کسی اونٹ پالنے والے نے منت مانی کہ اگر اس کا کام ہو گیا تو وہ ایک اونٹ دس روپے میں بیچ دے گا۔ کام ہو گیا۔ اب منت پوری کرنی تھی۔ اونٹ بہت قیمتی تھا۔ اس لیے اتنا نقصان اٹھانا بھی آسان نہ تھا۔ اسے ایک چال سوجھی۔ اس نے ایک بلی کہیں سے پکڑ لی اور اونٹ کے ساتھ بازار لے گیا۔ اونٹ کے گلے میں لکھ کر لگا دیا کہ اس کی قیمت دس روپے ہے۔ گاہک آتا تو اسے کہتا: ’’اونٹ تو دس روپے ہی کا ہے لیکن بلی کی قیمت 50 ہزار روپے ہے۔ آپ کو دونوں کا پیکیج لینا ہوگا‘‘۔ اسی طرح کا پیکیج کالج اور جامعات داخلہ کے امیدواروں کو بیچتے ہیں۔ طلبہ کو داخلہ فارم مفت ملا کرتا تھا۔ اب اسے پراسپیکٹس کے ساتھ لگا دیا گیا ہے۔ طلبہ کو دونوں کا پیکیج لینا پڑتا ہے، وہ بھی چالیس پچاس میں نہیں، کئی سوروپے میں اور بعض اوقات ہزار دو ہزار روپے میں۔ چند ہفتوں میں کالجوں اور جامعات کے داخلے شروع ہونے والے ہیں۔ جن طلبہ کو یقین نہیں کہ انہیں پسند کے ادارہ میں داخلہ مل جائے گا، وہ کئی جگہ فارم جمع کرائیں گے۔ انہیں ہر جگہ ’’پیکیج‘‘ خریدنا پڑے گا۔ یوں داخلہ ملے نہ ملے ہر طالب علم کے والد کو ہزاروں روپے سے ہاتھ دھونا پڑیں گے۔ امیدواروں کی تعداد لاکھوں میں ہوگی۔ اس سے اندازہ لگا لیں کہ کالجوں اور جامعات کی کتنی چاندی ہوگی۔ دوسری طرف والدین کو بھاری مالی نقصان اٹھانا پڑے گا، وہ بھی بغیر کسی فائدہ کے۔ پہلے یہ رجحان نجی تعلیمی اداروں میں آیا۔ پھر اس کے جراثیم سرکاری اداروں میں بھی داخل ہو گئے۔ فیسوں کے بارے میں تو پوچھیں مت کہ تعلیم جو کبھی حکومت کی ذمہ داری ہوا کرتی تھی، اب حاصل کرنا مشکل ہو چکا ہے۔ امریکیوں نے ہمارے حکمرانوں کو سبق پڑھا دیا کہ جس طرح ہم کرتے ہیں آپ بھی کریں۔ تعلیم (اور صحت) کو عوام کا حق سمجھنا چھوڑ دیں۔ اخراجات کا بوجھ یہیں ختم نہیں ہو جاتا۔ ہر فارم کے ساتھ کئی دستاویزات کی نقلیں لگانے کے لیے کہا جاتا ہے۔ ان میں سے ہر ایک کی کسی گزیٹڈ افسر سے تصدیق ہونی چاہیے۔ اگر طالب علم خود فارم جمع نہیں کرا سکتا تو رجسٹری ڈاک یا کوریئر کا خرچہ برداشت کرنا ہوگا۔ یوں ہر فارم کے ساتھ اضافی خرچہ کرنا پڑتا ہے۔ جتنے اداروں میں داخلہ کی کوشش، اتنا ہی بوجھ۔ ہزاروں نہیں تو سینکڑوں روپے ضرور خرچ ہو جاتے ہیں۔ جن طلبہ کو داخلہ نہیں ملتا، ان کے لیے سراسر نقصان ہے۔ کالجوں اور جامعات کو اپنے آپ احساس نہیں ہوگا کہ وہ ان طلبہ سے بھی زیادتی کر رہے ہیں جنھیں انھوں نے داخلہ بھی نہیں دینا۔ وجہ یہ ہے کہ مفت کی آمدنی ترک کر دینا بہت مشکل ہوتا ہے۔ مسئلہ کا حل یہ ہے کہ حکومت تمام سرکاری اور نجی کالج اور جامعات کے سربراہوں کو حکم دے کہ وہ داخلہ فارم کو پراسپیکٹس سے الگ کر دیں۔ جسے ادارہ کے بارے میں مزید معلومات میں دلچسپی ہو، صرف وہی پراسپیکٹس خریدے جبکہ فارم ہر امیدوار کو مفت دیا جائے۔ یہی فارم تعلیمی ادارہ کی اپنی ویب سائٹ پر بھی دیا جائے تاکہ امیدوار کہیں بھی ہو ڈائون لوڈ کر کے پرنٹ نکالے اور پر کر کے کالج یا جامعہ کو بھیج دے۔ داخلہ فارم تعلیمی ادارہ کی ویب سائٹ پر جا کر آن لائن پر کرنے کی بھی سہولت ہونی چاہیے۔ اس کے علاوہ کوئی بھی یہ فارم چھاپ کر دستیاب کر سکے تاکہ طلبہ کو فارم لینے میں دقت نہ ہو۔ وہ دو تین روپے دے کر کہیں سے بھی خرید لیں۔ اس طرح کے فارم کچہریوں میں عام طور پر فروخت ہوتے ہیں۔ ٹیوشن پڑھانے والی اکیڈمیاں اپنے طلبہ کو فارم دے سکتی ہیں۔ (وہاں طلبہ داخلہ میں کامیابی ہی کے لیے تو ٹیوشن لیتے ہیں۔) طلبہ تنظیمیں بھی یہ فارم مفت تقسیم کر سکتی ہیں۔ حکومت کو ایک اور ہدائت دینی ہوگی کہ تمام کالجوں اور جامعات کے لیے داخلہ فارم ایک ہی ڈیزائن کا ہو۔ اس کا سائز اے-4 ہونا چاہیے تاکہ اسے فائل کور میں آسانی سے لگایا جا سکے اور لفافہ میں بھی بھیجا جا سکے۔ فارم میں طالب علم کے تمام کوائف درج کر نے کے لیے جگہ ہونی چاہیے۔ کوائف میں یہ شامل ہوں: طالب علم کا نام، شناختی کارڈ نمبر، (اگر ہو)، والد کا نام، والد کا پیشہ یا عہدہ، موجودہ رہائش کا پورا پتہ، رابطہ کے لیے فون نمبر، طالب علم کا ای میل پتہ، پیدائش کی تاریخ اور جگہ، نویں جماعت اور اس کے بعد جو بھی امتحان پاس کیے ہوں، ان کے مضامین، ہر مضمون میں حاصل کردہ نمبر، سکول یا کالج کا نام جہاں سے امتحان پاس کیا، اضافی قابلیت، جن کھیلوں میں نمایاں کامیابی حاصل کی ہو، ان کی تفصیل، اگر والد، والدہ، بھائی یا بہن نے ادارہ میں تعلیم حاصل کی ہو تو اس کا نام، سال، ڈگری یا پاس کردہ امتحان کی تفصیل، طالب علم کے ذاتی مشغلے وغیرہ۔ اگر کسی تعلیمی ادارہ کو مزید کوائف درکار ہوں تو وہ داخل ہونے والے طلبہ سے لے سکتا ہے۔ امیدواروں کو ہدائت کی جائے کہ وہ فارم کے ساتھ کوئی دستاویز یا کسی دستاویز کی کاپی نہ بھیجیں۔ جنہیں داخلہ مل جائے، انہیں تمام مطلوبہ دستاویزوں کی نقلیں جمع کرانے کے لیے کہا جائے۔ اگر نقلوں کی تصدیق کرانی ہو تو کسی اوتھ کمشنر یا نوٹری پبلک سے کرانے کے لیے کہا جائے۔ وہ نقل مطابق اصل ہونے کی تصدیق کے بعد اپنی مہر لگائے اور دستخط کر دے۔ حکومت نے انہیں دستاویزوں کی تصدیق کے لیے ہی لائسنس دیا ہوتا ہے۔ گزیٹڈ افسر سے تصدیق کرانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے۔ اکثر طلبہ کی کسی افسر سے جان پہچان نہیں ہوتی۔ چنانچہ انہیں پی اے کی مٹھی گرم کر کے کام کرانا پڑتا ہے۔ سندوں کی نقلوں کی تصدیق ادارہ کا عملہ خود کرے تو سب سے بہتر ہے۔ داخلہ کے لیے صرف ایک ہی قسم کا فارم مقرر کرنا اور دستاویزات کے بغیر فارم لینا کوئی نئی بات نہیں ہوگی۔ مرکزی حکومت کے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی تمام سرکاری دفتروں اور اداروں کو ہدائت ہے کہ ملازمت کے امیدواروں کو صرف ایک فارم پر کر کے بھیجنے کے لیے کہا جائے۔ اس کے ساتھ کوئی دستاویز لگانے کے لیے نہ کہا جائے۔ اس میں مصلحت یہ ہے کہ ملازمت کے امیدوار ہزاروں بلکہ بعض اوقات لاکھوں ہوتے ہیں جب کہ ملازمتیں عام طور پر سینکڑوں میں ہوتی ہیں۔ یوں ناکام امیدواروں کو دستاویزوں کی کاپیاں کرانے، ان کی تصدیق کرانے اور ارسال کرنے پر بھاری مالی بوجھ اٹھانا پڑتا ہے، جب کہ ناکام امیدواروں کے کاغذات ردی میں بیچ دیے جاتے ہیں۔ پھر امیدوار کو صرف ایک جگہ ہی نہیں، ملازمت ملنے تک بے شمار جگہوں پر درخواست دینی پڑتی ہے۔ صرف فارم بھیجنے سے بڑی سہولت ہو جاتی ہے۔ ایسی ہی پالیسی تعلیمی اداروں میں داخلہ کے لیے نافذ کر دی جائے تو طلبہ فارم اور پراسپیکٹس کا پیکیج خریدنے پر مجبور نہیں ہونگے۔ اونٹ پالنے والے کا پیکیج تو ہو سکتا تھا، تعلیم دینے والوں کا نہیں ہونا چاہیے۔