ایک چین 1949ء میں آزاد ہوکر مائو زے تنگ کی قیادت میںتعمیر ہوا تھا جس کی بنیاد کمیونزم اور سوشلزم کے اصولوں پر رکھی گئی جبکہ دوسرے اور موجودہ چین نے1978ء کے بعد چینی رہنما ڈینگ ژیائو پھنگ کی قیادت میں جنم لیا جس کی بھرپور جوانی پوری دنیا دیکھ رہی ہے ۔ حیرت انگیز ترقی کا یہ معجزہ کیسے رونما ہوا ، اس کے لئے اگر ایک شہر کی مثال لے کر سمجھنے کی کوشش کی جائے تو بات آسان ہو سکتی ہے اور وہ شہر شن چن (Shenzhen) ہے جو چین کے نئے اقتصادی ماڈل کے لئے پہلا انتخاب بنا۔ہانگ کانگ کی سرحد سے ملا ہوا یہ علاقہ چین کے جنوبی صوبے گوانگ دونگ(Guangdong) کا ایک چمکتادمکتا صنعتی شہر بننے سے پہلے بمشکل تین لاکھ کی آبادی کا ایک قصبہ نما علاقہ تھا۔ چینی قیادت نے جب آزاد اقتصادی پالیسی کا آ غاز کیا تو انہیں ایسے علاقوں کی ضرورت تھی جن کو وہ اس نئے ماڈل کے لئے ایک تجربہ گاہ (Reform Labortory) کے طور پر استعمال کر سکیں۔ یہ تجربات پہلے سے آباد بیجنگ اور شنگھائی وغیرہ میں کرنا بہت مشکل اور پر خطر تھا اور خود کمیونسٹ پارٹی کے اندر بھی اس نئے اقتصادی ماڈل کو منوانا،جو گذشتہ تیس برسوں سے ملک کے معاملات سخت ریاستی کنٹرول کے ذریعے چلا رہی تھی،ایک بڑا چیلنج تھا۔ ڈینگ ژیائو پھنگ اوران کے ہم خیالوں کے نزدیک چین کا مقدر بدلنے کے لئے یہ تبدیلیاں نا گزیر تھیں اور یوں اصلا حات اور ترقی کے نام پر نئے خصوصی اقتصادی علاقے(Special Economic Zones) بنانے کا آغاز ہوا۔ جس کے لئے ان کی پہلی نظر شن چن پر پڑی اور یوں یہ غیر معروف ساحلی قصبہ دیکھتے ہی دیکھتے ایک میگا انڈسٹریل شہر میں تبدیل ہو تا گیا اور اسی تیز رفتار ترقی کے باعث یہ راتوں رات بننے والے شہر (Overnight city) کے نام سے معروف ہو گیا۔مقامی لوگوں کے بقول یہاں بڑی بڑی عمارتیں اتنی تیزی سے کھڑی ہوتی چلی گئیں جیسے بارش کے بعد لمبے لمبے بانسوں (Bamboos) کے درخت اچانک نمودار ہو جاتے ہیں۔
چینی حکمرانوں نے اس نئے اقتصادی ماڈل کو ایک بہت دلچسپ نام (Socialism with Chinese characteristics) دیا جس کو یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ ہم ترقی کے حصول کے لئے سوشلزم کے پرانے نظریات میں اپنی ضروریات اور ترجیحات کے مطابق تبدیلیاں لاتے رہیں گے۔ اسی بات کو سمجھانے کے لئے ڈینگ ژیائو پھنگ سے منسوب ایک فقرہ ضرب المثل بن گیا کہ ' اگر ایک بلی چوہا پکڑ سکتی ہے تو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ سیاہ ہے یا سفید‘۔ بس اسی آزادانہ اور نتائج حاصل کرنے والی پالیسی کے تحت شن چن میں خصوصی رعایتوں کے ساتھ تیزی سے انفراسٹرکچر کھڑا ہونا شروع ہو گیا تاکہ باہر کے لوگ اسے سرمایہ کاری کے لئے پر کشش سمجھ کر اپنا سر مایہ یہاں لائیں اور اس کے ساتھ ہی آس پاس کے علاقوں بلکہ پورے چین کے محنت کشوں ، ہنر مندوں اور ماہرین کے لئے یہ جگہ مواقعوں کی سرزمین بنتی چلی گئی۔ آزادانہ تجارتی اور کاروبار دوست پا لیسیوںاو ر تیزی سے تعمیر ہوتے عمدہ انفرا سٹرکچر کو دیکھ کر یہاں غیر ملکی سر مایہ دار کھنچے چلے آئے اور اس کے ساتھ ہی لاکھوں لوگوںنے روزگار اور ترقی کے مواقعوں کے اس شہر کا جوق در جوق رخ کرنا شروع کردیا اور یوںشن چن کو چین کا ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے تیزی سے ترقی کرنے والے شہروں میں صف اول کا درجہ دلا دیا۔
اس ہجرت کے نتیجے میںآبادی میں اتنی تیزی سے اضافہ ہوا کہ آ ج اس شہر میں ایک کروڑ سے زیادہ لوگ بستے ہیں جن کی اکثریت کام کے سلسلے میں آنے والے لوگوں کی ہے ۔یہ شہر صنعتی پیداوار اور ترقی کے نام پر ایک عجوبہ ہے جس میں مختلف صنعتوں کے لئے وسیع و عریض انڈسٹریل پارکس موجود ہیں جو کمپیوٹر کے آلات، مائیکرو الیکٹر ونکس، آڈیو اور ویڈیو کی پروڈکٹس ، لائٹوں اور انرجی کی صنعت سے لے کر کیمیکل اور بائیو میڈیسنز تک ہر طرح کی چیزیں بڑے پیمانے پر تیار کر رہے ہیں۔ اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری نے اس شہر کو چین کے مالدار ترین شہروں کی فہرست میں شامل کر دیا ہے۔ ایک دورایسا بھی رہا ہے جب یہ شہر تیس فیصد سالانہ جی ڈی پی(GDP) کی رفتار سے ترقی کرتا رہا ہے جو ناقابل یقین حد تک حیران کن ہے اور آج بھی دنیا کے معاشی حالات کتنے ہی دگر گوں ہوں،یہ دس فیصد سے نیچے نہیں آپا تا۔ ایک زمانے کا یہ چھوٹا سا ساحلی قصبہ اب معاشی لحاظ سے بیجنگ , شنگھائی جیسے شہروں کا مقابلہ کرتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق یہاں کی اوسط فی کس سالانہ آمدنی بائیس لاکھ روپے کے لگ بھگ تک پہنچ چکی ہے۔ ہر بڑے سرمایہ دار خطے کی طرح یہاں بھی مالدار اور محنت کش طبقے کا فرق نمایاں ہے لیکن عمومی معاشی خوشحا لی نے سب کا بھلا کیا ہے اور ایک بڑا مڈل کلاس طبقہ بھی وجود میں آچکا ہے۔ شہر کا سالانہ جی ڈی پی دو کھرب چالیس ارب امریکی ڈالرز کے قریب پہنچ چکا ہے ۔ شہر کے مرکز اور اطراف میں بلند وبالا عما رتیں سر اٹھائے کھڑی ہیںاور سڑکوں ٹرینوں اور میٹرو کا جال بچھا چکا ہے۔ عالیشان ہوٹلز، غیر ملکی ریسٹورنٹس اور شاپنگ مالز کی ایک دنیا آباد ہے ۔شاندارگالف کورس اور تھیم پارکس موجود ہیں جو اس ہرے بھرے شہر کی خوبصورتی میں چار چاند لگا دیتے ہیں۔ اس شہر میں آنے والوں کی اکثریت صرف کام کے سلسلے میں یہاں مقیم رہتی ہے جنہیں آپ (Economic Migrants)کہہ سکتے ہیں اور یہاں کام کرنے کے لئے خصوصی ورک پرمٹ کی ضرورت ہوتی ہے ۔ شہر کے لوگوں کی اوسط عمر تیس سال سے بھی کم ہے اس لحاظ سے بھی یہ ایک نرالا شہر ٹھہرتاہے ۔یہاں کی مقامی چینی زبان جسے کینٹونیز (Cantonese) کہا جاتا ہے ،اب ایک اقلیتی لب ولہجہ بن گیا ہے اور اکثریت سرکاری چینی زبان مینڈرن ہی بولتی ہے۔
اس خصوصی اقتصادی مرکز کی ترقی کی چینی محنت کشوں نے بڑی قیمت ادا کی ہے۔ شہر کے خصوصی زون کی حدود سے باہر بھی بے شمار فیکٹریاں وجود میں آچکی ہیںجہاں ساتھ ہی ورکرز کے ہاسٹلز بھی ہوتے ہیں جنہیں آپ سستی تعمیر شدہ لیبر کالونیاں سمجھ لیں۔ دیہی چین اور چھوٹے قصبوں سے آنے والے لاکھوںمحنت کش یہاں انتہائی قلیل معاوضوں پر بھی کام کرتے ہیں۔ یہ نوجوان مرد اور عورتیں ایک بہتر اور آزاد زندگی کا خواب لئے اس شہر اور اس کے اطراف کو آباد رکھتے ہیں۔امریکی مصنف پیٹر ہیسلر چین سے متعلق اپنی مشہور کتاب (Oracle Bones) میں شن چن کی اس ورکنگ کلاس کے ساتھ گزارے گئے دنوں کے حوالے سے ایک مقبول مقامی ریڈیو پروگرام ' رات میں آپ تنہا نہیں‘ کا تذکرہ کرتا ہے جو یہاں کے ورکرز خصوصاًعورتوں میں بے حد مقبول رہا ہے۔ اس کی خاتون میزبان لوگوں کی براہ راست کالز سنتے ہوئے رومانوی الجھنوںسے لے کر کام کے مسائل تک ہر قسم کی گفتگو سنتی اور اپنی رائے بھی دیتی ۔ اپنے کاموں کے بعد تھکے ماندہ لا کھوں لوگ اس ریڈیو شو کو بہت دلچسپی سے سنتے جو ان کے لئے ایک طرح کا کتھارسس ہوتا۔ سوشلسٹ چین کے اندر سرمایہ داری کے ان جزیروںنے کروڑوں لوگوں کو غربت کی دلدل سے نکلنے میں مدد بھی کی اور ان سے اس کی بڑی قیمت بھی وصول کی ہے۔ اب پورے چین کے مختلف شہروں میں ترقی اور تعمیر کا مقابلہ زوروں پر ہے جس کا بانی آپ شن چن(Shenzhen) ماڈل کو قرار دے سکتے ہیں۔اسی شہر سے نزدیک گوانگ چو(Guangzhou) شہر جو گوانگ دو نگ صوبے کا دارالحکومت بھی ہے ،ایک عظیم صنعتی اور کاروباری مرکز بن چکا ہے۔
چین کی حکمران کمیونسٹ پارٹی ابھی تک ایک طے شدہ ڈسپلن کے ساتھ ہی سیاسی اور ریاستی معاملات کو چلاتی ہے لیکن معاشی اور اقتصادی محاذ پر اس کی پالیسیوں نے تو سرمایہ دار مغرب کو بھی حیران و پریشان کر دیا ہے کہ ایک سوشلسٹ ملک سرمایہ داری کے میدان میں ان کا بھی استاد نکلا۔شن چن (Shenzhen) جیسے شہروں کی ہوشربا ترقی کی داستان لکھتے ہوئے پاکستان کے گوادر شہر کی یاد آجاتی ہے کہ کچھ برسوں پہلے تک اس اہم بندر گاہ والے شہر نے بھی کچھ ایسے ہی پروان چڑھنا تھا اب جبکہ یہاں کی بندر گاہ کے انتظام میں چین بھی ہمارا مدد گار ہے تو کیوں نہ عظیم چینی رہنما ڈینگ ژیائو پھنگ کی مثال سامنے رکھتے ہوئے ذرا حوصلے سے کام لے کر اس شہر کو تر جیحی بنیادوں پر ترقی دی جائے؟