"KDC" (space) message & send to 7575

سیاسی ہم آہنگی کا فقدان‘ کیاعدالتی محاذ گرم رہے گا؟

دو اپریل کو سینیٹ الیکشن اور 21 اپریل کو ضمنی انتخابات کا مرحلہ طے ہونے کے بعد سیاسی اور معاشی صورتحال مزید سنگین ہونے کا اندیشہ ہے۔ ہو سکتا ہے کہ سینیٹ الیکشن میں ہوا کا رُخ ہی تبدیل ہو جائے۔ اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین ایک بیانیے کے ساتھ صدر آصف علی زرداری کے ساتھ کھڑی ہے جبکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے اہم رہنما خواجہ آصف‘ رانا ثنا اللہ‘ جاوید لطیف اور دیگر متضاد بیانیوں سے عوام میں بدگمانیاں پھیلا رہے ہیں۔ وفاقی وزرا بھی میڈیا میں متنازع بیانات دے رہے ہیں جس کا فائدہ پاکستان پیپلز پارٹی کو پہنچ رہا ہے۔ تحریک انصاف کی تنقید بھی پاکستان مسلم لیگ (ن) تک ہی محدود ہے۔ لیڈرشپ کے فقدان کی وجہ سے تحریکِ انصاف کے حمایت یافتہ اراکینِ اسمبلی سنی اتحاد کونسل کے ساتھ اتحاد سے غیرمطمئن نظر آ تے ہیں۔ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ اراکینِ اسمبلی کو ابھی تک یہی یقین دہانی کرائی جا رہی ہے کہ عمران خان عنقریب ان کے ساتھ ایوان میں کھڑے نظر آئیں گے۔ عدالتوں میں مقدمات کی رفتار دیکھتے ہوئے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کسی وقت بھی کوئی بھی ایسی بریکنگ نیوز آ سکتی ہے جو سیاسی تنائو کو مزید بڑھانے کا باعث بن سکتی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی اندرونی کیفیت بھی اچھی نظر نہیں آ رہی ۔ اندر ہی اندر لاوا پک رہا ہے جبکہ صدر آصف علی زرداری اہم ترین آئینی عہدے پر مکمل کنٹرول حاصل کر چکے ہیں۔
اس وقت ملک میں امن و امان کی صورتحال تشویشناک ہوتی جا رہی ہے۔ پتنگ بازی کی وجہ سے بھی جانی نقصان کا سلسلہ جاری ہے اور میاں نواز شریف اور مریم نواز متاثرین کے گھر جا کر ان سے اظہارِ یکجہتی کر رہے ہیں۔ دیکھا جائے تو وزیراعلیٰ پنجاب کی ابھی پولیس اور بیوروکریسی پر گرفت مضبوط نہیں ہو سکی۔ مسلم لیگ (ن) کے وزرا اور پارٹی لیڈر شپ میں بھی اعتماد نہیں جھلک رہا۔ اس وقت ملک میں نواب آف کالا باغ جیسی رِٹ قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ جب مغربی پاکستان کا کنٹرول ان کے ہاتھ میں تھا تو ان کے حکم کی تعمیل چند گھنٹوں میں ہو جاتی تھی۔ ان کے آٹھ سالہ دورِ حکومت میں مہنگائی کا نام و نشان نہیں تھا‘ جرائم بھی برائے نام تھے۔ اس کے مقابلے میں آج جب بیورو کریسی کو تمام جدید سہولتیں میسر ہیں تو ملک میں بدامنی‘ قتل و غارت‘ دہشت گردی اور مہنگائی کا سیلاب کیوں ہے؟
امن و امان کی صورتحال کی بات کریں تو ماضی قریب میں افغانستان سے پاکستان میں دہشت گردی کا سلسلہ وقتی طور پر کم ضرور ہوا تھا لیکن پراکسی وار مسلسل جاری رہی۔ افغان حکومت پاکستان کی اندرونی کشمکش کا بغور جائزہ لے رہی ہے۔ اگر کالعدم ٹی ٹی پی اور تحریک طالبان افغانستان کی باہمی اشتراک سے پاکستان میں مداخلت جاری رہی تو بھارت بھی اس صورتحال سے فائدہ اٹھانے کے لیے میدان میں کود سکتا ہے۔ بھارت ماضی میں بلوچستان میں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے دہشت گردی کو ہوا دینے میں پیش پیش رہا۔ ان حالات میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا کردار نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ اگر وفاق اور صوبائی حکومتوں نے ملک کے مفادات کے بجائے اب بھی ذاتی مفادات کو ترجیح بنایا تو موجودہ سیاسی نظام کے لپیٹے جانے کے خدشات بھی موجود ہیں۔ اس وقت دوست ممالک کی نظریں عسکری قیادت پر مرکوز ہیں۔ ملک کو جو مالی امداد وصول ہو رہی ہیں‘ اس کی گارنٹی بھی مقتدر حلقوں ہی نے دی ہے۔
اگلے روز اپوزیشن کی طرف سے قومی اور پنجاب اسمبلی میں بھرپور احتجاج کے بعد اسمبلی کی کارروائی کو منجمد کرنے کا واقعہ پیش آیا‘ اگر اس کا تسلسل جاری رہا تو ایوان میں کوئی قانون سازی نہیں ہو سکے گی۔ خیبر پختونخوا اسمبلی سے بھی وفاق پر دباؤ ڈالے جا نے کا امکان ہے۔ کسی بھی عوامی احتجاج کو کنٹرول کرنا پنجاب کی موجودہ قیادت کے لیے مشکل ترین مرحلہ ہو گا۔ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ تحریک انصاف میں گروپوں کے اختلافات کی خبریں ایک خاص حکمت عملی کے تحت پھیلائی جا رہی ہیں تاکہ حکمران جماعت کی توجہ ان اختلافات تک ہی محدود رہے۔ تحریک انصاف کے فارورڈ بلاک کی خبریں بھی سرگرم ہیں جبکہ اس فارورڈ بلاک کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا وہ فیصلہ ہے جو انہوں نے آرٹیکل (1)63 کے پیشِ نظر فلور کراسنگ اور فارورڈ بلاک کے حوالے سے دیا تھا۔ اس فیصلے سے سب پارلیمانی جماعتیں بلیک میلنگ سے محفوظ ہو چکی ہیں۔ سفارتی حلقوں کے مطابق امریکی سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے اصرار کے باوجود انتخابی دھاندلیوں کے بارے میں آڈٹ کرانے کے لیے حکومت سنجیدہ نہیں۔ اصولی طور پر غیر ملکی انتخابی مبصرین کی رپورٹ اور یورپی یونین کمیشن کی الیکشن جائزہ رپورٹ کی زمینی حقائق کے تناظر میں کوئی اہمیت نہیں کیونکہ اس کے پیچھے اُن تنظیموں کی لابنگ کارفرما ہے جو ملک میں انتشار اور خلفشار چاہتی ہیں۔
موجودہ معاشی حالات کو بہتر بنانے کے لیے خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل شب و روز مصروفِ عمل ہے۔ نگران وفاقی حکومت کی مایوس کن کارکردگی کے پیشِ نظر سینیٹ کے سابق چیئرمین رضا ربانی نے نگران حکومت کے معاشی فیصلوں کی پارلیمانی انکوائری کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ قومی انتخابات سے ایک دن پہلے یعنی سات فروری کو نگران حکومت نے جاری منصوبوں کے اخراجات میں 30 فیصد اضافے کا فیصلہ کرکے نگران سیٹ اَپ کے مینڈیٹ کی خلاف ورزی کی۔ یہ اضافہ قابلِ مذمت ہے۔ اگر قانونی طور پر جائزہ لیا جائے تو یہ فیصلہ الیکشن ایکٹ کی دفعہ 230 سے بھی انحراف ہے۔ الیکشن کمیشن کی منظوری کے بغیر نگران حکومت کا یہ فیصلہ غیر قانونی ہے اور اس غیرقانونی فیصلے پر اس کا مواخذہ ہونا چاہیے۔ وفاقی حکومت نے الیکشن کمیشن کے بہت سے اہم فیصلوں کو نظرانداز کیے رکھا جبکہ پنجاب حکومت الیکشن کمیشن کے تابع رہی۔
ان حالات میں ایچی سن کالج کے پرنسپل کے استعفے کے بھی گہرے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔پرنسپل نے اپنے سٹاف کے نام لکھے خط میں کہا کہ بورڈ کی سطح پر جو کچھ ہو رہا ہے‘ وہ آپ سب کو معلوم ہے۔ انتہائی بری گورننس کے تسلسل کی وجہ سے میرے پاس کوئی اور چوائس نہیں بچی‘ میں نے کالج کی شہرت کی حفاظت کی بھرپور کوشش کی مگر چند افراد کی خاطر پالیسیوں میں تباہ کن تبدیلیاں لائی گئیں‘ سکولوں میں اقربا پروری اور سیاست کی کوئی گنجائش نہیں۔ مبینہ طور پر گورنر ہاؤس کے جانبدارانہ اقدامات کے باعث گورننس کا نظام تباہ ہو گیا ہے۔ پرنسپل مائیکل اے تھامسن کے خط پر رد ِعمل دیتے ہوئے گورنر پنجاب بلیغ الرحمن نے کہا ہے کہ پرنسپل ایک سال میں 100 سے زائد چھٹیاں کرتے تھے اور انکوائریز سے بچنے کے لیے انہوں نے یہ حربہ اختیار کیا۔بقول گورنر پرنسپل نے اپنے خط میں جس سیاسی دخل اندازی‘ اقربا پروری‘ جانبدارانہ اقدامات اور گورننس کی تباہ کاری کا ذکر کیا‘ وہ قابلِ افسوس ہے۔مگر حیرت انگیز امر یہ ہے کہ احد چیمہ نے اپنے بچوں کی فیس کی آڑ میں ایچی سن کالج کے معاملات میں مداخلت کیوں کی؟ احد چیمہ کے معاملے میں الیکشن کمیشن کا وہ فیصلہ بھی پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے جو انہیں نگران وزیر کے عہدے سے ہٹانے کے لیے دیا گیا۔بہرکیف اپوزیشن کے ہاتھ اس مسئلے کو اچھالنے کا اچھا موقع لگا ہے اور بچوں کی سکول فیس معافی کا یہ معاملہ احد چیمہ کو نئی مشکل میں ڈال سکتا ہے۔
حاصلِ کلام یہ ہے کہ ملک کا سسٹم خطرے سے دوچار ہے۔ اگرچہ 1990ء کے بعد پہلی مرتبہ ٹرائیکا یعنی صدرِ مملکت‘ وزیراعظم اور آرمی چیف ملک کی معاشی صورتحال کو بہتر کرنے کے لیے مل کر کام کر رہے ہیں لیکن جب وفاق اور صوبوں میں سیاسی ہم آہنگی نہیں ہو گی اور عدالتوں میں سیاسی جنگ جاری رہے گی اور فارم 45اور فام 47 کے تحت نئے نئے اختراعی بیانیے سامنے آئیں گے‘ تب ٹرائیکا کی پالیسی کیسے کامیاب ہو گی؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں