دو تجاویز

جنگ اور امن کے فیصلے حکومت ہی کیا کرتی ہے ۔ فوج تو صرف دشمن سے لڑتی ہے ۔ پچھلی حکومتوں کی نااہلی اور کوتاہ اندیشی کی بنا پر ایسے آپریشن کیے گئے جن کے اثرات تاحال ظاہر ہو رہے ہیں۔ سیاچن کا مسئلہ اپریل 1984 ء میں پیدا ہوا جب پتہ چلا کہ مقبوضہ کشمیر میں کسی مقامی فوجی کمانڈر نے سیاچن گلیشیئر کے کچھ حصہ پر قبضہ کر لیا ہے ۔ ویران برفانی زمین پر کس نے مزاحمت کرنی تھی۔ ہندوستانی کمانڈر صرف فتح کا جھنڈا لہرانا چاہتا تھا۔ شملہ معاہدہ (1972ء) میں کنٹرول لائن کی نشان دہی کی گئی۔ نقشہ پر چوٹی NJ9842 سے آگے مشرق اور شمال مشرق میں چینی سرحد تک لائن جنگ بندی لائن قرار دی گئی لیکن موقع پر نشان دہی نہ کی گئی۔ جب خبر شائع ہوئی تو ہمارے ہاں ہر طرف سے جوابی کارروائی کا مطالبہ ہونے لگا۔ فوجی حکمران عوامی رد عمل کا سامنا کرنے کے عادی نہیں ہوتے ؛ چنانچہ جنرل ضیاء الحق نے گھبرا کر سیاچن پر فوج بھیجنے کا حکم دے دیا۔ ساتھ ہی پیپلز پارٹی والوں کے بارے میں کہا کہ وہ ’’ایک بنجر اور پتھریلے گلیشیئر کے لیے مگرمچھ کے آنسو بہا رہے ہیں جہاں گھاس کا پتہ تک نہیں اگتا‘‘۔مطلب تھا کہ بے آب و گیاہ جگہ پر قبضہ ختم بھی کرا لیا تو عملی طور پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ دوسری طرف بھارتی فوج بھی مقبوضہ علاقہ خالی کرنے میں سبکی سمجھتی ہے، چاہے وہاں بیٹھے رہنے سے بھاری مالی اور جانی نقصان ہوتا رہے ۔ سیاچن میں 2003ء میں جنگ بندی تو ہو گئی لیکن فوجوں کی واپسی پر اتفاق نہ ہوسکا۔ بھارت نے مطالبہ کیا کہ نقشہ پر متنازعہ علاقہ کو اس کا مقبوضہ دکھایا جائے ۔ پاکستان کا کہنا تھا کہ جب کنٹرول لائن طے ہوئی تو علاقہ پر بھارت کا قبضہ نہ تھا۔ اب اس کی جارحیت کو کیسے تسلیم کیا جائے ؟ بتایا گیا ہے کہ اپریل 1984ء سے پچھلے سال اپریل تک آٹھ ہزار فوجی ہلاک ہوئے ۔ان میں پانچ ہزار بھارتی تھے ۔ جنگ بندی کے بعد سے دونوں طرف بیشتر اموات سردی سے ہوئیں۔ اندازہ ہے کہ ہمیں تقریباً 54بلین روپے سالانہ اور بھارت کو 30بلین روپے سالانہ خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ اپریل 2012ء میں ہمارے 150کے قریب جوان برف کے تودے تلے دب گئے تھے ۔ اس حادثہ نے صورت حال کی سنگینی کو اجاگر کر دیا۔ مسئلہ کا حل یہ ہے کہ ہماری پارلیمنٹ ایک قرارداد منظور کر کے حکومت سے کہے کہ سیاچن گلیشیئر سے اپنی فوج یک طرفہ طور پر واپس بلا لے ۔ بھارت ظاہر ہے اپنی فوج وہیں رکھے گا۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ مقبوضہ جموں و کشمیر بھی توناجائز طور پر اس کے قبضہ میں چلا آ رہا ہے ۔ اگر ہم وہاں ہندوستان کے سات لاکھ تک فوجی اور نیم فوجی برداشت کرتے چلے آ رہے ہیں تو محض پانچ ہزار کی سیاچن میں موجودگی بھی کر سکتے ہیں۔ جب پوری ریاست مذاکرات یا جنگ کے نتیجہ میں آزاد ہو جائے گی تو سیاچن بھی اس میں شامل ہوگا۔ اس وقت تک بھارتی فوج خوش ہوتی رہے کہ اس کا قبضہ ہے ۔ یہ قبضہ بھی زیادہ دیر تک نہیں رہے گا۔ جب صرف بھارتی فوج سیاچن پر رہے گی تو اس ملک کی اپوزیشن اور میڈیا شور مچائیں گے کہ ان کے فوجی بلامقصد کیوں مر رہے ہیں اور بلین ہا روپوں کا سالانہ نقصان کیوں کیا جا رہا ہے ۔بھارتی فوج کے پاس یہ جواز بھی نہ رہے گا کہ وہاں لڑائی ہو سکتی ہے ۔ اگر وہ گلیشیئر سے اتر کر آزاد کشمیر کے میدانی علاقہ میں آ جاتی ہے تو وہاں ہماری فوج اس کا ’’پرجوش استقبال‘‘ کرے گی۔ جب اندرونی سخت دبائو کی بنا پر بھارتی فوج بھی واپس چلی جائے گی تو مسئلہ خود بخود ختم ہو جائے گا۔ سیاچن ہی کی طرح عملیت پسندی سے کام لیتے ہوئے فاٹا کا مسئلہ بھی حل کیا جا سکتا ہے ۔ فاٹا کے لیے مقامی حکومتوں کا قانون دس سال سے تیار ہے ۔ مرکزی حکومت یہ قانون فاٹا میں نافذ کر کے انتخابات کرا دے ۔ ایجنسی ناظمین اور کونسلر اپنے اپنے علاقہ سے پوری طرح آگاہ ہوں گے ۔ وہ ملکی اورغیرملکی دہشت گردوں کی شناخت کر کے انھیں نکل جانے پر مجبور کر سکیں گے ۔ اگر کسی جگہ مزاحمت زیادہ ہو تو فوج سے مدد لی جا سکتی ہے ۔ مقامی حکومتوں کے قیام سے بحالی اور ترقی کے سارے کام بھی ہو سکیں گے ۔ جب فاٹا میں سیاسی جماعتوں کو کام کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے اور قومی اسمبلی کے لیے ان کے نمائندے براہ راست چنے جاتے ہیں تو وہاں مقامی حکومتیں کیوں قائم نہیں ہو سکتیں؟ ایک کام، جو بہت پہلے ہونا چاہیے تھا، اب بھی کیا جا سکتا ہے ۔ پارلیمنٹ قرارداد منظور کرے کہ ہم نیٹو، امریکہ اور افغانستان کی طالبان سے جنگ میں شریک نہیں، نہ تھے ۔ سرحد کی حفاظت ہم بالکل کریں گے لیکن وہاں اتنی ہی فوج رکھیں گے جتنی دوسری طرف ہوگی۔ اپنی طرف اتنی ہی سرحدی چوکیاں رکھی جائیں گی جتنی دوسری طرف ہوں گی۔ ویزا کے بغیر آنا جانا نہیں ہوگا۔ سرحد کی نگرانی کی جتنی ذمہ داری دوسری طرف کی ہے ، ہماری اس سے زیادہ نہیں۔ اس قرارداد کو نظرانداز نہیں کیا جا سکے گا۔ آخر امریکی حکومت بھی تو اپنی کانگرس کی قرارداوں کی پابند ہوتی ہے ۔ ہماری طرف سے افغان طالبان کی کسی بھی قسم کی مدد پر اعتراض ہو تو آئرلینڈ کی مثال دی جا سکتی ہے ۔ جب آئرش ریپبلیکن آرمی شمالی آئرلینڈ میں جدوجہد کر رہی تھی، آئرلینڈ کی حکومت نے اسے کوئی مدد نہ دی۔ لیکن آئرلینڈ کے عوام اس کی ہر طرح سے مدد کرتے رہے کیونکہ وہ ان کے ہم مذہب تھے ۔ اگر ہماری طرف کے پٹھان افغانستان کے طالبان کی مدد کرتے ہیں تو اس پر کیسے اعتراض ہو سکتا ہے ؟ اگر پھر بھی افغانستان کی جنگ میں پہلے کی طرح تعاون پر اصرار کیا جائے تو جواب دیا جائے کہ پہلے افغانستان ڈیورنڈ لائن کو تسلیم کرے ۔ جب انگریزوں کے دور میں یہ سرحد تسلیم کی جاتی رہی تو قیام پاکستان کے ساتھ ہی کیوں نامنظور ہو گئی؟ اگر وہ تسلیم نہیں کرتا تو ہم کس سرحد کے پار کارروائی کے لیے تعاون کریں؟ (ادارہ کا کالم نگار کی آرا سے متفق ہونا ضروری نہیں)

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں