آئین کی دفعہ 227(1)میں کہا گیا ہے، ’’تمام موجودہ قوانین کو قرآنِ مجید اور سنت میں منضبط اسلامی احکام کے مطابق بنایا جائے گا، … اور ایسا کوئی قانون وضع نہیں کیا جائے گا، جو مذکورہ احکام کے خلاف ہو‘‘۔ اس سلسلہ میں سفارشات دینے کے لیے 1973 ء میں آئین کے تحت اسلامی نظریاتی کونسل بنائی گئی۔ اس سے پہلے اسی مقصد کے لیے 1962ء میں اس وقت نافذ آئین کے تحت اسلامی مشاورتی کونسل بنائی گئی تھی۔ نظریاتی کونسل اب تک بیشتر قوانین کے بارے میں اپنی سفارشات حکومت کو بھیج چکی ہے ۔ (تفصیل کے لیے کونسل کی ویب سائیٹ دیکھیں (http://www.cii.gov.pk/) حکومت نے ابھی تک یہ سفارشات پارلیمنٹ میں پیش ہی نہیں کیں، ان کے مطابق قانون سازی تو بعد کی بات ہے ۔ اگر پیش کر دے تو بھی پتہ نہیں مزید کتنی دیر لگے ۔ قوانین کو اسلامی احکام کے مطابق بنانے میں 50سے زیادہ سالوں کی تاخیر کیوں ہوئی؟ ہمارے حکمرانوں کو یا تو اس میں دلچسپی نہ تھی یا وہ ذہنی غلامی کے تحت گوروں کی تنقید سے ڈرتے ہیں۔ چنانچہ اسلام کے نام پر قائم ملک میں اسلامی احکام کا نفاذ نہیں ہو پا رہا۔ مسئلہ کا حل کیا ہے ؟ جب سیدھی انگلی سے گھی نہ نکلے تو ٹیڑھی کرنی پڑتی ہے ۔ ایسا ہی کچھ اس سلسلہ میں کرنا ہوگا۔ مروّجہ طریقِ کار تو یہ ہے کہ حکومت کونسل کی رپورٹیں پارلیمنٹ میں پیش کرنے کے بعد شائع کرے ۔ پارلیمنٹ انھیں متعلقہ کمیٹی کو بھیج دے ۔ کمیٹی کی سفارشات ایوان میں پیش کی جائیں اور پھر ان کے مطابق قانون سازی کی جائے ۔ کونسل طریقہ کار سے تھوڑا سا انحراف کر کے تمام سفارشات اپنی ویب سائیٹ پر شائع کر دے ۔ اس کا جواز یہ پیش کیا جائے کہ اس طرح دین اور قانون کے ماہرین کی رائے لی جائے گی تاکہ جہاں ضروری ہو جائے کونسل اپنی سفارشات میں تصحیح و تنسیخ کر سکے ۔ اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔ کونسل اپنی سفارشات ویب سائیٹ پر تین حصوں میں دے ۔ پہلے حصہ میں ان قوانین کی فہرست ہو، جو کونسل کے مطابق اسلامی احکام کے خلاف ہیں اور انھیں کالعدم قرار دیا جانا چاہیے۔ دوسرے حصہ میں وہ قوانین ہوں، جن میں ترامیم ہونی چاہئیں۔ تیسرے حصہ میں وہ قوانین ہوں، جن کے بارے میں کونسل کی سفارشات ابھی تک مرتب نہیں ہوئیں۔ آئین کی دفعہ 203-Dکے تحت وفاقی شرعی عدالت کو اختیار ہے کہ وہ خود، وفاقی یا صوبائی حکومت یا کسی شہری کی درخواست پر فیصلہ کر دے کہ کوئی قانون یااس کا کوئی جزو اسلامی احکام کے خلاف ہے ۔ وہ اپنے فیصلے کے سلسلہ میں اپنے دلائل دے گی اور طے کرے گی کہ کس تاریخ کے بعد اس کا فیصلہ نافذ ہوگا۔ تاریخ کے تعین میں دیکھا جائے گا کہ اس سے پہلے سپریم کورٹ میں اپیل کرنے کی مدت گزر جائے یا دائر کردہ اپیل کا فیصلہ ہو جائے ۔ جب فیصلہ نافذ ہو جائے تو حکومت (وفاقی یا صوبائی) اس پر عمل کرے گی۔ وفاقی شرعی عدالت سے رجوع اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر عمل کرانے کا موثر طریقہ ہے ۔ چنانچہ کوئی شہری، جسے ان قوانین میں سے کسی کے تحت نقصان ہو رہا ہو، وفاقی شرعی عدالت سے رجوع کرے اور درخواست کرے کہ اسلامی احکام کے خلاف ہونے کی بنا پر اس قانون کو کالعدم قرار دے دیا جائے ۔ اگر عدالت اتفاق کرے تو فیصلہ دے دے کہ حکومت مناسب مدت (مثلاً 90دن) میں اسے ختم کرے ۔ اگر نہ کرے تو قانون خود بخود کالعدم ہو جائے ۔ اسی طرح جس شہری کو کسی موجودہ قانون میں کونسل کی سفارش کے مطابق ترمیم ہونے سے فائدہ ہو سکتا ہو، وہ بھی وفاقی شرعی عدالت سے درخواست کرے کہ حکومت سے کہے کہ مناسب مدت میں ترمیم کر دے ۔ اگر نہ کی جائے تو مجوزہ ترمیم خود بخود نافذ ہو جائے۔ اگر شرعی عدالت کسی مجوزہ ترمیم سے اتفاق نہ کرے تو وہ اسلامی نظریاتی کونسل کو حکم دے سکتی ہے کہ وہ اس کی بیان کردہ وجوہ کے پیش نظر اپنی سفارش پر نظرثانی کرے ۔ اس سلسلہ میں عدالت دین اور قانون کے ماہرین کی رائے بھی لے سکتی ہے ۔ جب وفاقی شرعی عدالت کے کچھ فیصلے سامنے آئیں گے تو لوگ خود یا اپنے وکیلوں کے مشورہ پر کونسل کی سفارشات پر عمل کرانے کے لیے عدالت سے رجوع کرنے لگیں گے۔ میڈیا بھی جاگ جائے گا اور عدالت میں دی جانے والی درخواستوں اور ان پر فیصلوں کو اُجاگر کرنے لگے گا۔ بات پارلیمنٹ تک پہنچے گی، جہاں اپوزیشن حُبِ علی نہ سہی، بُغضِ معاویہ کے تحت ہی مطالبہ کرے گی کہ حکومت نظریاتی کونسل کی تمام سفارشات ایوان میں پیش کرے اور ان پر قانون سازی کرے ۔ عوام کی نظروں میں سرخرو ہونے کے لیے اپوزیشن کی ہر پارٹی آواز بلند کرے گی۔ خود اکثریتی پارٹی کے بیشتر ارکان بھی قانون سازی کی حمائت کریں گے ۔ کچھ آوازیں مخالفت میں بھی اٹھیں گی، خاص طور پر میڈیا میں۔ بیرونی امداد سے چلنے والی غیر سرکاری تنظیمیں (این جی اوز) شور مچائیں گی۔ (آخر دوسرے ملکوں کا نمک جو کھاتے ہیں، انھوں نے حلال بھی تو کرنا ہوگا۔) تاہم اکثریت کی آواز حاوی ہوگی، خاص طور پر سیاست کاروں کی، جنھوں نے بعد میں عوام سے ووٹ مانگنے ہیں۔ موجودہ قوانین کے اسلامی احکام کے مطابق بنائے جانے کے بعد مطالبہ آئے گا کہ آئندہ جو قوانین بنائے جائیں، ان کے بارے میں پہلے اسلامی نظریاتی کونسل کی رائے لی جائے اور وفاقی شرعی عدالت سے بھی استفسار کیا جائے ۔ پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے قواعد میں پہلے سے طے ہے کہ مسودہ قانون کو رائے عامہ جاننے کے لیے مشتہر کیا جا سکتا ہے۔ گو اب حکمران اتنے پوشیدہ طریقہ سے کام کرتے ہیں کہ اپوزیشن کو بعض اوقات مسودہ قانون کی نقل ہی نہیں دی جاتی، یہاں تک کہ آئین میں ترمیم بھی نہایت خفیہ طریقہ سے کر لی جاتی ہے ، جیسے 18ویں ترمیم کے ساتھ ہوا۔ ہم نے ملک اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کرنے کے لیے بنایا تھا۔ دیر سے ہی سہی، تمام قوانین کو اسلامی احکام کے مطابق بنا لیا جائے گا تو ہم دوسرے مسلمانوں کے لیے روشن مثال قائم کریں گے ۔