غربت سے امارت کا سفر جاری ہے

شنگھائی کے اپنے اپارٹمنٹ بلاک کے سامنے پارک کی ہوئی بیش قیمت کاروں کے درمیان سے گزرتے ہوئے میںآئے دن کسی نئی چمکتی دمکتی کار کا اضافہ دیکھتا ہوں۔ ایسا کونسا برانڈ اور ماڈل ہے جویہاں موجود نہیں ہوتا۔کاروں کے بارے میں اپنے محدود علم کے باوجود ان گاڑیوں کے نام اور ماڈلز اپنی طرف کھینچ ہی لیتے ہیں اوراکثر میں چند لمحے رک کر ان کا معائنہ کر لیتا ہوں۔ گاڑیوں کے اس معائنے میں حسرت سے زیادہ حیرت کا عنصر ہوتا ہے کیونکہ خیال یہ تھا کہ دبئی اور ابوظہبی میں کچھ عرصہ گزارنے کے دوران میں نے جتنی اچھی گاڑیاں دیکھنی تھیں دیکھ لیں، لیکن یہاں آکر اندازہ ہوا کہ چین کادولت مند طبقہ اس معاملے میں ہمارے عرب بھائیوں کا ہم پلہ ہو چکا ہے؛ بلکہ ایک دو ہاتھ آگے نکل گیا ہے۔ یاد رہے کہ چین میں قیمتی گاڑیاں عرب ملکوں کے مقابلے میں بہت زیادہ مہنگی ہوتی ہیں۔ سائیکلوں کے اس ملک میں گاڑیوں کی یہ بہتات یہاں کی حیران کن معاشی ترقی اور خوش حالی کا ایک لازمی نتیجہ ہے۔ چین میں دولت مندوں کی تعداد میں حیرت انگیز اضافے کی وجہ سے صرف گاڑیاں ہی نہیں، ہراس کاروبار نے جو امرا کو سہولت پہنچا سکتا ہے کافی ترقی کی ہے۔ دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے اس ملک میں انتہائی غریب، نچلے متوسط اور متوسط طبقے کی تعداد کروڑوں میں ہے اور طبقاتی فرق بھی بہت بڑھ چکا ہے۔ فی الحال امیر طبقے کے طرز زندگی کی جھلکیاں دیکھتے ہیں:
میرے رہائشی بلاک میں آباد چینی باشندوںکی اکثریت کامیاب کاروباری افراد پر مشتمل ہے جس کا ثبوت پارکنگ میں موجود قیمتی گاڑیاں اور تھری پیس سوٹوں میں ملبوس ان کے شوفر ہیں۔ امارت کی ایک اور دلچسپ نشانی یہ بھی ہے کہ جن لوگوںکے پاس اپنے قیمتی نسل کے کتوںکو ٹہلانے کا وقت نہیں ہوتا یا تو ان کی آیائیں یہ خدمت انجام دیتی ہیں یا پھر پروفیشنل ڈاگ واکرز جوعموماً فی گھنٹے کے حساب سے معاوضہ لیتے ہیں اور مخصوص دنوں یا روزانہ کی بنیاد پر چند گھنٹے ان کے کتوںکو پیدل سیرکروا دیتے ہیں۔ ایک کھرب پتی صاحب نے تو تبت کے علاقے میں پائی جانے والی انتہائی نایاب نسل کے (Red Mastiff) کتا تقریباً 28 کروڑ روپے میں خرید کر ایک ریکارڈ قائم کر دیا۔ تصویر میں یہ کتا ایک سرخ رنگ کے ببر شیرکی شکل کا لگ رہا تھا۔ شاندار گولف کلبوں کی ممبرشپس لینا امیر چینی طبقے کی زندگی کا لازمی حصہ بن چکا ہے جو خاصا مہنگا مشغلہ ہے۔ ان کلبوں کے ساتھ عمدہ ریسٹورنٹس اور سگار کے بارز (Bars) بھی موجود ہیں جہاں مہنگے مشروبات، سینڈوچز اور اسنیکس کے ساتھ قیمتی سگارکے مرغولے اڑاتے ہوئے یہ طبقہ عموماًکاروباری یا پیشہ ورانہ معاملات پر گپ شپ لگاتا نظر آتا ہے۔ اس سے پہلے کہ آپ یہ سوچیںکہ یہ چونچلے تو ہر جگہ کے امرا اور صاحب اختیار لوگوں کے ہوتے ہیں تو چین کے حوالے سے ایسی کیا خاص بات ہے؟ اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ دولت مندوں کی یہ نسل پچھلے تیس پینتیس برس کے دوران وجود میں آئی اور 1980ء سے قبل کے چین میں اس طرز زندگی اور طبقے کا تصور تک مشکل تھا یعنی جو چینی باشندے اب کروڑ،ارب یا کھرب پتی ہیں ان کی اکثریت غربت اور جدوجہدکا دور گزارکر اس مقام تک پہنچی ہے۔ ان کے قدموں تلے تیل کے کنوئیں نکلے نہ سونے کی کانیں یا کوئی لاٹری نکلی۔ اس ملک کی کوئی غیر ملکی کالونیاں بھی نہیں رہیں کہ جہاں سے لوٹ مارکر کے دولت اکٹھی کر لی ہو۔ یہ ساری دولت چین کے اقتصادی ماڈل میں تبدیلی کے بعد اس طبقے نے سخت محنت اورکاروباری مواقع سے فائدہ حاصل کرتے ہوئے کمائی ہے۔
چین میں سرمایہ اورکاروبار دوست پالیسیوں، تیز رفتار صنعتی ترقی اور جدید انفرا اسٹرکچرکی تعمیر کے نتیجے میں سرمائے کا ایک سیلاب چلا آیا جس کوکروڑوں کی تعداد میں انتہائی سستے محنت کش اور ہنر مند دستیاب تھے۔ اسی کے ساتھ کاروباری ذہن کے لوگوںکی بھی بن آئی جنہوں نے ان مواقع کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور صنعتی پیداوار سے لے کر تجارت تک ہر شعبے پرچھا گئے۔ چین کو دنیا کی فیکٹری قرار دیا جانے لگا جہاں کی بنی ہوئی مصنوعات کسی بھی جگہ کی تیار کردہ مصنوعات سے سستی قرار پائیں اور یوں دنیا بھر کے اسٹورز اور شاپنگ مالز ''میڈ ان چائنا‘‘ سے بھر گئے اور اس کے ساتھ چین کے کاروباری طبقے کی جیبیں بھی۔ اس حیرت انگیز سفرکی داستان لکھتے ہوئے فنا نشل ٹائمز چین کے سابق بیورو چیفKynges James اپنی کتاب (China Shakes the World) میں جرمنی کے بہت بڑے اورپرانے اسٹیل پلانٹ کا ذکرکرتے ہیں جو ایک چینی صنعتکار نے خریدنے کے بعد ایک سال کے اندر مختلف حصوں میں کھول کر پانی کے جہازوں کے ذریعے چین منتقل بھی کروادیا۔ جرمنوں کا اندازہ یہ تھا کہ اس پلانٹ کو مکمل طور پر کھول کر لے جانے کے لیے کئی سال درکار تھے جو چینی انجینئرز اور مزدوروں نے دن رات کام کر کے ایک سال میں ہی مکمل کر لیا اور اس پلانٹ کو چین لے جاکر ایک پزل کی طرح جو ڑکرکھڑا کردیا۔ ا سی طرح اٹلی کے ان شہروں میں جہاں دنیا کے مشہور ترین برانڈزکے کپڑے اور دیگر اشیا تیار ہوتی تھیں، وہاں پہنچنے والے چینی تارکین وطن نے نہ صرف چند برسوں میں مارکیٹ میں اپنا نام بنایا بلکہ چین میں ان کی پروڈکشن انتہائی کم قیمت پرکروا کر یورپ کی کمپنیوں کو یہ سوچنے پر مجبورکر دیاکہ ان کے ہاں ہونے والے پیداواری اخراجات چینی کمپنیوں کے کم اخراجات سے مقابلے کے قابل نہیں رہے۔
محنت کشوں کی دستیابی، کاروباری طبقے کی ذہانت اور مو قع پرستی اور حکومت کی جانب سے حوصلہ افزائی کے باعث دنیا بھرکی کمپنیوں کے پیداواری یونٹ چین منتقل ہو چکے ہیں تاکہ پیداواری لاگت میں کمی سے اپنے منافع میں اضافہ کرسکیں۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا کے 40 فیصد مائکرو ویو اوون جو مختلف برانڈز استعمال کرتے ہیں‘ چین میں تیار ہوتے ہیں۔ اسی طرح 70 فیصد فوٹو کاپی مشینیں، 70 فیصدکمپیوٹر کے مدر بورڈ،55 فیصد ڈی وی ڈی پلیئرز، 30 فیصد کمپیوٹرز، 25فیصد ٹی وی سیٹ اور20 فیصد گاڑیوں کے اسٹیریوز بھی چین میں تیار ہوتے ہیں۔ یہ چند ایک مثالیں ہیں کیونکہ مکمل فہرست بہت طویل ہے۔اتنے بڑے پیمانے پر صنعتی اور اقتصادی ترقی ہو رہی ہو تو پھر تیزی سے دولت مند طبقے کا وجود میں آنا لازمی ہے جسے معروف انگریزی اصطلاح میں From Rags to Riches کہا جاسکتا ہے، یعنی وہ لوگ جنہوں نے فرش سے عرش کا سفر بہت جلدی طے کر لیاہو۔
اس حیرت انگیز ترقی اور دولت کی فراوانی کا ہر پہلو خوشگوار نہیں۔ خاندان بٹ گئے ہیں، مڈل اور لوئر مڈل کلاس طبقہ آمدنی اور اخراجات کے دبائو کا شکار رہتا ہے کیونکہ خواہشات بڑھ گئی ہیں۔ اسی طرح خوشحالی اور دولت کی فراوانی نے کر پشن اور بگڑے ہوئے نواب قسم کے لوگ بھی پیدا کئے ہیں۔ ان پہلوئوں کا ذکر آئندہ کے کالموں میں آتا رہے گا لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیںکہ 1980ء تک غربت اور افلاس کا شکار چین بہت جلد اور ہمیشہ کے لیے تبدیل ہو گیا ہے۔ بے شک طبقاتی فرق موجود ہے اور رہے گا لیکن اس ترقی سے ملنے والی معاشی خوشحالی نے ہر ایک کو فائدہ پہنچایا ہے۔ چین سے غربت کا مکمل خاتمہ ابھی دور ہے اور کروڑوں لوگوںکو ابھی افلاس کی دلدل سے نکلنا ہے، لیکن تیز رفتار معاشی ترقی نے لوگوں کی بہت بڑی تعداد کو غربت سے نکال بھی لیا ہے۔ اتنے کم وقت میں جتنے لوگوں کے معاشی حالات بدلے ہیں اس کی انسانی تاریخ میں شاید کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ یہی بات تیزی سے دولت مند ہونے والے لوگوں کے بارے میں بھی کہی جاسکتی ہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں