ویسے تو زندگی کی کافی بہاریں دیکھ لی ہیںلیکن اس سال بہار کا موسم شروع ہوتے ہی چین کے صوبے جیانگ سو (Jiangsu) کو دیکھنے کا اپنا ہی لطف رہا۔ شنگھائی کے شمال میں واقع‘ رقبے میں تویہ ایک چھوٹاصوبہ ہے لیکن اپنی خوبصورتی اور ترقی میں اسے چین کا صف اول کا صوبہ سمجھا جا سکتا ہے۔ جیانگ سو ایک انتہائی اہم ساحلی پٹی بھی رکھتا ہے جہاں سے آپ سمندر کے راستے کوریا کے ساحلوں کو چھو سکتے ہیں ۔ دریائو ں کی گزر گاہ اور وسیع و عریض تازہ پانی کی جھیلوں سے مالا مال یہاں سفر کے دوران آپ کو تا حد نگاہ ہریالی ہی دکھائی دے گی۔ خوش قسمتی سے حالیہ دنوںمیں اس صوبے کے دو انتہائی خوبصورت شہروں کی سیر کے مواقع ملے۔ پہلا سفرشنگھائی سے کوئی تین گھنٹے کی ڈرائیو پر واقع تھائی چو (Thaizhou) نامی ایک شہر تھا جہاں کے سالانہ چھن تھونگ بوٹ فیسٹیول (Qintong Boat Festival) کی رنگا رنگ افتتاحی تقریبات دیکھیں۔ عام تاثر تو یہی ہے کہ جب آپ ایک بڑے چمکتے دمکتے شہر سے اندرون ملک کا رخ کریں تو تعمیر و ترقی کے مناظر کم ہوتے جاتے ہیں لیکن یہ سفر ایسا نہ تھا۔ کشادہ سڑکوں پر اپنے گرد ہری بھری آبادیوں سے گزرنے کے دوران جگہ جگہ بلند وبالا عمارات اور صنعتی علاقے بھی نظر آتے رہے۔ قریب گزرتے دیہات کے گھروں کی چھتوں پر سورج کی روشنی سے چلنے والے سولر انرجی پینلز (Solar energy panels) بھی نصب تھے جن سے مقامی رہائشی محدود پیمانے پر توانائی کی ضرورت پوری کرتے ہیں۔
تھائی چو میں واقع وسیع و عریض جھیل کے کنارے اس بوٹنگ فیسٹیول کی افتتاحی تقریب میں ہزاروں افراد شریک تھے۔ ایک ہزار سال کی روایت رکھنے والے اس فیسٹیول میں اردگرد کے علاقوں اور قصبوں کے لوگ روایتی شوخ رنگوں والے ملبوسات میں کشتیوں پر چپو تھامے موجود تھے۔ اس مسحور کن تقریب کے افتتاح کے موقعے پر واٹرسپورٹس کے شاندار مظاہرے کے بعد روایتی سجا وٹ والی کشتیاں ایک ترتیب سے گزرتی رہیں جن کا لوگ تالیاں بجا کر خیر مقدم کرتے۔ چار سو کے لگ بھگ کشتیوںمیں فی کشتی اوسطاٌ چالیس سے پچاس مرد و خواتین ایک ساتھ چپو چلارہے تھے ۔ تھائی چو شہر کے مئیر سمیت کئی حکومتی اور کاروباری شخصیات یہاں موجود تھیں۔ اندازے کے مطابق یہ فیسٹیول تین لاکھ سیاحوں کو اس شہر میں لے آتا ہے ۔ یہ ان منتخب شہروں میں شامل ہے جو چین کی اوپن ڈور پالیسی یعنی آزادانہ تجارت‘کاروبار اور سیاحت کے لئے اپنا انفراسٹرکچر تعمیر کر رہا ہیـ۔ شہر میں نئے انڈسٹریل پارک اور جدید رہائشی ٹاورز کے ساتھ چوڑی شاہراہیں ایک جیو میٹریکل ترتیب کے ساتھ بن چکی ہیں اور متعدد منصوبے جاری ہیں جن کی جدت اور خوبصورتی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ مقامی میزبانوں نے یہاں کے کئی صنعتی منصوبوں کے بارے میں بتایا اور حقیقت تو یہ ہے کہ ان کے بتانے سے زیادہ تو کھلی آنکھوں سے اتنا کچھ نظر آ رہا تھا کہ اگر کچھ نہ بھی کہا جاتا تو کافی تھا۔ صاف پتا چل رہا تھا کہ ایک سائنسی انداز میں پرانے شہر کے ساتھ ایک پورا نیا اور جدید شہر کھڑا کیا گیا تھا جہاں بہترین عمارات‘ فائیو بلکہ شاید سکس سٹار ہوٹل‘ گولف کورس اور مختلف انڈسٹریل اور کمرشل زونز وجود میں آچکے ہیں۔ شہر کی انتظامیہ, مقامی کمیونسٹ پارٹی کی لیڈر شپ اور کاروباری ادارے مل کر اس شہر کو سنوار رہے ہیں تاکہ سیاح بھی آئیں اور سرمایہ کار بھی یعنی(Business with pleasure) کی جیتی جاگتی تصویر۔
اسی طرح یکم مئی کی چھٹی جمعے کو ہونے کی وجہ سے تین دنوں کے لانگ ویک اینڈ کا فائدہ اْ ٹھاتے ہوئے' جیانگ سو‘ ہی کے ایک اور خوبصورت شہر سو چھیان (Suqian) کو بھی دیکھنے کا موقعہ ملا ۔ اس شہر تک پہنچنے کے لئے پہلے ڈھائی گھنٹے کا سفر ہائی سپیڈ ٹرین میں کیا جس نے تین سو کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ہمیں شو چو(Shuzhou) شہر کے جدید اسٹیشن پر اْ تارا جہاں سے سوچھیان شہر تک موٹر وے کاسفر تقریباٌ ڈیڑھ گھنٹے پر محیط تھا۔ یوں چار گھنٹے کا سفر کر کے جب ہم اس شہر میں داخل ہوئے تو وہی منظر سامنے تھا۔ نئے صنعتی زون اور جدید تعمیرات سے مزین چوڑی سڑکیں اور اردگرد سبزہ اور پرسکون جھیلیں۔ اب ذرا تصور کریں کہ چین کاوہ شہر جو شاید پنجاب میں ساہیوال یا جھنگ‘ سندھ میں ٹنڈو آدم یا روہڑی‘ خیبر پختونخوا میں مردان اور بلوچستان میں خضدار ٹائپ کے شہروں کے برابر ٹھہرتا ہو‘ ایک ایسے جدید لینڈ سکیپ کی شکل اختیار کر رہا ہے کہ آنکھیں دنگ رہ جاتی ہیں۔ ہماری مقامی میزبان نے بتایا کہ یہ شہرجو کبھی ایک عام سا قصبہ تھا‘ ہر وقت سیلابوں کی زد میں رہتا تھا۔ کئی مواقع پر تو پورا علاقہ ڈوب جاتا تھا۔ سیلابی آفتوں کا شکار یہ علاقہ اب پھولوں کے شہر سے جانا جاتا ہے اور ہمارے یہاں آنے کا مقصد بھی کئی کلو میٹرپر پھیلے رنگ بر نگے پھولوں کے ایک پارک کو دیکھنا تھا جسے ہزاروں محنت کشوں اور مالیوں کی ٹیم نے چند ہفتوں میں تیار کر ڈالا تھا۔ سو چھیان اب چین کے ماڈل شہروں میں سے ایک ہے۔ یہاں بھی بالکل وہی ماسٹر پلان ہے جس کا مشاہدہ دوسرے شہروں میں ہوا یعنی پرانے شہر کے ساتھ ایک جدید شہر یا ضلعے کی تعمیر جہاں انڈسٹریل پارکس‘ بلند و بالا رہائشی عمارات اور تفریح گاہیں سب موجود ہیں۔ پرانے شہر کو دیکھتے ہوئے جہاں اب بھی ڈبہ نما رکشے چل رہے تھے ایسا لگا کہ جیسے اس قصبے نے صدیوں کی ترقی کا سفر سالوں میں طے کر لیا ہے۔ شہر کے میوزیم میں دوسری منزل سے کھڑے ہو کر نیچے جدید تھری ڈی فلم سے جب شہر کا موجودہ اور مستقبل کا لینڈسکیپ نمودار ہوتے دیکھاتو ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے کسی ہیلی کاپٹر میں سوار ہو کر فضائی نظارہ کیا جا رہا ہے۔
ان دو ماڈل شہروں کے اس خوش کن نظارے کے پیچھے بہت محنت اور منصوبہ بندی شامل ہے۔ جو لوگ دن رات کام کر کے یہ شہر کھڑے کر رہے ہیں ان کی زندگیاں اتنی رنگین نہیں ہیں جتنے یہ شہر دلکش نظر آتے ہیں۔ مقامی انتظامیہ اور کاروباری ادارے سرمایہ کاری اور سیاحت کے فروغ کے لئے ایک مستعد نجی ادارے کے لوگوں کی طرح کام کرتے ہیں۔ تعمیر وترقی کے منصوبے, ان کی دیکھ بھال اور باہر کے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے جہاں صنعتی ادارے مصروف ہیں‘وہاں علاقے کی خوبصورتی اور ثقافت کو دلکش رنگ دے کر بھی ان علاقوں کی مارکیٹنگ کی جاتی ہے ۔ ترقی کا یہ ماڈل دیکھنے میں بہت سادہ لیکن عمل کے لحاظ سے بہت محنت طلب ہے۔ مختلف علاقوں‘ قصبوں کو منتخب کر کے اتنا بڑا انفراسٹرکچر بنانے اور انہیں تجارتی طور پر کامیاب بنانے کے لئے بہترین افرادی قوت بھی تیار کی جاتی ہے۔ جب ایک کامیاب ماسٹر پلان کے نتیجے میں اداروں میں بڑے منصوبوں کے لئے صلاحیت اور استعداد (Capacity) بن جاتی ہے اور ایک عملی ماڈل تیار ہو جاتا ہے تو اس پر دوسرے نئے علاقوں میں عملدرآمدآسان اور تیزی سے ہو سکتاہے۔ اس کی واضح مثال پاکستان کا ایک نجی تعمیراتی ادارہ ہے جس نے حال ہی میں کراچی‘ کلفٹن کے علاقے میں جدید انڈر پاس اور سڑکیں بہت کم عرصے میں مکمل کردیں۔ یہ سب اسی وقت ممکن ہوا جب تعمیراتی شعبے کے بڑے پراجیکٹس نے ادارے کی استعداد اور افرادی قوت کو تیار کر دیا, جو یقینا برسوں کے تجربے کا نتیجہ ہے۔
وسیع و عریض جھیلوں,پھولوںاور جدید زراعت و صنعت کے اس ماڈل شہر سے واپس گھر پہنچنے پر جیسے ہی پاکستانی چینلز پر نظر ڈالی تو چند ایک منفی اور مایوس کن خبریں دیکھتے ہوئے یہ خیال آیا کہ تصویر کا ایک اور رخ بھی پیش کر دیا جائے ۔ چین کی یونیورسٹیوں میں سینکڑوں پاکستانی طلباء و طالبات چینی حکومت کے فراخدلانہ وظائف پر پی ایچ ڈی کرنے آچکے ہیں اور آنے والے دنوں میں یہ تعداد بڑھنی ہے۔ عام متوسط طبقے کے یہ لڑکے اور لڑکیاںاس نا مانوس ماحول میں بھی پاکستان کا نام تھامے ہوئے ہیں اور پورے ملک سے آتے ہیں۔ اسی طرح پاکستانی کمپنیاں تجارتی میلوں (Trade Exhibitions) میں اپنے سٹال سجاتی ہیں اور حال ہی میں شنگھائی میں ہونے والی دو بڑی نمائشوں میں اپنے وجود کا بھر پور احساس دلا چکی ہیں۔ یہی عام اور کام کے پاکستانی‘ مایوسی کے اس ماحول میں بھی اْ مید کی کرنیں ہیں اس کو بھی بریکنگ نیوز ہی سمجھیں!