مارچ کا مہینہ تو ختم ہوا لیکن سردی، گرمی اور بارش کی آنکھ مچولی نے ہم جیسے کراچی کے سیدھے سادے موسم میں پلنے بڑھنے والوں کو تگنی کا ناچ نچا دیا ہے۔ پورا شنگھائی شہرآہستہ آہستہ سبزے کی چادر تو اوڑھ رہا ہے لیکن باہر نکلتے ہوئے سمجھ نہیں آتی کہ کس موسم کی مناسبت سے کپڑے پہنے جائیں۔ گرم جیکٹ پہنو تو ذرا سی دیر میں گرمی لگنا شروع ہو جاتی ہے اور کسی دن ہلکے پھلکے کپڑے موبائل فون کے بتائے ہوئے درجۂ حرارت کے مطابق پہن لئے تو سرد ہوا مزا چکھا دیتی ہے۔بہر حال سردی کے یہ ناز و انداز اب زیادہ چلنے والے نہیں کیونکہ درجہء حرارت کبھی کبھار 20 ڈگری کے آس پاس پہنچ ہی جاتا ہے اور یوں اب سائیکل چلاتے ہوئے کوٹ، جیکٹ اور مفلر کے لوازمات میں سجا انسان خلا نورد (Astrouaut) لگنے کے بجائے دوبارہ اپنے نارمل حلیے میں آجاتا ہے۔ بہار اور اس کے ساتھ برسنے والی بارشوں کے دو ڈھائی ماہ گزرنے کے بعد گرمی نے اپنا جلوہ دکھانا شروع کر دینا ہے اور انہی گرمیوں کے خیال نے گزشتہ سال بیجنگ کے گر میوں کے محل (Summer Palace) میں گزرے ہوئے وقت کی یاد دلا دی ۔ بیجنگ شہر کے مرکز سے قریباً پندرہ کلو میٹر کے فاصلے پر واقع اس شاندار تاریخی اورتفریحی مقام کو شہنشاہوں کی ایک چھوٹی سی بستی سمجھ لیںجو چینی بادشاہت کی عظیم نشانیوں میں سے ایک ہے۔بیجنگ کی سیاحت کے دوران اس مقام کو بلا شبہ کسی بھی سیاح کی فہرست میں بہت نمایاں ہونا چاہیے۔ بیجنگ کے نواح میں واقع سمر پیلس گرمیوں کی شدت سے بچنے کے لئے شاہی خاندان کا ایک بے مثال تفریحی مقام تھا جہاں شہزادے, شہزادیاں اپنے بے شمار خادموں اور کنیزوں کے ہمراہ سخت گرمی کا موسم نسبتاً بلندی پر واقع اس پر فضا مقام پر گزارتے ۔ بیجنگ چین کے شمال میں ہونے کے باعث سردیوں میں بے انتہا سرد ہو جاتا ہے جہاں درجہء حرارت منفی آٹھ دس ڈگری تک چلا جاتا ہے لیکن یہاں کی گرمی بھی کم ستم نہیں ڈھاتی ۔ بس اسی گرمی سے بچائو کے لئے شاہی خاندان شہر کے مرکزی محلات سے اْ ٹھ کر اپنا پڑائو یہاں پر ڈال لیتے۔ اس مقام کی تعمیر چینی بادشاہت کے مشہور سلسلے چھنگ (Qing) کے بادشاہ چھیان لونگ نے سن 1750ء سے 1764ء کے دوران کی ۔ چھنگ بادشاہوں کو آپ چین کے مغل حکمران سمجھ سکتے ہیں۔سمر پیلس کے نام سے ہم نے یہی تاثر لیا تھا کہ ایک بڑا سامحل ہو گا جو دیو قامت فصیلوں اور دیواروں میں گھرا ہوا ہو گا اور ان سب روایتی چیزوں کودیکھنے کے لئے دو سے تین گھنٹے کافی ہوں گے لیکن یہ تاثر غلط اور دو تین گھنٹوں کا وقت ناکافی تھا۔ ٹیکسی کے زیادہ کرایوں سے بچنے کے لئے ہم نے بیجنگ میٹرو سے سفر کی ٹھانی جس نے فی بندہ صرف دو یو آن میں ہمیں سمر پیلس کے قریب ترین اسٹیشن تک پہنچا دیا ۔ شہر کے مرکز سے میٹرو ٹرین کا یہ سفر سستا اور دلچسپ تو رہا لیکن اس پون گھنٹے کی سواری کے دوران بیٹھنے کی جگہ نہ مل پائی۔ پیلس کے ٹکٹ خریدنے کے بعد محل کے درودیوار دیکھنے کے لئے اندر داخل ہو کر جونظر دو ڑائی تو یہ انکشاف ہوا کہ انتہائی وسیع و عریض رقبے پر پھیلا ہوا یہ عجوبہ چند محلات نہیں بلکہ ایک خوبصورت جھیل اور اس کے اردگرد چھوٹے بڑے پلوں، روایتی عمارات اورعبادت گاہوں پر مشتمل ایک پوری بستی ہے۔
آپ چین کے کسی بھی تاریخی اہمیت کے مقام یا قدیم گھروں کو دیکھیں تو ان کی تعمیر کو فطرت سے بہت ہم آہنگ پاتے ہیں۔ عمارتوں کے اطراف میں قدرتی حسن کو ایک خاص توازن سے رکھا جاتا ہے۔ جگہ جگہ کھلے صحن تالابوں , درختوں اور فواروں سے مزین ہوتے ہیں۔ راہداریوں کے ذریعے ہوا کے گزرنے کا قدرتی انتظام موجود ہوتا ہے۔ ان گھروں، عمارتوں اور باغات میں ایک خاص انداز کا ربط ہوتا ہے جو حیرت انگیز طور پر اعصاب کو بہت سکون پہنچاتا ہے۔ اس طرز تعمیر کے پیچھے مشہور چینی فلسفی کنفیوشس کی تعلیمات کا اہم کردار ہے جو فطرت سے ہم آہنگی پر بہت زرو دیتا تھا۔ سمر پیلس میں داخلے کے بعد شروع میں ہی بیٹھے مختلف اشیاء اور سوینیئرز فروخت کرنے والے اسٹالز کے رش سے گزر کر آپ جونہی آگے بڑھتے ہیں فطرت سے ہم آہنگ چینی فلسفہ اپنا رنگ دکھانا شروع کر دیتا ہے۔ سمر پیلس کو چینی زبان میں ای ہایوآن (Yihe Yuan) کے نام سے جان جاتا ہے جس کا مطلب ہی آرام وسکون والا باغ ہے۔ تین کلو میٹر پر محیط مصنوعی جھیل اس مقام کے ایک بڑے حصے پر پھیلی ہوئی ہے اور اس کے اطراف میں چھوٹے بڑے پل اور راہداریاں ہیں جو ہرے بھرے درختوں اور بکھری ہوئی خوبصورت روایتی عمارات سے سجی ہوئی ہیں۔ سمر پیلس کامرکزی مقام ایک پہاڑی ہے جسے Longevity Hill کے نام سے جانا جاتا ہے بتدریج بلند ہوتے اس حصے کی سیڑھیاں چڑھتے جائیں اور بالآخر جب آپ کا سانس پھول جائے اور فوراً پانی کی طلب ہو تو سمجھ جائیں کہ آپ اس کے سب سے بلند حصے اور مر کزی بْدھ ٹیمپل کے سامنے پہنچ چکے ہیں ۔ اس ٹیمپل کے اندر بْدھ مت کے انتہائی خوبصورت اور دیو ہیکل سنہری مجسمے ہیں جہاں اگر بتیاں جلاتے ہوئے سینکڑوں عقیدت مند نظرآتے ہیں۔ یہ اس پیلس کا سب سے بلند مقام ہے جہاںسے کھڑے ہو کر آپ ارد گرد کے مناظر اسی طرح دیکھ سکتے ہیں جیسے شکر پڑیاں سے اسلام آباد کا نظارہ کیا جاتا ہے۔
جہاں شاہی خاندانوں کی حیرت انگیز تعمیرات اور باغات کا ذکر ہو وہاں ان کی شاہانہ زندگی سے متعلق رنگین قصے نہ ہوں یہ ممکن نہیں۔ مشہور ہے کہ سمر پیلس کی خوبصورت جھیل (Kunming Lake) میں روایتی کشتیوں پر سواربادشاہ اور ان کے حرم کی کنیزیں جھیل کے کناروں پر خصوصی دکانوں سے قیمتی اشیاء خریدتی تھیں ۔ یہ خریداری محض ایک دکھاوا ہوتی کیونکہ پوری مارکیٹ ہی شاہی خاندان کی ملکیت تھی یعنی مفت کی شاپنگ محض تفریح طبع کے لئے ہوتی۔ پیلس کی اونچی نیچی راہداریوں، سر سبز اطراف میں چہل قدمی کر تے ہوئے اس کی منصوبہ بندی کرنے والوں کو داد دینی پڑتی ہے۔ جگہ جگہ بکھری عمارتوں میں شاہی خاندان کی رہائش گاہوںکے علاوہ دفتری امور سے متعلق بھی جگہیں موجود تھیں جہاں بادشاہ سلامت یا ملکہء عالیہ سرکاری امور بھی سر انجام دیتے۔ جس طرح بعض لوگ بھلی صورت پر صرف بری نگاہ ہی ڈالتے ہیں اسی طرح یہ خوبصورت مقام بھی چینی بادشاہوں اور مغربی اقوام کے درمیان ہونے والی جنگوں میں تاراج ہوا۔ برطانوی اور فرانسیسی دستوں نے کمزور پڑتی چینی بادشاہت سے مقابلے کے دوران اس جگہ کا گھیرائو جلائو اور لوٹ مار کی۔ بادشاہت کے زوال کے دنوں میں اس کی تعمیر نومشہور چینی ملکہ سی شی(Ci Xi) کے عہد میں ہوئی جس نے ایک طویل عرصے چین پر حکمرانی کی۔ ملکہ نے اس مقام پر نہ صرف مستقل ڈیرے ڈال لیے تھے بلکہ سرکاری معاملات بھی یہیں سے دیکھتی جس کے باعث یہاں ملکہ کی تفریح و طبع کے لئے روایتی تھیٹر کی عمارت سے لے کر ہر طر ح کی آسائش کا انتظام موجود تھا۔زوال کے ان دنوں میں بھی اس جگہ کی دیکھ بھال پر بھاری اخراجات جاری رہے جو بالآخر ملکہ کی موت اور اس کے چند برس بعد ہی 1912ء میں بادشاہت کے مکمل خاتمے کے ساتھ اپنے انجام کو پہنچے۔
سمر پیلس کی خوبصورتی اور تاریخی اہمیت نے اسے دنیا کے بہترین سیاحتی مقامات میں سے ایک کا درجہ دلا دیا ہے۔ بادشاہتیں جہاں کی بھی رہی ہوں شان وشوکت کے اظہار کے لئے بادشاہوں نے کئی عجوبۂ عالم تعمیرات کیں اور اس معاملے میں چینی بادشاہوں نے تو اس فن کو کمال تک پہنچا دیا۔ اپنے عروج کے زمانوں میں انہوں نے اپنے لا محدود اختیارات کو بھر پور طریقے سے استعمال کیا اور رعایا سے ایسے ایسے کام کروا لئے کہ آج بھی ان کی نشانیاں حیرت زدہ کر دیتی ہیں۔ قدیم چینی بادشاہت کو اس معاملے میں اگر دنیا بھر کے شاہی خاندانوں کا باس قرار دیا جائے تو کچھ زیادہ غلط نہ ہو گا۔ اس مو قع پر اس بات کا اظہار بھی ضروری ہے کہ ان مقامات کی دیکھ بھال اور مسلسل مرمت کے ذریعے ہی انہیں اس قابل رکھا جاتا ہے کہ لاکھوں قدم یہاں پڑیں لیکن جگہ کی خوبصورتی اور اہمیت متاثر نہ ہو ۔اس کے ساتھ ہی اس تاریخی عہد کی تھیٹر اور ڈراموں کے ذریعے عام لوگوں تک تفریح اور معلومات پہنچانے کا بھی بندوبست کرنا ضروری ہوتا ہے۔ ان معاملات میں چینی حکام بہت مستعد ہیں۔ سمجھ لیں جو خرچہ بادشاہ ان جگہوں کی تعمیر پر کر گئے، موجودہ حکمران وہ رقم معہ سود وصول کر رہے ہیں۔