پاکستان کی سیاسی شخصیات سے ملاقاتیں بھی کرتا ہے۔ جب 30نومبر کے بعد الیکشن شیڈول جاری ہو گا تو وفاقی اور صوبوں کی نگران حکومتیں برائے نام ہی رہ جائیں گی لہٰذا اکتوبر اور نومبر کے دوران متعلقہ اداروں کو اس حوالے سے پیشگی منصوبہ بندی کر لینی چاہیے۔ سیاسی عدم استحکام کے پیش نظر انتخابی مہم کے دوران کسی بھی ناخوشگوار صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اگر ایسی کسی صورتحال کا سامنا ہوا تو سپریم کورٹ میں آئین کے آرٹیکل (3)218 کے تحت ریفرنس دائر کروایا جا سکتا ہے کہ ملک میں انتخابات کے لیے حالات ساز گار نہیں ہیں‘ تب سپریم کورٹ ریاست کے مفاد کے تمام پہلوئوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اہم فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں ہوگی۔30نومبر کے بعد الیکشن کا شیڈول آنے پر اہم ترین فیصلے آئین کے آرٹیکل 224اور الیکشن ایکٹ کی دفعہ230کی زد میں آ جائیں گے۔ ریاست کے مفاد میں ہے کہ الیکشن شیڈول سے پہلے ملک میں انتشار زدہ ماحول کا خاتمہ کیا جائے۔ اگر انتخابات کے لیے پُرامن ماحول میسر نہیں آتاتوشیڈول میں تبدیلی ہو سکتی ہے۔مارچ 1969ء میں صدر ایوب خان نے عوام کی بے چینی کو بھانپتے ہوئے شیخ مجیب الرحمن سمیت اہم شخصیات کے خلاف تمام مقدمات غیر مشروط طور پر واپس لے لیے تھے۔ ایسا ہی ماحول مجھے اب بھی نظر آ رہا ہے۔ بہتر ہے کہ اس حوالے سے سپریم کورٹ سے رہنمائی حاصل کی جائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں