"KDC" (space) message & send to 7575

مفاہمتی پالیسی اختیار کی جائے

ملک کی 16ویں قومی اسمبلی معرضِ وجود میں آ چکی ہے۔ گزشتہ روز 336 میں سے 302 نو منتخب اراکینِ اسمبلی حلف اٹھا چکے ہیں۔ قومی اسمبلی کا اجلاس گزشتہ کچھ دنوں سے بحث کا موضوع بنا ہوا تھا۔ اس سے قبل قومی اسمبلی کا اجلاس 29فروری کو بلانے سے متعلق نگران وزیراعظم کی صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو بھیجی گئی سمری‘ جو آئین کے آرٹیکل 48 کے پیش نظر انہیں ارسال کی گئی تھی‘ وہ صدرِ مملکت نے ہائوس مکمل نہ ہونے کا عذر بنا کر واپس بھیج دی تھی۔تاہم صدرِ مملکت نے نگران وزیراعظم کی طرف سے بھیجی گئی دوسری سمری پر دستخط کرتے ہوئے نومنتخب قومی اسمبلی کا پہلا اجلاس طلب کرنے کی منظوری دے دی۔ صدرِمملکت نے اپنے تحفظات کے باوجود آئینی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے قومی اسمبلی کا اجلاس بلا کر جاری قیاس آرائیوں اوربحث کا خاتمہ کیا ہے۔ اگر صدرِ مملکت اسمبلی اجلاس کی اجازت نہ دیتے اور یہ اجلاس سپیکر قومی اسمبلی کے فیصلے کی روشنی میں وقوع پذیر ہوتا تو اس کی کوئی آئینی حیثیت نہ ہوتی کیونکہ سپیکر قومی اسمبلی نے اجلاس بلانے کے لیے آئین کے آرٹیکل(2) 91کا حوالہ دیا تھا جس میں واضح طور پر صدرِ مملکت کا ذکر ہے‘ سپیکر قومی اسمبلی کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ لہٰذااس اجلاس کو غیر آئینی تصور کرتے ہوئے سپریم کورٹ خلافِ آئین قرار دے کر ویسے ہی کارروائی کا حکم دے سکتی تھی جس طرح سابق ڈپٹی سپیکرقاسم سوری کی رولنگ کو مسترد کرتے ہوئے بینچ کے ایک رکن نے رائے دی تھی کہ قاسم سوری کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6کے تحت کارروائی کی جائے۔آئین کے آرٹیکل (2)91 کے تحت صدرِ مملکت ہی عام انتخابات کے انعقاد کے بعد 21 روز کے اندر قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کے پابند ہیں۔ صدرِ مملکت کی جانب سے اجلاس نہ بلانے کی صورت میں کیا لائحہ عمل اختیار کیا جا سکتا ہے‘ مذکورہ آرٹیکل میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے سنی اتحاد کونسل کو اقلیتی اور خواتین کے لیے مخصوص نشستیں نہ دینے کے معاملے کا جائزہ اب شاید سپریم کورٹ ہی لے گی۔ آٹھ فروری کو ہونے والے انتخابات میں تحریک انصاف کے حمایت یافتہ اراکین آزاد حیثیت میں منتخب ہوئے اور بعد ازاں آئین کے آرٹیکل51اور 106کے تحت سنی اتحاد کونسل میں شامل ہو گئے جس کے بعد سنی اتحاد کونسل کی جانب سے قومی اسمبلی کی مخصوص نشستوں کے لیے الیکشن کمیشن میں فہرست جمع کرائی گئی اور استدعا کی گئی کہ اقلیتوں اور خواتین کی مخصوص نشستیں سنی اتحاد کونسل کو تفویض کی جائیں جس پر الیکشن کمیشن تاحال کوئی فیصلہ نہیں کر سکا۔
اُدھر ایم کیوایم پاکستان کے رہنما مصطفی کمال کے بعد گورنر سندھ کامران ٹیسوری کی بھی ایک مبینہ آڈیو لیک ہو گئی ہے جس میں کامران ٹیسوری نے کہا ہے کہ '' وہ کہہ رہے ہیں کہ ہمارا مینڈیٹ 100فیصد جعلی ہے تو ہم نے کہا ہے کہ کچھ ایسی بھی پارٹیاں ہیں جن کا 200فیصد جعلی مینڈیٹ ہے اور ہمارا اشارہ ان کی طرف ہی تھا۔ اب فیصلہ رابطہ کمیٹی نے کرنا ہے کہ ہم کس حد تک ان کے پریشر میں آتے ہیں‘ یہ دونوں پارٹیاں (مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی) آپس میں ملی ہوئی ہیں‘ اب ان کے نمبرز پورے ہو گئے ہیں۔ ان کو صدر‘ چیئرمین سینیٹ اور دو گورنرز دیے ہیں‘ پیپلز پارٹی (ن) لیگ کو پریشر دے رہی ہے کہ سندھ کی گورنر شپ ایم کیو ایم کو نہ دی جائے‘ اب چاہے گورنر شپ ہو اس کا فیصلہ ایم کیو ایم نے کرنا ہے‘ ان کی ڈکٹیشن پر کام نہیں ہوگا‘‘۔کامران ٹیسوری کا مبینہ آڈیو میں مزید کہنا تھا کہ ''حکومت میں شامل ہونے کے بدلے ایک وزارت دے رہے ہیں۔ وہ گورنر سندھ بھی اپنا لا رہے ہیں۔ کچھ ملا بھی نہیں اور حکومت میں گئے تو حشر اور برا ہونے والا ہے‘‘۔ وائرل آڈیو کے متن سے اندازہ ہو رہا ہے کہ دیگر اتحادی جماعتیں ایم کیو ایم کے ہاتھ کر گئی ہیں اور اگر نظریۂ ضرورت کے تحت ایم کیو ایم حکومت کا حصہ بن گئی تو اس کا تین نکاتی ایجنڈا پس پشت چلا جائے گا۔ پی ٹی آئی حکومت میں ایم کیو ایم کی سات نشستیں تھیں اور وہ حکومت کی قابلِ اعتماد اتحادی تھی‘ اب اس کے قومی اسمبلی میں 22اراکین ہیں پھر بھی اسے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کا اعتماد حاصل نہیں تو حکومت میں شامل ہونے کے بعد ان کی کیا حیثیت ہو گی۔ ایم کیو ایم حکومت کے فوائد میں تو برابر کی حصہ دار نہیں بن رہی لیکن موجودہ معاشی عدم استحکام کے پیشِ نظر تمام مسائل اور مشکلات میں برابر کی حصہ دار ہو گی۔
ایم کیو ایم کے اہم رہنماؤں کی مبینہ آڈیو لیکس سے ملکی اور بین الاقوامی میڈیا میں حالیہ انتخابات کی شفافیت پر سخت سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ اس ابہام کو دور کرنے کے لیے ایک اعلیٰ سطحی جوڈیشل کمیشن تشکیل دے کر وزیراعظم افواہوں کو کنٹرول کر سکتے ہیں۔ اس جوڈیشل کمیشن کو فارم45 اور فارم47 کے تنازع کا ازسر نو جائزہ لینا چاہیے۔ عوام اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کو اس کمیشن کو مشکوک کردار کے حامل ریٹرننگ افسران اور الیکشن عملے کی باوثوق تفصیلات بھجوانے کی اجازت دی جانی چاہیے۔ صرف مٹھی بھر نشستوں کا معاملہ ہے‘ اس سے پورے نظام کی شفافیت پر سوال اٹھنا درست نہیں۔ سوشل میڈیا پر انتخابی نتائج میں تبدیلی کے حوالے سے جو خبریں وائرل ہو رہی ہیں‘ اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ مخصوص سیاسی جماعتیں اپنے ذاتی مفادات کے لیے ان خبروں کو بڑھا چڑھا کر بیان کر رہی ہیں۔ایک جانب عام انتخابات میں ہارنے والی سیاسی پارٹیوں کا مبینہ دھاندلی کے خلاف احتجاج جاری ہے تو دوسری طرف چاروں صوبائی اسمبلیوں میں سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کا انتخاب ہو گیا ہے جبکہ پنجاب اور سندھ میں وزیراعلیٰ کا انتخاب بھی ہو چکا ہے۔ وہاں نگران حکومتیں ختم ہو چکی ہیں اور اقتدار منتخب نمائندوں کو منتقل کر دیا گیا ہے۔ آج قومی اسمبلی کے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کا انتخاب بھی ہو جائے گا۔ امید ہے کہ دو مارچ تک وزیراعظم بھی حلف اٹھالیں گے اور وفاقی کابینہ بھی تشکیل پا جائے گی۔
چاروں صوبوں اور وفاق میں حکومت کی تشکیل کے بعد مفاہمت پر مبنی پالیسی اختیار کی جانی چاہیے۔ سب حکمرانوں کو پروٹوکول سے گریز اور سادگی اختیار کرتے ہوئے آگے بڑھنا چاہیے۔ پنجاب کی خاتون وزیراعلیٰ کو بھی سادہ طرزِ حکمرانی اپنانا چاہیے اور اپنے اردگرد دانشور اور متعلقہ شعبے میں مہارت رکھنے والی شخصیات کی اکٹھا کرنا چاہیے۔ سرکاری تقریبات میں عوامی وسائل پر نمود و نمائش کی روش ترک کر دی جانی چاہیے۔ ملک کو سیاسی استحکام کی جانب گامزن کرنے کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو اب اشتعال انگیز بیان بازی کا سلسلہ ترک کر دینا چاہیے۔ اس سے سیاسی ماحول خودبخود ٹھنڈا ہو جائے گا۔ نئی حکومت شدید معاشی دباؤ کی زد میں ہو گی‘ اس کا کوئی بھی ایسا اقدام جو عوام کی مشکلات میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے‘ عوام کے دل میں حکومت مخالف جذبات کو اُبھار سکتا ہے۔
مشکل معاشی اصلاحات کے لیے ملک کی نئی مخلوط حکومت کا انتخابی مینڈیٹ زیادہ مضبوط نہیں ہے اور قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی ہنگامہ آرائی کا شکار رہ سکتی ہے۔ خیبرپختونخوا کے حالات بھی کشیدہ ہیں۔ خیبرپختونخوا میں درونِ خانہ وفاق کے خلاف جانے کی تیاری دیکھنے میں آ رہی ہے جبکہ یہ صوبہ دہشت گردی سے بھی شدید متاثر ہے۔ گوکہ ہماری بہادر افواج دہشت گردی کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بنی کھڑی ہیں لیکن جب صوبائی اور وفاقی حکومت کے درمیان ہم آہنگی نہیں ہو گی‘ دونوں کے مابین نظریاتی اختلاف ہوگا تو ایسی صورت میں ریاست کے خلاف کام کرنے والی قوتوں کا خاتمہ کیسے کیا جائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں