بینکوں سے میرا پہلا واسطہ بجلی یا گیس کے بل جمع کروانے کے لئے ان کے باہرلمبی قطاروں کی صورت میں پڑا۔ ایک طویل لائن میں لگے ہوئے بوریت کا ایک ایک لمحہ کاٹتے ہوئے اْس وقت تو مزید کوفت ہوتی تھی جب ایک موٹر سائیکل آکر رکتی اور اس میں بیٹھے جوڑے میں سے خاتون جلدی سے اْ تر کر عورتوں والی لائن میں فٹا فٹ اپنا بل جمع کروا دیتی جب کہ موٹر سائیکل والے انکل مردوں کی طویل قطار کو دیکھ کر بے نیازی سے سیٹی بجاتے یا اپنی بائیک کے شیشے میں دیکھ کر بال درست کرتے رہتے۔ بعض اوقات تو خواتین کی قطار اتنی مختصر ہوتی کہ موٹر سائیکل کا انجن بند کر نے کی نوبت بھی نہیں آتی۔ گو کہ اب وہ بینک نہیںرہے جہاں آپ کو گھنٹوں لگانے پڑیں لیکن پھر بھی میری تو کوشش ہوتی ہے کہ بینک کے اندر اسی صورت میں جائوں جب اے ٹی ایم مشین سے لے کر آن لائن بینکنگ تک کے سارے طریقے جواب دے جائیں۔ بینک کیسے چلتے ہیں ؟ کیا کرتے ہیں؟ بلکہ ہوتے ہی کیوں ہیں ان سب میں میری دلچسپی واجبی سی ہے ۔ بہرحال بینکوں نے اب ہمارے مالی معاملات اس طرح اپنے ہاتھوں میں لے لئے ہیں کہ ان کے بغیر گزارا نہیں اس لئے ان سے نبھائے بناء رہا بھی نہیں جا سکتا ۔ اس سے پہلے کہ کوئی بینکر یہ سب پڑھ کر سوچے کہ دلچسپی نہیں تو اتنا ذکر کس بات کا تو یہ بتاتا چلوںکہ حال ہی میں چینی حکومت نے ایک ایسے بینک کی بنیاد رکھ دی ہے جس میں مجھے اپنی دلچسپی کا بہت سامان نظر آیا‘ باوجود اس کے کہ نہ تو میرا اکائونٹ وہاں کبھی کھل سکتا ہے اور نہ ہی مجھے وہاں سے قرضہ ملنے کی اْ مید ہے۔
یہ تو اب ایک کھلا راز ہے کہ چین ایک کمائو پوت ملک بن گیا ہے جس کی جیب میں امریکہ بہادر کے بعد سب سے زیادہ نوٹ پائے جاتے ہیں۔ محنت کی اس کمائی نے چین کو مالدار کیا تو انہوں نے سوچا کہ اب ورلڈ بینک اور ایشین ڈیویلپمنٹ بینک ٹائپ کے اداروں کے مقابلے پر ایک اور ایشین بینک بنایا جائے جو ایشیا کے ممالک میں ترقی کے منصوبوں کے لئے سرمایہ فراہم کرے۔ بس اس منصوبے کی خبر عام ہوتے ہی بہت سے ممالک اس کے بانی رکن بننے کی درخواستیں لئے حاضر ہوگئے جن میں پا کستان بھی شامل تھا۔ چینیوں نے بڑی خوشدلی سے سب کو خوش آمدید کہنا شروع کیا تو امریکیوں کے ماتھے پر بل پڑنا شروع ہوگئے کہ ہمارے لاڈلے بینکوں کے ہوتے ہوئے ایک نئے بڑے بینک کی کیا ضرورت پڑ گئی۔ سونے پہ سہاگہ یہ ہوا کہ برطانیہ نے بھی اس کی بانی رکنیت کے لئے درخواست دے ڈالی اور امریکی یہی کہتے رہ گئے کہ جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے۔ یو رپین اسٹڈیز کے ایک چینی پروفیسر کے بقول انگریزوں کے لئے کاروبارپھر کاروبار ہے اور ایشین انفرااسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک جسے (AIIB) کہا جا رہا ہے ایک مزیدار پھل کی طرح ہے تو یورپینز اور برطانوی کیوں نہ اس پھل کو چکھیں۔ حالات کا یہ رْخ دیکھ کر امریکیوں نے بھی نئے بینک کے خیال کو خوش آمدید کہہ تو دیا ہے لیکن سچ تو یہ ہے کہ ورلڈ بینک‘ آئی ایم ایف اور ایشین ڈیویلپمنٹ بینک کے ذریعے امریکہ کی دنیا میں بالا دستی کو پہلی بار ایک بڑے چیلنج کا سامنا کر پڑ سکتا ہے۔
ایشین انفرا اسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک(AIIB) ایک ایسا ادارہ بننے جا رہا ہے جس نے نہ صرف ایشیا بلکہ پوری دنیا میں معیشت اور اقتصادی ترقی کا کھیل ہی بدل کر رکھ دینا ہے یعنی یہ ایک بڑاگیم چینجر (Game Changer) ثابت ہو گا۔ اس بینک کا ابتدائی سرمایہ پچاس ارب ڈالر ہو گا جبکہ فی الحال کْل سرمائے کی حد ایک سو ارب ڈالر رکھی گئی ہے اور اسی سال یعنی 2015ء کے آخر تک اس بینک کا سیٹ اپ مکمل ہوجائے گا۔ اس بینک کا مرکزی دفتر بیجنگ سے کام کرے گا اور ایشیا کے ممالک کو اپنے بڑے تعمیراور ترقی کے منصوبے مکمل کرنے کے لئے بھاری سرمایہ کاری کی سہولت مل جائے گی۔ اب تک دنیا بھر میں ورلڈ بینک اور ایشیا میں ایشین ڈیویلپمنٹ بینک ہی وہ ادارے تھے جو اتنے بڑے پیمانے پر قرضہ فراہم کر تے تھے اور ان سب اداروں پر امریکہ اور مغربی یورپ کے ممالک کا کنٹرول ہے۔ ایشین ڈیویلپمنٹ بینک میں ان ممالک کے علاوہ جاپان کا کردار بھی بہت اہم ہے۔ چینی قیادت میں بننے والے ا س نئے بینک کی وجہ سے ان اداروں کو‘ جو برسوں سے دنیا کی معیشت کنٹرول کر رہے تھے‘ ایک مضبو ط حریف کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس صورتحال میں امریکی سیکریٹری خزانہ جیک لیو نے اس بینک کے قیام‘ چلانے کے طریقے اور شفافیت وغیرہ کے حوا لے سے کئی شکوک وشبہات کا اظہار کیا جو بحیثیت پاکستانی میرے لئے بالکل بھی وزن نہیں رکھتے کیونکہ ہمیں تو آج تک یہ نہیں پتا کہ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی ڈوریاں ہلانے والے کتنے شفاف یا غیر سیاسی ہوتے ہیں۔ بہرحال ہوا کا رخ دیکھ کر امریکیوں نے اپنا رویہ تبدیل کیا ہے۔ امریکی سیکریٹری خزانہ جیک لیو نے بیجنگ میں چینی وزیر اعظم لی کھا چھیانگLi Keqiang) ( سے ملاقات میں بینک کے ساتھ مل کر( ممبر نہیں) کام کرنے کی خواہش کا اظہار کیا جو کتنی نیک ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا البتہ چینی قیادت اس معاملے میں یورپ اور امریکہ کو ساتھ لے کر چلنے کی خواہش مند ہے۔ ویسے بھی چینی غیر ضروری خدشات میں نہیں پڑتے کیونکہ اس طرح کے بڑے کاموں کے لئے ان کا ہوم ورک بہت مضبوط ہوتا ہے۔ 31 مارچ اس بینک کے بانی ممبران میں شامل ہونے کی در خواست دینے کی آخری تاریخ تھی اور یکم اپریل تک 46 ممالک درخواستیں دے چکے ہیں۔ پاکستان پہلے دن سے اس بینک کے قیام کی یادداشت پر دستخط کر چکاہے اور ساتھ ہی بھارت نے بھی اسی دن اس منصوبے میں شمولیت کی ہامی بھری۔ ایشیا کے علاوہ یورپ سے برطانیہ‘ جرمنی‘ اٹلی‘ فرانس اور سویڈن وغیرہ بھی اس فہرست میں شامل ہو چکے ہیں۔ اسی طرح روس‘ آسٹریلیا‘ جنوبی کوریا اور برازیل نے بھی اس بینک میں شمولیت کا اعلان کر دیا ہے جس کے بعد توقع یہ ہے کہ اپریل کے آخر تک بانی ممبران کی فہرست مکمل ہو جائے گی جو اپنی اپنی معیشتوں کے سائز کے مطابق اس بینک میں اپنا حصہ ڈالیں گے۔ اس بینک کے قیام سے چین ایک عالمی لیڈر کی حیثیت سے اپنا کردار اور بھرپور طریقے سے ادا کر سکے گا اور بندر گاہوں‘ موٹر ویز‘ ریل نیٹ ورکس اور ڈیمز سے لے کر نجانے ترقی کے کون کون سے منصوبے پر اس کی مہر ثبت ہوگی۔ امریکی اجارہ داری والے نہایت تجربہ کار عالمی اور ایشین ڈیویلپمنٹ بینک کی موجودگی میں چین کی قیادت میں نیا ایشین انفرا اسٹرکچر بینک (AIIB) اپنا وجود کیسے منوائے گا اس کا علم تو آنے والے چند برسوں میں ہو ہی جائے گا لیکن یہ بات یقینی ہے کہ اس کی موجودگی مختلف ممالک میں ترقی کی رفتار میں بے پناہ اضافہ کر دے گی۔ بڑے بینکوں کی اس دوڑ میں غریب ملکوں کو شاید قرضے اب آسانی سے مل سکیں بس ایسا سمجھ لیں جیسے نت نئی موبائل کمپنیوں کی مقابلے بازی میں گاہک کا کچھ بھلا ہو جاتا ہے تو شاید کچھ اسی طرح ترقی پذیر معیشتیں بھی نرم شرائط پر قرضے حاصل کر سکیں۔ اسی دوران سب پاکستانی حیرت اور خوشی سے دیکھ ہی رہے ہیں کہ چینی صدر کے حالیہ دورے میں پاکستان کے ساتھ اربوں ڈالرز کے منصوبے شروع کئے جا رہے ہیںاوراس دورے کی تفصیلات چین کے ہربڑے اخبار کے صفحہء اول پر شائع بھی ہو چکی ہیں۔ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمار ا پڑوسی ملک اب ایک ایسی معاشی طاقت بن چکا ہے جو نہ صرف پاکستان بلکہ پورے ایشیا میں ایک عظیم الشان اسٹرکچر کھڑا کررہا ہے۔ جہاں ہم چین کے تعاون پر خوشی سے پھولے نہیں سما رہے وہاں یہ بات ذہن میں رکھیں کہ اب آستینیں چڑھا کر کام کرنے کا وقت آگیا ہے اور لڑنے کا دور تمام ہوا۔ نہ چینی ہمیں مال مفت دے رہے ہیں اور نہ ہم دل بے رحم بن کر اسے اْڑا سکتے ہیں ۔ ویسے چینی بھی اس معاملے میں خوش قسمت ہی ٹھہرے ہیں کہ ہم باقی دنیا سے جو بھی معاملہ کریں چینیوں سے ہمیشہ بڑے اخلاص سے پیش آئے ہیں جس کا صلہ بھی مل رہا ہے۔