ہجرت ایک کیفیت ہوتی ہے ۔ آپ دلی سے ریل گاڑی میں بیٹھے تو ہجرت شروع ہو گئی اور کراچی کینٹ سٹیشن پر اترے تو ختم ہو گئی۔ اس کے بعد جیسا برا بھلا ٹھکانہ ملا وہاں رہنا پڑا اور جو چھوٹا موٹا روزگار ملا، اسی پر گزارہ کرنا پڑا۔ جہاں سے آئے وہ آپ کا ماضی تھا اور جہاں رہ رہے ہیں، وہ آپ کا حال ہے ۔ آپ کی زندگی حال ہی میں گزرے گی، ماضی میں نہیں۔ گھوڑوں اور جوانوں کی طرح مسلمانوں کا بھی کوئی مستقل دیس نہیں ہوتا۔ وہ جہاں بس جائیں، وہی ان کا دیس ہے ۔ اسلام سیاسی سرحدوں کو نہیں مانتا۔ بقول اقبال، ’’مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا‘‘۔پاکستان سے انگلستان جا کر بسنے والے پاکستانی نژاد تو ہو سکتے ہیں لیکن پاکستانی نہیں۔ دینی لحاظ سے البتہ وہ ہمارے بھائی ہیں۔ مسلمان جہاں بھی گئے ، فاتحین کی حیثیت سے ، تاجروں کے طور پر یا ہجرت کر کے ، انھوں نے جلد از جلد مقامی زبان سیکھی۔ میل جول سے ان کی زبان کے بہت سے الفاظ مقامی زبان میں داخل ہو گئے اور بعض عبارتیں عربی رسم الخط میں لکھی جانے لگیں۔ تاہم کہیں بھی مقامی زبان کی جگہ عربی نافذ نہ کی گئی۔ انھوں نے اپنے دین کو تو قائم رکھا لیکن دنیاوی لین دین اور تعلقات میں مقامی آبادی میں گھل مل جاتے ۔ مقامی لوگوں سے شادیاں کرتے ۔ یہاں تک کہ اگلی نسل بالکل مقامی ہو جاتی۔ جو پٹھان یو پی میں آباد ہوئے ان کی موجودہ نسل پشتو کا ایک جملہ بھی نہیں بول سکتی اور نہ افغانستان میں ان کی رشتہ داریاں ہیں۔ سندھ میں آ کر آباد ہونے والوں میں سے اکثر نے دونوں کام نہیں کیے ۔ سندھی سیکھنا اور بولنا ناپسند کیا جاتا تھا۔ شادی کے لیے اپنوں میں رشتہ نہ ملتا تو ہندوستان میں رہ جانے والے رشتہ داروں میں تلاش کرتے ۔ جب جنگوں کے نتیجہ میں آنا جانا مشکل ہو گیا تب یہ تلاش کم ہوئی۔ بہت سے مہاجر یو پی اور دلی سے پنجاب میں بھی آ کر آباد ہوئے ۔ چونکہ کسی نے ان کے نام پر سیاست نہ چمکائی، اس لیے نئی نسل نے پنجابی سیکھ لی اور مقامی خاندانوں میں شادیاں کر لیں۔ یوں ان کی شناخت مقامی ہو گئی۔ پنجاب میں ویسے بھی لسانی یا نسلی تعصب نہ ہونے کے برابر ہے۔ کراچی میں بھی یہ صورت حال نہ ہوتی، اگر مہاجر کے نام پر سیاست نہ کی جاتی۔ الطاف حسین نے 1978 ء میں مہاجر سٹوڈنٹ آرگنائیزیشن اور 1984 ء میں مہاجر قومی موومنٹ کی بنیاد رکھی۔ اس سے پہلے کسی نے مہاجروں کی الگ شناخت پر زور نہ دیا تھا۔ پھر مہاجر کے مقابلہ میں پٹھان، بلوچ، وغیرہ کے نام پر بھی سیاست ہونے لگی اور مل جل کر رہنے کی روایت مدھم پڑ گئی۔ سندھ کا صوبہ کسی نسل یا زبان کی بنا پر نہ بنا۔ دریا کے دونوں طرف بسنے والے سندھی کہلائے ۔ اردگرد کے علاقوں سے بھی لوگ آ کر آباد ہوتے گئے ۔ یہاں سید بھی ہیں، بلوچ بھی ہیں اور پٹھان بھی۔ کسی نے اپنی پچھلی شناخت پر زور نہ دیا اور سب مقامی آبادی میں گھل مل گئے ۔ کیا جی۔ ایم۔ سید یا آصف علی زرداری کو غیرسندھی کہا جا سکتا ہے ؟ اردو بولنا بھی شناخت نہیں بن سکتی کیونکہ یہ تو نہ صرف سارے ملک میں بلکہ بہت سے دوسرے ملکوں میں بھی بولی جاتی ہے ۔ اسی بنا پر اب یہ دنیا کی دوسری بڑی زبان ہے ۔ مہاجر بننے اور بنے رہنے میں بڑا فرق ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آزادی کے بعد ہندوستان سے ہجرت کر کے آنے والوں نے جان ومال کی بڑی قربانیاں دیں لیکن جس سرزمین کے لیے انھوں نے گھربار چھوڑا وہاں پہنچنے کے بعد بھی خود کو مہاجر کہنا اور کئی نسلوں تک کہتے رہنا بلاجواز تھا۔ چلیں پہلی نسل تو پچھلی یادیں اور باتیں کسی حد تک نہ بُھلا پائی لیکن دوسری اور تیسری نسل تو یہیں پیدا ہوئی اور پلی بڑھی۔ وہ مہاجر کیسے ہوئی؟ پچھلے دنوں کسی سندھی سیاست کار نے علیحدہ صوبہ کے بارے میں ٹیلی ویژن پر کہا،’’مہاجروں کے لیے صوبہ نہیں کیمپ ہوتا ہے ‘‘۔ مسئلہ کا حل یہ ہے کہ الطاف حسین ہمت کر کے کوئی بڑا قدم اٹھائیں۔ کسی نئی پارٹی میں شمولیت بہترین رستہ ہوگا۔ کسی ایسی پارٹی میں جس کا وجود اس وقت نہ ہونے کے برابر ہے۔ فوری طور پر کھلے دل سے رکن سازی کریں، ہر ضلع میں اپنے انتخابات کرائیں اور پارٹی کو ملک کی ایک بڑی پارٹی بنا دیں۔ اگر پرویز مشرف اعتراض کریں کہ یہ پارٹی انہوں نے بنائی تھی تو جواب دیں کہ جب ارکان عہدہ داروں کا انتخاب کریں گے تو وہ بھی امیدوار بن جائیں۔ متحدہ قومی موومنٹ کے سابق ارکان نئی پارٹی کو مستحکم کرنے کے لیے سیاست میں لسانی، نسلی، قبائلی، صوبائی، علاقائی، فرقہ وارانہ اور دوسرے تعصبات کو ختم کرانے کے لیے مہم شروع کریں۔ حکومت سے کہیں کہ ان تعصبات پر مبنی جماعتوں پر قانونی طور پر پابندی لگا دے اور الیکشن کمشن ایسی متعصب جماعتوں کی رجسٹریشن منسوخ کر دے ۔ صحیح رکن سازی اور شفاف الیکشن باقاعدگی سے کرانے سے امیج بہت بہتر ہوتا جائے گا۔ ’’مہاجر‘‘کی اصطلاح ختم ہبو جانی چاہیے ۔ نئے اور پرانے سندھی کی بھی تخصیص نہیں ہونی چاہیے ۔ ایک وقت ایسا بھی آ سکتا ہے جب صوبے ہی ختم ہو جائیں اور سندھی کی بجائے سب پاکستانی کہلائیں۔ اس وقت بھی پنجاب کے رہنے والے اپنی شناخت پاکستانی کے طور پر کراتے ہیں اور اردو بولنے کو پنجابی پر ترجیح دیتے ہیں۔ ذرا گہرائی میں جائیں تو دراصل ہماری شناخت یہ ہے کہ ہم مسلمان ہیں جو پاکستان میں رہتے ہیں۔ اس پر اصرار کریں تو سب اختلافات ختم ہو جائین گے ۔ نہ مہاجر رہے گا اور نہ سندھی۔