ہانگ کانگ والے نخریلے اور بے چارے

ہانگ کانگ دنیا کے ان چند ایک مقامات میں سے ہے جن کے لئے یہ کہا جائے کہ صرف نام ہی کافی ہے تو کافی ہو گا۔ یہاںکی شہرت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ یہ کم از کم دو پرانی پاکستانی فلموں کے ناموںکا بھی حصہ رہاہے ایک فلم ہانگ کانگ کے شعلے اور دوسری پاکستان کی عظیم اداکارہ اور فلمی ہدایتکار شمیم آرا کی بنائی ہوئی فلم مس ہانگ کانگ۔ میں ان دونوں فلموں کے زیادہ تر مناظر یو ٹیوب پر دیکھ پایا ہوں ۔ ان فلموںمیں ہانگ کانگ کی خوبصورت اور بلند وبالا عمارات کو بھی چند ایک بار دکھانے کی کوشش کی گئی ہے جو یقینا اُس دور یعنی 1980ء کی دہائی میں دبئی کے حکمرانوں کے لئے بھی ایک عجوبہ ہوں گی۔ ہانگ کانگ کے رہنے والے ایک عرصے سے دنیا کے اس بہترین کاروباری مرکز پر نا زاں رہے ہیں ۔ اس خطے کو برطانوی راج سے اپنے اصل ملک یعنی چین کے پاس آئے 18برس ہونے والے ہیںلیکن یہاں ابھی تک راج برطانیہ کے لاڈلے ہانگ کانگ والے اس تعلق کو پوری طرح ہضم نہیں کر پارہے اور آئے دن یہاں کی طلباء برادری چین کی مرکزی حکومت کے سامنے مطالبات کے ہمراہ مظاہروں اور دھرنوں میں مصروف ہو جاتی ہے۔ یوں سمجھ لیں اٹھارہ برس کا ہو جانے کے بعد بھی یہ لوگ چینی شناخت اپنانے میں ہچکچا ہٹ کا شکار ہیں۔ آخر چینی نسل کے ہی یہ باشندے اس طرح کیوںسوچتے ہیں‘ اس کو کسی حد تک سمجھنے کے لئے مختصرسا تاریخی پس منظر جاننا ضروری ہے۔ 
دو سو برس قبل کے آس پاس جب انگریز اپنے بحری جہاز لے کر دنیا کی مختلف ممالک کی بندر گاہوں پر پہنچ رہے تھے تو چین کے جنوب میں واقع موجودہ ہانگ کانگ کاساحلی قصبہ بھی ان کا تجارتی مر کز ٹھہرا۔ کہانی کچھ ہندوستان سے ملتی جلتی ہی ہے۔ چین میں بھی با دشاہت کمزور پڑ چکی تھی اور یہاں کی شاہی افواج جدید جنگی طور طریقوں سے نا واقف اپنی ہی دنیا میں مگن تھی۔ ہانگ کانگ ایک بہترین قدرتی بندر گاہ تھی جہاں سے انگریزوں نے چینی بادشاہوں سے تجارت کا آغاز کیا لیکن جلد ہی اپنے اصل منصوبے کے تحت حکومت کی کمزوریوں سے فائدہ اُٹھانا شروع کر دیا۔ ہندوستان سے افیون یہاں درآمد کر کے چین کے لوگوں کی بڑی تعداد کو اس کے استعمال کا عادی بناڈالا۔ افیون کی اس تجارت اور اس کے نتیجے میں مالی خسارے نے جب چینی بادشاہت کو فکر مند کیا تو انگریزوں سے دو مشہور جنگیں لڑیں گئیں۔ روایتی شاہی فوج جدید انگریزی طریقوں کا مقابلہ نہ کر سکی اور یوں ان دونوں جنگوں میں برطانوی فاتح ہوئے اور چینیوں سے اپنی مرضی کے من مانے معاہدے کئے ۔ یوں سمجھ لیں کہ ایسے معاہدے جن کے تحت ایک پلیٹ چاول کے عوض پوری بوری بٹور لی جائے۔ تاریخ میں یہ جنگیں ہی افیون کی جنگیں (Opium wars) کے نام سے مشہور ہیں ۔ یہ اُ نہی زمانوں میں لڑی گئیں جب ہندوستان میں بھی برطانوی راج قائم ہو رہا تھا۔ افیون کی دوسری جنگ میں تو انگریز اپنے حریف فرانسیسیوں کے ساتھ مل کر چینیوں سے لڑے کیونکہ اتنے بڑے ملک کو قابو میں لانا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ بہرحال پہلی جنگ کے بعد سے ہی ہانگ کانگ 1842ء میںبرطانیہ کے کنٹرول میں آگیا۔ اس دوران درمیان میں دوسری جنگ عظیم کے موقع پرجاپانیوں نے یہاںپر تقریباً چار برس قبضہ کیے رکھا جو جاپان کی شکست کے ساتھ ہی ختم ہو گیا۔ 
چینی حکومت سے ایک معاہدے کے تحت انگریزوں نے ہانگ کانگ کو1898ء میں ننانوے سال کی لیز پر لیا تھا جو بالآخر 1997ء میں ختم ہو گئی۔ اتنے طویل عر صے بر طانوی حکمرانی میں رہنے کے دوران اس کا شمار دنیا کے گنے چنے بہترین شہروں میں ہونے لگا جو تجارت اور کاروبار کے لئے مثالی جگہ تھی۔ چین میں کمیونسٹ حکومت آنے کی وجہ سے یہاں کی تجارتی اہمیت مزید بڑھ گئی ۔ برطانیہ کے زیر اثر قوانین اور تعلیمی نظام کے باعث یہاں کے چینی باشندے بقیہ چین سے بہت آگے نکل چکے تھے اور ہر لحاظ سے اپنے آپ کو برتر اور ترقی یافتہ انٹرنیشنل برادری کا حصہ سمجھتے تھے۔ ہانگ کانگ کے مشہور زمانہ وکٹوریہ ہاربر کے ساتھ بلند و بالا عمارات دنیا کی خوبصورت ترین اسکائی لائن سمجھی جاتی جو اسے نیویارک جیسے شہروں کے ساتھ لا کھڑا کرتی۔ چین میں دوبارہ شمولیت کے وقت ہانگ کانگ اس بچے کی طرح تھا جسے بچپن میں کسی امیر غیر ملکی جوڑے نے گود لے کر اپنے انداز میں پرورش کرنے کے بعد جوانی میں اس کے رشتے داروں کو واپس کر دیا ہو۔ گو کہ چین بھی ترقی کی راہ پر گامزن تھا لیکن ہانگ کانگ کے مختلف ہونے کے پیش نظر چینیوں نے اس کی الگ حیثیت کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے ہی ملک میں ایک ملک دو نظام کے تحت اس کو خصوصی نیم خود مختا رحیثیت دی۔ اب لندن کے مقرر کردہ برطانوی گورنر کی جگہ بیجنگ کے تجویزکردہ چند لوگوں میں سے ہی کسی نے یہاں کا چیف ایگزیکٹو بننا ہوتا ہے۔ ہانگ کانگ کے لوگ ابھی تک اس تبدیلی سے ہم آہنگ نہیں ہو پا رہے۔ وہ مرکزی چین جس کے لئے Mainland China کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے‘ سے لوگوں کی آمد اور بیجنگ کے کنٹرول سے متعلق نہ صرف سوال اُ ٹھاتے رہتے ہیں بلکہ اپنے آپ کو زیادہ مہذب اور ترقی یافتہ سمجھتے ہوئے باقی چینیوں کے طور طریقوں پر تنقید بھی کرتے ہیں۔ چین سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون جو ہانگ کانگ یونیورسٹی اور امریکہ میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد اب ہانگ کانگ میں ہی ایک اچھے عہدے پر کام کر رہی ہیں‘ یہاں رہنے اور پڑھنے کے دوران کے تجربات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ ہانگ کانگ والے بقیہ چینیوں سے کوئی زیادہ مثالی تعلقات نہیں رکھتے لیکن اب یہاں کی معیشت کا بڑا دارومدار امیر چینیوں کی جیب پر ہے۔ اس لئے ان کو اس حقیقت کو سمجھنا ہو گا کہ اب گزارا مل کر ہی ہو سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی چینی طلباء کی عمدہ کارکردگی اور انٹرنیشنل کمپنیوں میں ان کی بڑھتی ہوئی ڈیمانڈ بھی ہانگ کانگ والوں کے لئے ایک چیلنج سے کم نہیں۔ 
ہانگ کانگ کے طلباء کے علاوہ (جو اکثرسیاسی اصلاحات کے مطالبے پر سڑکیں بند کرنے کی کوششیں کرتے ہیں) یہاں کے مقامی لوگوں کی بھی مین لینڈ چین کے لوگوں سے بعض شکایات بہت ہی دلچسپ ہیں ۔ یہاں کی آزادانہ امپورٹ پالیسی چین سے مختلف ہونے کی وجہ سے یہاںآنے والی اشیاء جن میں آئی فونز سے لے کر جدید برانڈز کے کپڑے جوتے سب ہی شامل ہوتے ہیں۔ چینی باشندے بڑی تعداد میں خرید کر دکانیں خالی کر دیتے ہیں۔ ایک دلچسپ واقعے کے بعد تو کچھ مقامی لوگوں نے تو باقاعدہ احتجاج کر ڈالا جب ایک مشہور برانڈ کے سپر اسٹور پر موجود گارڈ نے کہا کہ اس کے سامنے تصاویر صرف چین سے آنے والے یا دیگر سیاح ہی اْتار سکتے ہیں۔ ایک اور مسئلہ بھی اہمیت اختیار کر گیا ہے جو چین سے آنے والے ان خاندانوں سے متعلق ہے جو یہاں اولاد پیدا کر کے انہیں ہانگ کانگ کا مقامی شہری بنوا دیتے ہیں۔ دنیا کا گنجان ترین شہر ہونے کے باعث مقامی لوگ اسے بھی یہاں کے محدود وسائل کے لئے ایک اور مسئلہ سمجھتے ہیں۔ اسی طرح یہاں پراپرٹی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کو بھی وہ چین سے آنے والے لوگوں کی زیادہ قوت خرید کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ ان تمام باتوں کے باوجود یہاں کے شہری بھی تقسیم کا شکار ہیں خصوصاً وہ لوگ جو نسبتاً بڑی عمر کے ہیں‘ وہ ہانگ کانگ کے طلباء کے احتجاج کو نا پسند کرتے ہیں۔ چالیس برس کی عمرکے قریب ہانگ کانگ کے ایک باشندے سے گفتگو ہوئی تو اس نے کافی غصے سے کہا کہ یہ نوجوان تو اپنے آپ کو چینی ہی نہیں مانتے جب کہ چینی دنیا میں کہیں بھی آباد ہو جائے پہلے چینی نسل کا ہوتا ہے‘ نجانے یہ کیا چاہتے ہیں کیونکہ یہ کچھ بھی کر لیں انگریز تو بن نہیں سکتے۔ دونوں اطراف کے خیالات سننے اور پڑھنے کے بعد بحیثیت ایک غیر ملکی مجھے تو یہی سمجھ آتا ہے کہ ہانگ کانگ والوں کو جو آزادی اس وقت نصیب ہے‘ اسے غنیمت سمجھیں کیونکہ چینی سرمایہ تو لندن اور پیرس سے لے کر کیلیفورنیا تک ہر جگہ اپنا اثر دکھا رہا ہے اور سب اس کے آگے بچھے جا رہے ہیں‘ وہ برطانوی بھی جنہوں نے ہانگ کانگ کو پال پوس کر جوان کیا۔ 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں