انٹر نیٹ کے چینی آداب

ایک دولت مند باپ نے اپنے کاہل بیٹے کے لئے کچھ ایسا انتظام کیا کہ ہر چیز بٹن دبانے پر حاضر ہو جاتی ۔بڑے فخر سے اس نے یہ بات اپنے بیٹے کو بتائی توسست الوجود بیٹے نے باپ سے پوچھا کہ یہ بار بار بٹن کون دبائے گا؟آج کل کی دنیا کے لحاظ سے یہ لطیفہ بھی ایک مذاق ہی بن چکا ہے کہ ٹیکنالوجی خصوصاً کمپیوٹر اور انٹر نیٹ کی ترقی نے بہت کم عرصے میں سب کچھ بدل کر رکھ دیا ہے۔ اب اگر کسی کو بٹن دبانا مشکل لگے تو یہ کوئی انہونی بات نہ ہو گی۔ میرا بیٹا جس نے ابھی گنتی اور چند حروف لکھنا شروع ہی کئے ہیں، موبائل اور لیپ ٹاپ سے اتنا واقف ہو چکا ہے کہ اگر اس کی پسند کی ویڈیو آنے میں ذرا دیر ہو رہی ہو تو کہہ دیتا ہے کہ ابھی ڈائون لوڈ ہو رہی ہے۔ ٹی وی کی اسکرین کو بھی ٹچ اسکرین سمجھ کر پروگرام تبدیل کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ بس کچھ ایسی ہی صورت اب اکثر گھروں اور بچوں کی ہو چکی ہے اور سب ہی انٹر نیٹ کے سبب فیس بک، اسکائپ اور یو ٹیوب سمیت بے شمار سہولیات کے عادی ہو چکے ہیں۔اب تو دو لوگ ساتھ بیٹھے ہوں تو ایک دوسرے کو یہ بتا رہے ہوتے ہیں کہ ان کی موبائل پر دور بیٹھے لوگوں سے کیا بات چیت ہو رہی ہے ۔
چین میں انٹر نیٹ کی سہولت کا استعمال کرتے ہوئے اکثر ایسا خیال آتا ہے جیسے مانگے گلاب جامن گئے ہوں لیکن دی جائے رس ملائی یعنی کچھ تو ایسی زبردست چیزیں آن لائن حاضر ہیں کہ ساری دنیا میں اتنی آسانی سے نہ ملیں لیکن اگر بات مقبول عام فیس بک، یو ٹیوب یا گوگل کی ہو تو انٹر نیٹ سروسز فراہم کرنے والے جیسے ان کو جانتے ہی نہیں۔ فیس بک کی جگہ آپ' رن رن‘(Renren) استعمال کریں، یو ٹیوب کی جگہ 'یو کھو‘ (Youku) موجود ہے اور گوگل کی جگہ 'بائی دو‘ (Baidu) ,ساری خدمات اور سہولتیں وہی ہیں لیکن چینیوں کی بنائی ہوئیں۔ یہاں تک کہ مشہور زمانہ ٹوئٹر (Twitter) کا بھی چینی متبادل سنا ویئبو (Sina Weibo) کے نام سے استعمال ہوتا ہے۔ اب مقامی انٹر نیٹ سروسز کو اگر آپ رس ملائی سمجھیں تودنیا بھرکی چندمعروف ویب سائٹس وہ گلاب جامن ہیںجن کا حصول کافی دشوار بنا دیا گیا ہے۔ یو ٹیوب کی متبادل یو کھو اور دیگر کئی ایک چینی ویڈیو ویب سائٹس پردنیا جہان کی فلمیں اور ٹی وی پروگرام آسانی سے دیکھے جا سکتے ہیں جو شاید یو ٹیوب پر بھی نہ دیکھی جاسکیں اور دیگر ویب سائٹس سے ڈائون لوڈ کرنے میں گھنٹوں لگ جائیں ، جبکہ یہاں یہ سیکنڈوں میں دستیاب ہیں۔ بس ایک ڈیڑھ منٹ کے اشتہارات برداشت کرنے پڑیں گے ۔یہ کیسے ممکن ہے اس پر فی الحال اتنا تبصرہ کافی ہے کہ آم مل رہے ہوں تو پیڑ گننے کی کیا ضرورت ہے۔
یہاں کسی بھی بین الا قوامی ویب سائٹ یا انٹر نیٹ سروس سے رابطہ کبھی بھی دشوار سکتا ہے جس کی حالیہ مثال گوگل میل کو استعمال کرنے میں مشکلات ہیں۔ انہی دشواریوں کے باعث انٹر نیٹ کی سہولیات کے لئے غیر ملکیوں کو اکثر اوقات ایسی سروسز کا سہارا اضافی رقم دے کر لینا پڑتا ہے جن سے آپ کی رسائی بین الاقوامی ویب سائٹس تک ہو جاتی ہے بالکل وہی سروسز جو آج کل پاکستان میں کچھ لوگ یو ٹیوب پر پابندی کے باعث استعمال کرتے ہیں جسے عرف عام میں وی پی این Virtual Private Network) ( کہا جاتا ہے۔ہاں انٹر نیٹ پر اس ریا ستی کنٹرول اور نظم وضبط کی بہت سنجیدہ سکیورٹی وجوہ ہیں۔ اس نئے دور میں اپنی حساس معلومات کو محفوظ رکھنا اور دوسروں کی معلومات تک پہنچنے کے لئے اس ٹیکنالوجی کو استعمال کرنا ہی اصل جنگ بن چکی ہے جسے سائبر وار (Cyber war) کا نام دیا گیا ہے۔ چین ، امریکہ اور دیگربڑی عالمی طاقتیں ان معاملات کو بہت سنجیدگی سے لیتے ہیں ۔ کس ملک کی بڑی کمپنیاں کیا عزائم رکھتی ہیں یا وہاں کے دفاعی اور معاشی اداروں کی کیا تر جیحات ہیں ؟ان ساری معلومات کے حصول کے لئے یہ سارے ممالک ہی اپنی سی کوششیں کرتے ہیں۔ اسی طرح اپنے راز محفوظ رکھنے کے لئے بھی نت نئی ٹیکنالوجی کااستعمال کیا جاتا ہے۔ حالیہ چند برسوں میں چین اور امریکہ کے درمیان اس حوالے سے کافی سخت محاذ آرائی نظر آئی ہے جب امریکیوں نے چین پر اپنی چند بڑی کمپنیوں اور اہم اداروں کی معلومات حاصل کرنے کی کوششوں کا الزام لگایا بلکہ مبینہ طور پر شنگھائی کی ایک عمارت کی تصویر بھی جاری کی جہاں سے امریکہ کے بقول چین کی پیپلز لبریشن آرمی کے سائبر یونٹ نے یہ کارروائیاں سر انجام دیں ۔ چینی حکام نے ان الزامات کی نہ صرف سخت تردید کی بلکہ اس خدشے کا اظہار کیا کہ وہ تو خود اپنی انٹرنیٹ سکیورٹی کے حوالے سے کافی فکر مند ہیں۔ ان معاملات کی سنجیدگی کو دیکھتے ہوئے اب دونوں ممالک انٹر نیٹ سکیورٹی اور پروٹو کول کے حوالے سے ایک دوسرے سے تعاون کرنے پر بھی کام کر رہے ہیں تاکہ کسی بڑے تنازعے سے بچا جا سکے۔
یہ جنگ تو کمپیوٹرز پر کھیلے جانے والی گیمز کی طرح ہی لگتی ہے لیکن نتائج کے اعتبار سے یہ کشمکش بہت سنجیدہ ہو چکی ہے اور اب کسی ملک یا ادارے کو نقصان پہنچانے کا یہ موثرترین طریقہ بن چکا ہے۔ جس طرح ایک پاکستانی خاتون نے سابق امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کو یہ کہہ کر قہقہے لگانے پر مجبور کر دیا تھا کہ' پاکستان اور امریکہ کا رشتہ ساس اور بہو کی طرح کا لگتاہے ‘ بالکل اسی طرح آج امریکہ اور چین کو بھی ہم نند اور بھا وج کے رشتے سے تشبیہ دے سکتے ہیں( خوا تین سے معذرت) دونوں ایک دوسرے کے حلیف بھی ہیں اور حریف بھی، کئی معاملات میں مفادات یکساں ہیں تو کئی جگہ متصادم۔ چینیوں نے پوری دنیا سمیت امریکہ اور یورپ میں بھاری سرمایہ کاری کی ہوئی ہے تو دنیا نے بھی چین میں بہت سرمایہ لگایا ہے ۔ امریکی دنیا میں واحد سپر پاور کے عہدے سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں ہیں اور اب اس حال میں جب چین کا اثر ور سوخ پھیل رہا ہے تو امریکیوں کو یہ فکر ہے کہ اس کو کس طرح کنٹرول کیا جائے۔ چین اب تک تو اپنی اقتصادی ترقی کے بل بوتے پر آگے بڑھ رہا تھا لیکن اب اس کا اپنے خطے میں فوجی اثر ورسوخ بھی بڑھتا جا رہا ہے جس کو قابو میں کرنے کے لئے امریکہ یہاں اپنے حلیف ممالک خصوصاً جاپان اور فلپائن وغیرہ کو استعمال کرتا رہا ہے۔ ان حالات میں جہاں کھل کر ایک دوسرے کی مخالفت یا کسی جنگ کا فی الحال دور دور تک امکان نہیں مقابلے کی یہ نئی دنیا دریافت ہو گئی ہے۔ امریکیوں کو اپنی برتر ٹیکنالوجی اوردنیا کے بہترین کمپیوٹر سافٹ وئیرز پر ناز ہے تو چینیوں نے بھی اپنے کمپیوٹر ماہرین کی ایک فوج تیار کی ہوئی ہے۔ دونوں طرف کے ماہرین ایک دوسرے کی اہم معلومات اچکنے کے لئے ہمہ وقت تیار ہیںاورساتھ ساتھ اپنے رازوں کی حفاظت کی فکر بھی لگی رہتی ہے۔ اس پیچیدہ اور عجیب وغریب مقابلے بازی نے ان ماہرین کی اہمیت بہت بڑھا دی ہے جو کمپیوٹر، انٹرنیٹ اور نت نئے سافٹ وئیرز کو ذہانت سے استعمال کر سکتے ہوں۔ اکثر ہم خبروں میں کمپیوٹر ہیکرز کی خبریں پڑھتے ہیں جو مختلف ویب سائٹوں کو ہیک یا قابو میں کر لیتے ہیں اور ایسے وائرس ڈال دیتے ہیں کہ بیچاری ویب سائٹس بیمار پڑ کر ناکارہ ہو جاتی ہیں۔ بیس پچیس سال پہلے تک جو سائنس فکشن تھا وہ آج ایک حقیقت بن چکی ہے۔ اب تو رشتے کرنے کے لئے تحقیق کرتے ہوئے فیس بک کی پروفائل دیکھ لی جاتی ہے اور اگر کسی سے ناراضگی ہو تو آمنے سامنے بحث کے بجائے آن لائن جھگڑا کر کے ایک دوسرے کو اپنے دوستوں کی فہرست سے نکال دیا جاتا ہے تو پھر ملکوں کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ آمنے سامنے فوجیں لا کر کھڑی کر دیں۔ اگر کچھ زیادہ ہی کشیدگی ہو گئی ہو تو اپنے سائبر فوجیوں کی مدد سے کمپیوٹروں کے ذریعے حساب کتاب برابر کر لیا جائے بس خیال رہے کہ یہ ماہرین ایک حد میں رہیں کیو نکہ ان کا ڈسپلن روایتی فوجوں والا نہیں اور ذرا سی بے احتیاطی اصل جنگوں سے زیادہ نقصان پہنچا سکتی ہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں