"KDC" (space) message & send to 7575

نااہلیت کا فیصلہ برقرار

سپریم کورٹ نے فُل کورٹ کے فیصلے میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف دائر دراخواستوں کو مسترد کر دیا ہے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف دائر درخواستوں کے حوالے سے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ فل کورٹ نے کثرتِ رائے سے اس ایکٹ کے خلاف درخواستوں کو مسترد کر دیا ہے اور تسلیم کیا ہے کہ پارلیمان کو قانون سازی کا اختیار حاصل ہے‘ تاہم اس ایکٹ میں شامل ایک شق‘ جو کہ ماضی میں از خود نوٹسز پر دیے گئے فیصلوں کے خلاف اپیلوں سے متعلق تھی‘ کو کثرتِ رائے سے کالعدم قرار دے دیا گیا ہے۔قانون دان سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسے ستائشی اقدام قرار دے رہے ہیں۔ اُن کے مطابق اس فیصلے سے عدلیہ میں ایک شخص کی اجارہ داری ختم ہو گی۔اس فیصلے میں عدلیہ نے پارلیمان کی بالادستی کو تسلیم کیا ہے اور بظاہر یہی نظر آ رہا ہے کہ عدالتِ عظمیٰ اور پارلیمان اس معاملے میں ایک پیج پر ہیں جبکہ بعض حلقوں کے مطابق اس ایکٹ کے خلاف درخواستیں مسترد کر کے پارلیمان کو عدالتی امور میں 'مداخلت کرنے‘ کا اختیار دے دیا گیا ہے۔
بادی النظر میں سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے یہ تاثر ملتا ہے کہ پارلیمان کی بالادستی تسلیم کر لی گئی ہے اور اس سے آزاد عدلیہ کا مثبت تشخص بھی پوری طرح اجاگر ہوا ہے۔ مذکورہ فیصلے اور اس کیس پر ہونے والی کارروائی سے عدالتِ عظمیٰ میں نئی روایات کی بنیاد پڑتی نظر آ رہی ہے۔ پہلی مرتبہ کسی چیف جسٹس نے عوام کے ساتھ شفافیت کا وعدہ کیا اور اس کیس کی کارروائی کی براہِ راست کوریج کروائی تاکہ عوام کو انصاف ہوتا ہوا دکھائی دے اور کسی بھی حلقے کی طرف سے عدالتِ عظمیٰ کے اس فیصلے پر جانبداری کا کوئی شبہ نہ کیا جا سکے۔پارلیمان کے قانون سازی کے حق کو تسلیم کرتے ہوئے اس حقیقت کو بھی آشکار کر دیا گیا ہے کہ پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ سے متعلق قانون سازی کا اختیار حاصل ہے اور اس سے عدلیہ کی آزادی متاثر نہیں ہوتی۔لیکن سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے مطابق سوموٹو کیسز کے فیصلوں پر نظرثانی کی اپیل کا حق ماضی کے فیصلوں پر حاصل نہیں ہو گا۔ اس لیے یہ فیصلہ آنے کے بعد آئینی حلقوں کی طرف سے میاں نواز شریف کے مستقبل کے حوالے سے آئین کی مختلف شقوں کو مدنظر رکھتے ہوئے الگ الگ آرا کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ قانونی ماہرین کے مطابق پارلیمنٹ کوئی بھی قانون بنا سکتی ہے جب تک وہ آئین کے منافی نہ ہو۔
سپریم کورٹ کے مذکورہ فیصلے کے بعد اور جیسے جیسے آئندہ عام انتخابات قریب آتے نظر آ رہے ہیں‘ ملک کی دو اہم ترین سیاسی شخصیات کے الیکشن میں حصہ لینے کے لیے ان کی اہلیت کے حوالے سے بھی بحث چھڑ چکی ہے۔ کیا ان کی نااہلی کی سزا برقرار رہے گی یا انہیں آئین میں موجود ابہام کی بنا پر انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دے دی جائے گی؟ سپریم کورٹ آف پاکستان کے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے فیصلے کے مطابق میاں نواز شریف کو سپریم کورٹ کے 27جولائی 2017ء کے اُس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کا حق نہیں‘ جس میں انہیں نااہل قرار دیا گیا تھا۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ سپریم کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو برقرار رکھا ہے لیکن عدالتِ عظمیٰ نے اسی ایکٹ کی شق پانچ کی ذیلی دفعہ دو کی توثیق نہیں کی جس میں فیصلے کے خلاف اپیل کا حق دیا گیا تھا۔ فل کورٹ کے اس اکثریتی فیصلے کے بعد میاں نواز شریف اپنی نااہلیت کے خلاف اپیل دائر نہیں کر سکیں گے‘ جس کے بعد اب پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قانونی اور آئینی ماہرین الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 232پر انحصار کر رہے ہیں۔ الیکشن ایکٹ کی اس دفعہ میں پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت نے ترمیم کی تھی اور اسی ترمیم کا سہارا لیتے ہوئے اب مسلم لیگ (ن) کے آئینی ماہرین سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے کی تیاری میں ہیں کہ میاں نواز شریف کی تاحیات نااہلی غیر متعلقہ ہو چکی ہے کیونکہ الیکشن ایکٹ 2017ء کی ترمیم شدہ دفعہ 232میں نااہلی کا دورانیہ محض پانچ سال مقرر کیا گیا ہے۔ اس ترمیم شدہ دفعہ میں کہا گیا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 62(اے) کے تحت نااہلی کی مدت پانچ سال سے زیادہ نہیں ہو گی۔ آئین میں سزا کی مدت متعین نہ ہونے پر رکنِ پارلیمنٹ کی نااہلی پانچ سال کے لیے تصور کی جائے گی۔ سپریم کورٹ کے 27جولائی 2017ء کے فیصلے میں کہا گیا تھا کہ ''نواز شریف نے یو اے ای میں قائم کمپنی ایف زیڈ ای میں اپنے اثاثوں کو 2013ء میں اپنے کاغذاتِ نامزدگی میں ظاہر نہ کر کے قانون کی خلاف ورزی کی ہے اور وہ اب عوامی نمائندگی ایکٹ 1976ء کے سیکشن 99 کی روشنی میں ایماندار نہیں رہے لہٰذا وہ عوامی نمائندگی ایکٹ 1976ء کی سیکشن 99 اور آرٹیکل 62 (اے) کی روشی میں پارلیمنٹ کے ممبر کے طور نااہل ہیں‘‘۔آئین کی مذکورہ شق میں ترمیم یا سپریم کورٹ آف پاکستان کے نااہلی سے متعلق فیصلے کے بغیر میاں نوازشریف کی تاحیات نااہلی ختم نہیں کی ہو سکتی تھی۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد اب پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو آئندہ عام انتخابات کی تیاری کے لیے متحرک ہو جانا چاہیے۔ الیکشن کمیشن نے نئے انتخابی ضابطہ اخلاق کی منظوری دے دی ہے۔ یہ منظوری سیاسی جماعتوں سے الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 233کے تحت مشاورت کرنے کے بعد ہی دی گئی ہے۔ حلقہ بندیوں کی اپیلوں کے بارے میں فیصلے 27نومبر تک مکمل ہو جائیں گے۔ انتخابی فہرستوں کا معاملہ بھی آخری مرحلے میں ہے جبکہ انتخابی شیڈول کے بارے میں قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ دسمبر کے پہلے ہفتے میں یہ شیڈول جاری ہو جائے گا اور فروری کے آخری ہفتے میں آئندہ عام انتخابات منعقد ہو جائیں گے۔الیکشن کمیشن نے انتخابات کیلئے ابتدائی تیاری مکمل کر لی ہے۔91ہزار پولنگ سٹیشنوں کیلئے عمارتوں کا جائزہ مکمل کر لیا گیا ہے اور الیکشن کا عملہ جو تقریباً دس لاکھ افراد پر مشتمل ہوگا‘ اس کی فہرستیں صوبائی اور وفاقی حکومتوں سے حاصل کر لی گئی ہیں۔ قومی اسمبلی کیلئے 260ریٹرننگ افسران کی تقرریاں کی جا رہی ہیں اور صوبائی اسمبلیوں کیلئے 593 ریٹرننگ افسران کی خدمات بھی بیورو کریسی سے حاصل کی جا چکی ہیں۔
7سات اکتوبر بروز ہفتہ اسرائیل پر حماس کی کارروائی ‘ جس میں اسرائیلی فوجیوں سمیت 1300سو سے زائد صہیونیوں کے ہلاک ہونے کی اطلاعات ہیں‘ کے بعد سے اسرائیل کی طرف سے غزہ پر مسلسل بمباری کا سلسلہ جاری ہے۔ اسرائیل اب تک غزہ پر چھ ہزار بم اور چار ہزار ٹن سے زیادہ بارود گرا چکا ہے جس سے شہید فلسطینیوں کی تعداد 1500 سے زائد ہوچکی ہے جبکہ زخمیوں کی تعداد 7 ہزار سے بھی زائد ہو گئی ہے جبکہ اسرائیلی بربریت میں بے گھر ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 3 لاکھ 38 ہزار تک پہنچ گئی۔اس بڑے پیمانے پر تباہی کے باوجود حماس کی اسرائیل کے خلاف مزاحمت جاری ہے۔ حماس کی حالیہ کارروائی اس لحاظ سے بھی تاریخی اہمیت کی حامل ہے کہ گزشتہ پچاس برس کے دوران فلسطین کی طرف سے اسرائیل کے خلاف اس بڑے پیمانے کی کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ حماس کی حالیہ کارروائی اتنی منظم تھی کہ حماس کے مجاہدین نے اسرائیل پر بیک وقت زمین‘ فضا اور سمندر سے حملہ کیا اور اسرائیل کو بھاری نقصان پہنچانے میں کامیاب رہے۔حماس اسرائیل جنگ کے بعد دنیا واضح طور پر دو گروپوں میں تقسیم نظر آتی ہے۔ امریکہ اور یورپ نہ صرف اسرائیلی جارحیت کے حامی ہیں بلکہ اُسے عسکری امداد بھی فراہم کر رہے ہیں جبکہ دوسری طرف مسلم ممالک فلسطین کی حمایت میں سامنے آئے ہیں۔ اسرائیل فلسطین کے خلاف جتنی مرضی طاقت کا استعمال کر لے لیکن یہ طے ہے کہ مسئلہ فلسطین کے زمینی حقائق کے مطابق حل کے بغیر یہ مسئلہ کبھی ختم نہیں ہو سکتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں