"KDC" (space) message & send to 7575

شفاف انتخابات اور سیاسی استحکام لازم و ملزوم

الیکشن کمیشن آٹھ فروری 2024ء کو منعقد ہونے والے عام انتخابات کیلئے الیکشن ایکٹ 2017ء کی ترمیم شدہ دفعہ 57کے تحت انتخابی شیڈول جاری کر چکا ہے۔ سپریم کورٹ میں بیوروکریسی سے ریٹرننگ اور ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران کی منسوخی کا لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل ہونے کے بعد الیکشن کے انعقاد کی راہ میں کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہی۔ سخت موسمی حالات کا عذر بھی کسی کام نہیں آئے گا۔ الیکشن کمیشن نے عام انتخابات کی تاریخ سپریم کورٹ اور صدرِ مملکت کی مشاورت سے مقرر کی تھی اور عدالتِ عظمیٰ نے اس تاریخ پر الیکشن کے انعقاد کی راہ میں آنے والی سب رکاوٹیں بھی دور کر دی ہیں۔ گزشتہ ماہ ایک سیاسی جماعت کی جانب سے لیول پلیئنگ فیلڈ کے حوالے سے الیکشن کمیشن سے تحریری طور پر رابطہ کرنے پر الیکشن کمیشن نے نگران وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری اور چاروں صوبوں کے چیف سیکرٹریز کو تحریری طور پر تمام سیاسی جماعتوں کو لیول پلیئنگ فیلڈ فراہم کرنے کی ہدایت کی تھی۔ اس حکم نامے کے بعد چاروں صوبوں کے چیف سیکرٹریز اپنے اپنے صوبے کے اعلیٰ پولیس افسران کو الیکشن کمیشن کے احکامات پر عملدرآمد کرنے کے احکامات جاری کر چکے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے نگران حکومتوں کو واضح کر دیا ہے کہ الیکشن ایکٹ کی دفعہ (1)130 کے تحت ان پر لازم ہے کہ وہ عام انتخابات میں غیرجانبدار رہیں۔ کسی سیاسی جماعت کی طرف داری نہ کریں۔الیکشن کمیشن نے اسی ایکٹ کی روشنی میں حکم دیا تھا کہ تمام سیاسی جماعتوں کو الیکشن مہم کیلئے یکساں ماحول فراہم کیا جائے۔
تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن کی بات کریں تو الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قرار دینے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔ پیر کے روز سماعت کے دوران تحریک انصاف کے وکیل نے انٹرا پارٹی انتخابات کے خلاف دائر تمام درخواستوں کو خارج کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا تھا کہ آئین میں پارٹیوں پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ وہ جیسے بھی انتخابات کرائیں‘ الیکشن کمیشن کے فیصلہ کے مطابق جو افراد پارٹی کے ممبر نہیں وہ پارٹی کے فیصلے کو چیلنج نہیں کرسکتے‘تحریک انصاف کو انتخابی نشان بلّا نہ دینے کے سنگین نتائج نکل سکتے ہیں‘ سیاسی جماعت کی رجسٹریشن پر بھی سوال اُٹھ سکتا ہے۔اس سے قبل الیکشن کمیشن کے ایک معزز ممبر اپنے ریمارکس میں واضح کرچکے ہیں کہ تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن اگر الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعات 208اور 209اور الیکشن رولز کی دفعہ 158کے تحت درست قرار نہ پائے تو اس کے نتائج مثبت نہ ہوں گے۔ اگر الیکشن ایکٹ کی مجوزہ دفعات کا اصولی طور پرجائزہ لیا جائے تو ان دفعات میں ابہام پایا جاتا ہے۔ اس سے قبل الیکشن کمیشن یہ بھی کہہ چکا ہے کہ انٹرا پارٹی الیکشن بار بار کرانے کی قانون میں کوئی شق موجود نہیں ہے۔ عام انتخابات کا شیڈول جاری ہونے کے بعد چونکہ کاغذاتِ نامزدگی کی وصولی کا عمل آج‘20دسمبر سے شروع ہو جائے گا‘ اس لیے اس موقع پر تحریک انصاف کی پارٹی کی رجسٹریشن اور انتخابی نشان بڑی اہمیت کا حامل ہے۔اگر الیکشن کمیشن تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن مسترد قرار دے دیتا ہے تو تحریک انصاف کا انتخابی نشان بلّا بھی الیکشن ایکٹ کی دفعہ 215کے تحت واپس لیا جا سکتا ہے۔ایسی صورت میں تحریک انصاف کے پاس سپریم کورٹ میں جانے کی آپشن موجود ہو گا۔ مجھے تو بادی النظر میں یہی نظر آ رہا ہے کہ الیکشن کمیشن لیول پلیئنگ فیلڈ کے لیے تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن کے نتائج کو تسلیم کر کے الیکشن ایکٹ کی دفعہ 209 کے تحت ریکارڈ کا حصہ بنا لے گا۔
اُدھر توہینِ الیکشن کمیشن کیس میں بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان اور سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری پر فردِجرم عائد کرنے کی کارروائی ایک بار پھر مؤخر ہوگئی ہے۔الیکشن کمیشن نے کیس کی سماعت 27دسمبر تک ملتوی کر دی ہے۔ الیکشن کمیشن الیکشن ایکٹ کی دفعہ 10 کے تحت توہینِ الیکشن کمیشن کیس کی سماعت کر رہا ہے۔ الیکشن کمیشن کو آئین کے آرٹیکل 204 کے تحت اس کیس میں ہائی کورٹ کے مساوی اختیارات حاصل ہیں اور الیکشن ایکٹ کی دفعہ 10 کے تحت عمران خان کو اس کیس میں تین سال کی سزا بھی ہو سکتی ہے۔دوسری طرف عمران خان کو سائفر کیس میں بھی سزا ہو سکتی ہے۔ ان کے خلاف اس کیس میں ٹھوس شواہد موجود ہیں۔ عمران خان کے دورِحکومت کی وفاقی وزیر زبیدہ جلال‘ جن کا تعلق بلوچستان عوامی پارٹی سے ہے‘ وہ نیب راولپنڈی میں القادرٹرسٹ کرپشن کیس میں اپنا بیان ریکارڈ کروا چکی ہیں۔ اس کیس میں عمران خان کابینہ کے تین وفاقی وزیر ان کے خلاف گواہ بن چکے ہیں‘ ان میں ایم کیو ایم کا کوئی وزیر شامل نہیں۔ یعنی عمران خان کے اپنے ہی ساتھیوں نے انہیں مقدمات کی دلدل میں پھنسا دیا ہے۔سب سے پہلے انہیں ایک وقت میں ان کے دستِ راست سمجھے جانے والے شہزاد اکبر نے ہی بند گلی میں کھڑا کیا تھا۔
دوسری طرف میاں نواز شریف آئے روز ایسے بیان دے رہے ہیں جو اکثر و بیشتر ذومعنی ہوتے ہیں۔وہ اپنی جماعت کے پارلیمانی بورڈ کے اجلاسوں سے خطاب کے دوران پھر سے یہ سوال دہرا رہے ہیں کہ مجھے کیوں نکالا؟ ان کا کہنا ہے کہ میں انتقامی جذبے سے واپس نہیں آیا لیکن حساب لینا تو بنتا ہے‘ میری دشمنی میں قوم سے جو کیا گیااس کی وجہ بتائی جائے۔ایک اور اجلاس میں اپنے سوال کا جواب بھی خودی دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ آئین اور قانون پر چلنے والوں کو راستے سے ہٹا دیا جاتا ہے‘ صرف ایک سلیکٹڈ شخص کو لانے کیلئے مجھے نکالا گیا۔ ہم ناانصافیوں کو بھول جاتے ہیں‘ اپنے ساتھ اتنے مخلص نہیں جتنا ہمیں ہونا چاہیے‘ یہ بھی کسی کو پوچھنا چاہیے تھا کہ صبح کا وزیراعظم رات کو کیسے ہائی جیکر بن گیا‘ ہم نے کبھی آئین اور قانون کو نہیں توڑا‘ ہم نے ہمیشہ آئین کی پاسداری اور رکھوالی کی ہے‘ جو آئین کی پاسداری اور رکھوالی نہیں کرتے ان کی سزا ہمیں بھگتنا پڑتی ہے۔ شواہد بتا رہے ہیں کہ میاں نواز شریف ڈھکے چھپے انداز میں جو سوال کر رہے ہیں دراصل وہ انہی سوالات کو اپنا انتخابی بیانیہ بنانا چاہ رہے ہیں۔
8فروری 2024ء کے انتخابات کے اخراجات کی مد میں رواں مالی سال کے بجٹ میں الیکشن کمیشن کیلئے 47ارب روپے مختص کیے گئے تھے۔ اس رقم کی قسطوں میں ادائیگی ہو رہی ہے جبکہ سکیورٹی کے اخراجات کی مد میں تقریباً 12ارب روپے کے اخراجات اس کے علاوہ ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق لگ بھگ 14ہزار کے قریب امیدوار عام انتخابات میں حصہ لیں گے۔ یہ اندازہ بھی لگایا جا رہا ہے کہ عام انتخابات میں قومی اسمبلی کی 266اور صوبائی اسمبلیوں کی 593نشستوں سے جو امیدوار حصہ لیں گے وہ ماضی کے مقابلے میں اس بار زیادہ رقوم انتخابی مہمات پر خرچ کریں گے۔ ان کثیر اخراجات کے بعد بھی اگر کسی سیاسی جماعت نے الیکشن کے نتائج کو تسلیم نہ کیا تو ملک پھر سیاسی عدم استحکام سے دوچار ہو جائے گا۔ 2014ء میں جیسے تحریک انصاف نے انتخابی دھاندلی کا الزام لگا کر ملک میں طویل دھرنا دیا تھا‘ اگر آئندہ انتخابات کے بعد بھی کوئی جماعت سڑکوں پر آ گئی تو ملک میں سرمایہ کاری کا عمل رُک جائے گا جبکہ پہلے ہی ملکی معیشت کی حالت تسلی بخش نہیں ہے۔ پاکستان اب بھی مختلف اندرونی و بیرونی خطرات سے دوچار ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی ادارے معاشی بہتری کے حوالے سے چیف آف آرمی سٹاف جنرل سید عاصم منیر کی خصوصی کاوشوں کو سرا رہے ہیں۔تمام تر مشکلات کے باوجود عام انتخابات کی تیاریاں آخری مراحل میں پہنچ چکی ہیں۔ نگران صوبائی حکومتیں بھی اب اپنی ساری توجہ عام انتخابات کو پُرامن بنانے کی طرف مرکوز کرلیں گی۔ماضی میں الیکشن نتائج کے حوالے سے جو بھی طریقہ کار اختیار کیا جاتا رہا ہے لیکن اس بار تقریباً 13 کروڑ ووٹرزجن میں اکثریت نوجوانوں کی ہے‘ اپنے ووٹ کی طاقت سے موروثی سیاست کومسترد کر دیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں