چین آمد کے کچھ ہی عرصے بعد جب اپنی پہلی لینگویج کلاس لینے کے لئے صبح سویرے اٹھنے کی کوشش کی تو لحاف بہت بڑی نعمت محسوس ہوئی۔ کلاس شروع ہونے کا وقت صبح ساڑھے آٹھ بجے تھا۔ جس کا مطلب سوا سات بجے والی میٹروٹرین میں سوار ہونا تھاورنہ شنگھائی جیسے شہر میں صبح کے مصروف اوقات (Rush Hours) میںوقت پر کلاس میں پہنچنا چینی زبان سیکھنے جتنا ہی مشکل کام تھا۔ بہرحال شدید سردی کے باوجود ایک ہاکر کی سی پھرتی کے ساتھ جیسے تیسے کافی کا آدھا کپ پی کر اسٹیشن کی طرف دوڑ لگائی۔ راستے میں کئی دفعہ سردی سے ٹھٹھرتے ہوئے سوچا کہ آخر چینی سیکھے بغیر بھی تو کام چلایا جاسکتا ہے لیکن پھر گزرا ہوا ایک ماہ نظروں کے سامنے گھوم گیا جس کا بیشتر وقت میں نے اشاروں کی زبان یا مترجم کی مدد سے بمشکل گزارا تھا۔ہر اہم پتہ چینی زبان میں لکھوا کر رکھا ہوا تھا جو ٹیکسی ڈرائیور کو تھما کرلا تعلقی سے دائیں بائیں دیکھتا کہ کہیں وہ کچھ پوچھ نہ بیٹھے کیونکہ اس صورت میں صرف گردن ہلائی اور کندھے اچکائے جا سکتے تھے ۔ یونیورسٹی کے لینگویج سکول کی لابی میں پہنچا تو رنگا رنگ ہجوم موجود تھا۔ جس میں مختلف ممالک کے طلبا کلاس رومز کی فہرست میں اپنے نام تلاش کر رہے تھے۔ اس مجمعے میں اپنی کلاس کا نمبر تلاش کرتے ہوئے ناموں کی فہرست سے اندازہ ہوا کہ ساری دنیا چینی زبان سیکھنے کے لئے پہنچی ہوئی ہے۔آخر کیوں نہ ہو کہ اب چینیوں سے بات کرنا اور رابطہ بڑھانا سب کی ضرورت ہے۔ دنیا کی سمجھ دار قوموں اور کامیاب کاروباری افراد کو اس بات کا ادراک ہے؛ چنانچہ وہ چینی زبان بہت ذوق وشوق سے سیکھ رہے ہیں۔ فیس بک کے بانی مارک زکربرگ نے اپنے حالیہ دورئہ چین میں طلباء سے چینی زبان میں خطاب کر کے سب کو حیران کر دیاتھا۔
چینی زبان کی ابتدائی کلاسوں نے مجھے اپنے بچپن کے زمانے کے قاری صاحب کی یاد دلا دی ۔ جس طرح وہ عربی کا صحیح تلفظ سکھانے کے لئے ہم سب کو باآواز بلند مشق کرواتے تھے کچھ ایسا ہی معاملہ اس کلاس کا تھا جس میں مجھ سمیت کم وبیش چھ سات ملکوں کے طلباء چینی زبان کے چار بنیادی مخارج (Tones)یا تلفظ کی ادائیگی کی مشق ہم آواز ہو کر کرتے تھے۔ ہر کلاس کے آغاز میں یہ مشق کرتے ہوئے بعض اوقات ہمارے چہروں پر بے چارگی والی مسکراہٹ آجاتی کہ آخر کب ہماری ٹیچر کو یہ تسلی ہو گی کہ اب ہمارے لب و لہجے کے اتار چڑھائو میں کچھ چینی پن آگیا ہے ۔ بہرحال ابتدائی دو ہفتے گزرنے کے بعد ان مشقوں کی تعداد میں کچھ کمی آئی اور جیسے جیسے ہم آگے بڑھے ان کی افادیت کا اندازہ ہوا۔ بس یہ سمجھ لیں کہ درست چینی زبان بولنے کا دارو مدار تلفظ کی صحیح ادائیگی پر ہے ورنہ ایک ہی لفظ کا مطلب کچھ سے کچھ نکل سکتا ہے۔ بعض اوقات معاملہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کہا گیا اخبار اور سنا گیا بستہ کیونکہ دونوں کو ہی چینی زبان میں بائو کہا جاتا ہے بس تلفظ یا ٹون کا فرق ہے۔ چینی زبان‘ الفاظ کے اتار چڑھائو کا نام ہے اس لئے بعض الفاظ زور دئیے بغیر ادا ہی نہیں ہو سکتے۔چین جیسے وسیع و عریض ملک کے مختلف علا قوں میں چینی زبان کے مختلف لب و لہجے اور انداز پائے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں گھریلو کام کاج کرنے والی آیا کا‘ جسے یہاں آئی (Ayi)کہہ کر پکارا جاتا ہے‘ لب و لہجہ اور بعض الفاظ اتنے مختلف ہوتے ہیں کہ انہیں سمجھنے میں بہت دقت ہوتی ہے ۔ سادہ چینی زبان (سادہ لکھتے ہوئے عجیب سا محسوس ہوتا ہے) جوہر جگہ سمجھی اور سیکھی جاتی ہے وہ یہاں کی معیاری (سٹینڈرڈ) اور سرکاری زبان مینڈرن (Mandrin) ہے جسے آپ بیجنگ کے لوگوں کی زبان بھی کہہ سکتے ہیں۔ بظاہر معصوم اور سادہ سی مینڈرن بھی جلیبی کی طرح سیدھی اور الجھے ہوئے دھاگے کی طرح ہے۔ یہ جاننابھی دلچسپی سے خالی نہیں ہو گا کہ چینی زبان میں انگریزی یا اردو کی طرح حروف تہجی (الف ب ت) نہیں پائے جاتے ۔ چینی رسم الخط یا لکھائی کی موجودہ شکل ان تصاویر اور کرداروں سے تشکیل پائی ہے جو ہزاروں سال سے استعمال ہو رہے ہیں۔ چینی تحریر کے اس نظام کو کرداروں پر مشتمل (Character system) یا لوگو گرافک (Logographic) کہا جاتا ہے۔ سادہ الفاظ میں سمجھا جائے تو ہر چینی لفظ بنیادی طور پر ایک کردار یا چیز کی تصویری شکل ہے۔وقت گزرنے کے ساتھ رسم الخط کو آسان اور سادہ بنا دیا گیا ہے۔ بہت سے الفاظ اب اس شکل و صورت میں نہیں رہے جو وہ ابتدا میں تھے۔ چینی زبان سکھانے کے لئے رومن اردو کی طرح کا نظام بنایا گیا ہے جس کی مددسے آپ چینی انگریزی الفاظ کے ذریعے پڑھ سکتے ہیں۔ اس طریقے کو پھن ین(Pinyin)کہا جاتا ہے ۔ اس طریقے سے بھی پڑھنا کافی محنت طلب کام ہے کیونکہ ضروری نہیں کہ ہر انگریزی لفظ کو چینی میں اسی طرح ادا کیا جائے جس طرح وہ انگریزی میں ادا ہو گا جیسے (P) کو پھ پڑھاجاتا ہے۔
یہاں آمد کے بعد ابتدائی مہینوں میں میرا زیادہ وقت اسی زور آزمائی میں گزرا کہ اپنی بات کیسے سمجھائی جائے اس دوران اشاروں کے استعمال سے بھی بعض اوقات کافی مزاحیہ صورت حال پیدا ہو جاتی۔ ایک سپر مار کیٹ میں کیش کائونٹر پر بل ادا کرنے کے بعدمیں نے سامان رکھنے کے لئے وہاں موجودشاپنگ بیگز اٹھائے توسیلز گرل نے زور زور سے ہاتھ ہلا کر کر بولنا شروع کر دیا۔ میں یہ سمجھا کہ وہ خود یہ سامان رکھنا چاہتی ہے اس کی مدد کے پر زور انداز سے متاثر ہو کر میں نے سارے بیگ جلدی سے اُسے تھما دئیے جس پر اس کی آواز اور بلند ہو گئی اب میں ذرا نروس ہو گیا کہ یہ ماجرا کیا ہے۔ اس سے پہلے کہ بات آگے بڑھتی‘ پیچھے قطار میں موجود ایک صاحب نے انگریزی میں بتایا کہ ان بیگز کی علیحدہ قیمت ہوتی ہے جو تم اسے ادا کر دو۔اسی طرح خریداری کے دوران ایک دکاندار سے جب میں نے اپنی تازہ سیکھی چینی کا استعمال کرتے ہوئے کچھ دیر گفتگو فرما لی تودکاندار نے مسکراتے ہوئے مجھ سے صاف انگریزی میں دریافت کیا کہ آخر میں کہنا کیا چاہتا ہوں۔ یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ شنگھائی جیسے میٹرو پولیٹن شہر میں انگریزی بولنے اور سمجھنے والے چینی کافی تعداد میں ہیں لیکن وہ اس کا استعمال بہت شوق سے نہیں کرتے اور بول چال میں اپنی زبان کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔ میرے بیٹے کے کنڈر گارٹن میں جب اس کی چینی کی کلاس ٹیچر اپنے مخصوص لہجے میں اٹک اٹک کر انگریزی میں ہمیں بات سمجھاتی اور اکثر صحیح انگریزی لفظ نہ ملنے پر زور سے ماتھے پر ہاتھ مار لیتی تو ہمیں بڑا لطف آتا ۔ بہر حال اب جب سے میں نے چینی زبان سے زور آزمائی شروع کی ہے تو سکول والوں نے بھی سکون کا سانس لیا ہے۔ جہاں تک میرے چار سالہ بیٹے کا تعلق ہے تو وہ اگرچہ اردو بولتا ہے‘ لیکن سمجھتا چینی ہی ہے‘ اسی لئے اسے کبھی کبھار ہلکی پھلکی ڈانٹ پلانے کے لئے چینی کا ہی سہارا لینا پڑتا ہے۔نی ہائو (Ni Hao)وہ واحد لفظ تھا جو چین میں داخل ہوتے ہوئے میں بول سکتا تھا اسے آپ چینی زبان میں ہیلو کا متبادل سمجھیں‘ جس کامقصد کسی کا حال دریافت کرنا ہوتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ جب کچھ بول چال آئی ہے تو اب میں نے چینیوں کی قوت برداشت کا امتحان لینا شروع کردیا ہے‘ یعنی ان سے بات کرنے کی کوششیں۔ بقول میری ٹیچر کے کہ تم نے دو سمسٹر کافی اچھی طرح پاس کر لئے ہیں‘ فکر نہ کرو چند برسوں میں زبان لکھنا بھی سیکھ جائو گے یعنی زبان نہ ہو گئی بیوی کی دی ہوئی شاپنگ لسٹ ہو گئی۔ کچھ بھی کر لو پھر بھی کچھ تو باقی رہ ہی جاتا ہے!