پولیس سے امن و امان کی ذمہ داری لے کر اسے صرف جرائم کی تفتیش تک محدود کر دیا جائے (جیسا کہ پچھلے کالم میں تجویز کیا گیا)۔ گشت، پہرہ، پروٹوکول ڈیوٹی اور دوسرے کاموں کے لیے’’امانیہ‘‘(امان دینے والی) کے نام سے ایک نئی ملک گیر تنظیم بنائی جائے ، جو مرکزی حکومت کے تحت کام کرے ۔ امانیہ’’واچ اینڈ وارڈ‘‘کے وسیع تر مفہوم میں فرائض ادا کرے ، بشمول اہم مقامات اور عمارتوں کی حفاظت، اہم شخصیات کی رہائش گاہوں پر پہرہ اور ان کے ساتھ حفاظتی حصار بنا کر چلنا، جلسوں، جلوسوں، مظاہروں، وغیرہ، میں توڑ پھوڑ یا بد امنی روکنا۔ یہی تنظیم ریلوے ، ہوائی اڈوں، بندرگاہوں اور اہم سڑکوں کی بھی حفاظت کرے ۔ امانیہ میں باہر سے کوئی عارضی یا مستقل طور پر نہ آئے اور نہ کوئی باہر جائے ۔ اس طرح ابتدائی تربیت کے بعد کسی کو کچھ سکھانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ کام میں تسلسل بھی رہے گا۔ ریفریشر کورسوں سے نئے طریقے سکھائے جائیں۔ اگر ضرورت ہو تو باہر سے ماہر بلائے جائیں گے ، جو جدید تقاضوں کے مطابق تربیت دیں۔ تربیت کے لیے باہر بھیجنے کی نسبت باہر سے ماہرین کو بلانے پر بہت کم خرچ ہوگا کیوںکہ اس طرح ایک فرد بہت سے ملازموں کو تربیت دے گا۔ امانیہ کی بھرتی دو سطحوں پر ہو۔ ابتدائی سطح پر نوجوان بھرتی ہوں۔ ان میں ایسی صلاحیتیں ہوں، جو فیلڈ میں ڈیوٹی دینے کے لیے ضروری ہوتی ہیں۔ ان کے ساتھ فوج سے سبکدوش ہونے والے جوان بھرتی کیے جائیں۔ فوج کے جوان 30سے 40سال کی عمر کے درمیان سبک دوش ہو جاتے ہیں۔ اس کے بعد انہیں عام طور سکیورٹی ایجنسیوں میں ملازمت ملتی ہے ، جس میں ڈیوٹی بڑی سخت اور تنخواہ بہت کم ہوتی ہے ۔ دوسرے اداروں میں بھی بہت معمولی قسم کی ملازمت ملتی ہے ۔ یہ جوان ملک کے دفاع کے لیے جان فشانی سے کام کرتے ہیں، جس میں جان تک کی قربانی دی جاتی ہے ۔ اگر انہیں امانیہ میں شامل کر لیا جائے تو وہ 60 سال تک ملک کی خدمت کر سکتے ہیں۔ انہیں فوج سے سبک دوشی کے بعد خوار نہیں ہونا پڑے گا۔ انہیں ڈسپلن میں رہ کر کام کرنے کی عادت ہوتی ہے ، جس کی بنا پر ان کی کارکردگی بہت اچھی ہوگی۔ مزید تربیت سے وہ بہت بہتر کام کریں گے ۔ فوج کے سبکدوش جوانوں کو بھرتی کرنے سے امانیہ فوجی تنظیم نہیں بن جائے گی کیونکہ اس کی انتظامیہ پوری طرح سویلین ہوگی۔ امانیہ کا صدر دفتر اسلام آباد میں ہو۔ اس سے نیچے تمام امور ضلع کی سطح پر نپٹائے جائیں گے ۔ وہیں سے ضلعی انتظامیہ کی ضرورت کے مطابق ڈیوٹی لگائی جائے ۔ (صوبہ کی سطح پر تنظیم کی ضرورت نہیں ہوگی کیونکہ سارا کام ضلع کی سطح پر ہوگا۔) تمام جوان مسلح ہوں اور اسلحہ کا استعمال اچھی طرح جانتے ہوں تاکہ توڑپھوڑ کرنے والوں کو طاقت سے روک سکیں۔ ان دنوں پولیس کے پاس ناکافی اور ناکارہ اسلحہ اور آلات ہیں اور ان کے استعمال کی تربیت بھی نہ ہونے کے برابر ہے ۔ امانیہ کے جوانوں کے پاس دوسرے آلات بھی ہوںگے ۔ ٹرانسپورٹ بھی ہوگی تاکہ جہاں گڑبڑ ہو وہاں فوری طور پر پہنچ جائیں۔ امانیہ کا کوئی افسر باہر سے نہیں آئے گا، چاہے فوج سے یا پولیس سے ، چاہے حاضر سروس ہو یا سبک دوش۔ اس طرح بیرونی مداخلت نہیں ہوگی اور نہ گروپ بندی اور اندرونی چپقلش کا امکان رہے گا۔ امانیہ کے افسر پبلک سروس کمشن کے ذریعہ بھرتی ہوں گے ۔ اس کے بعد ان کی ترقی صرف کارکردگی کی بنا پر ہوگی۔ صرف ترقی کے لیے اسامیاں پیدا نہیں کی جائیں گی۔ اس طرح نہ غیرضروری سکیل ہوں گے اور نہ اسامیاں۔ ہر ایک کا ذاتی سکیل ہو، جس کے تحت تنخواہ میں اضافہ ہر سال خود بخود ہوتا رہے اور 55سال کی عمر تک جاری رہے ۔ اس کے بعد سبک دوشی تک اضافہ نہ ہو۔ ماتحت عملہ کے لیے بھی یہی صورت ہوگی۔ سبک دوشی کی عمر مقرر نہیں ہوگی۔ ذہنی اور جسمانی طور پر تندرست اہل کار کام کرتا رہے گا۔ ماتحت بھی صرف میرٹ پر بھرتی ہوں۔ سفارش کرنے والا سیاسی یا کسی اور قسم کا دبائو نہ ڈال سکے گا۔ اس لیے جو تندہی سے کام نہ کرے ، فارغ کر دیا جائے ۔ امانیہ اپنے طور پر کارروائی نہیں کرے گی۔ اگر کسی دفتر یا عمارت یا کسی رہائش گاہ پر حفاظت یا پہرہ کی ضرورت ہوگی تو اس کا سربراہ تحریری طور پر ضروری عملہ طلب کرے گا۔ پہرہ کے لیے عملہ کی تعداد مرکزی حکومت کی طے کردہ پالیسی کے مطابق مقرر کی جائے گی۔ یہ نہ ہو کہ کسی کی حفاظت کے لیے 10افراد ہوں اور کسی کے لیے 20۔ ضلعی انتظامیہ نے کسی جلسہ، جلوس یا مظاہرہ کی اجازت دی ہو یا نہ، وہ امانیہ کے ضلع افسر کو تحریری طور پر حفاظت کے لیے کہے۔ کسی ذاتی معاملہ کے لیے نہ کہا جائے ، جیسے کسی فرد کے زمین یا مکان کا قبضہ لینا (سوائے اس کے کہ عدالت کا حکم ہو)، مخالفوں کو ڈرانا دھمکانا یا کوئی اور ذاتی مسئلہ۔ امانیہ کی کارروائی جلوس یا مظاہرہ میں توڑ پھوڑ یا نقص امن روکنے تک محدود ہوگی۔ جن کے خلاف اسے کارروائی کا اختیار ہوگا، انہیں گرفتار کر کے بھاری جرمانہ وصول کیا جائے گا اور آئندہ کے لیے تحریری معافی نامہ بھی لیا جائے گا تاکہ اگر پھر وہی حرکت کرے تو زیادہ سخت سزا دی جا سکے ۔ تعزیرات پاکستان کے تحت کوئی جرم سرزد ہو تو ملزموں کو گرفتار کر کے پولیس کے حوالہ کر دیا جائے ۔ گرفتار کرنے والا اپنا مفصل بیان ریکارڈ کرائے اور عدالت میں گواہی بھی دے ۔ امانیہ کا سربراہ اندرونی ترقی سے ہی بنے ۔ اس کا عہدہ آئینی ہو۔ اسے ہٹانے کے لیے سپریم جوڈیشنل کونسل کو ریفرنس بھیجا جائے ، جیسے نیب کے سربراہ کے لیے ضروری ہے ۔ اس طرح سربراہ کے کام میں حکمرانوں اور سیاست کاروں کے لیے مداخلت کرنا یا دبائو ڈالنا آسان نہیں رہے گا۔ امانیہ کے قیام سے پولیس صرف جرائم کی تفتیش اور ان کے مقدمات کے استغاثہ تک محدود ہونے سے جرائم پر کنٹرول کہیں زیادہ موثر ہوگا۔ (ختم)