دیگ میں انڈا تلنا

اس کالم کا عنوان کافی عرصہ پہلے زبان سے بے اختیار نکلنے والے ایک جملے کا نتیجہ ہے ۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ گپ شپ کے دوران ایک دوست پر یہ جملہ کس دیا جو معمولی سے کام کے لئے بھی بہت تیاری اور سو چ بچار کرتا ہے‘ چاہے اس کی ضرورت ہو نہ ہو ۔ مثال کے طور پر ایک عام سی کاروباری میٹنگ جو چھوٹے موٹے معاملات کے بارے ہو‘ سارے اسٹاف سے اس طر ح کام لیناکہ جیسے کروڑوں اربوں روپے کی ڈیل ہونے جا رہی ہو۔ بس اسی طرح کے کئی ایک واقعات کو یاد کرتے ہوئے یہ جملہ نکل گیاکہ یار تم تو ہر وقت دیگ میں انڈا تلتے رہتے ہو ۔ عین ممکن ہے یہ فقرہ میں نے پہلے کہیں سنا یا پھرپڑھا ہو اور اس کے نتیجے میں لاشعور سے نکل کر زبان پر آیا ہو ۔ اگر ایسا نہیں تو پھر اس کے پہلی بار استعمال کا سہرا میں بخوشی باندھنے کو تیا ر ہوں‘ بشرطیکہ کوئی پہنانے پر بھی تیار ہو ۔ اس سے ملتے جلتے کچھ مستند محاورے مثلاً 'رائی کا پہاڑ بنا دینا‘ یا 'کھودا پہاڑ نکلا چوہا‘بھی ہیں جن کا شاید دیگ میں انڈا تلنے والا مطلب تو نہ نکلے لیکن فی الحال قریب ترین تو یہی نظر آتے ہیں۔ اب آپ لوگ اپنے اردگرد بہت سے لوگوں اور منصوبوں کو دیکھ کر یہ جملہ جب چاہیں استعمال کر یں ویسے بھی وطن عزیز میں بہت دیگیں مل جائیں گی جن میں انڈے تلے جارہے ہیں۔ اس سے پہلے کہ مکتوب شنگھائی کا کالم مکتوب اْ ردو زبان وبیان ہو جائے جو اْردو زبان پر ظلم ہوگا‘ اپنے اصل موضوع پر آجاتے ہیں جو چینی زبان کی بعض نئی اور دلچسپ اصطلاحات کے بارے میں ہے ۔ ان کو جاننے سے یہاں کی معاشرتی زندگی کو سمجھنے میں شاید کچھ مدد مل سکے۔
بدلتے چینی معاشرے اور رہن سہن کے طریقوں نے چینی زبان میں بھی بعض دلچسپ فقروں کو جنم دیا ہے ۔ لوگ معاشی طور پر بہتر اور آزاد تو ہوتے جا رہے ہیں لیکن ہر کوئی اتنا ذمہ دار بھی نہیں ہوتا۔ ایک اصطلاح یوئے گوانگ زو (Yue guang zu) ان فضول خر چ لوگوں کے بارے میں استعمال ہوتی ہے جو اپنی آمدنی مہینے کی آخری تاریخوںسے پہلے ہی ختم کر دیتے ہیں یا دوسرے الفاظ میں اْ ڑا دیتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ نئی تنخواہ سے پہلے انہیں اْ دھار کی ضرورت پیش آتی ہے جو یہاں ملنا بہت ہی مشکل کام ہے۔ 'یوئے گوانگ زو ‘میں وہ لوگ شامل نہیں جو اپنی قلیل آمدنی کی وجہ سے مشکلات کا شکار رہتے ہیں بلکہ اس جملے کا نشانہ وہ لوگ ہیں جو اپنی ضروریات اور خواہشات میں فرق کرنا نہیں جانتے۔ یہ تو خیر وہ لوگ ہیںجو کچھ کماتے ہیں لیکن خرچ کرنے میں احتیاط سے کام نہیں لیتے۔ ایک قسم ان سے بھی اوپر کے استاد لوگوں کی ہے جن کو کھن لائو زوKen lao zu) ( کہا جاتا ہے۔ یہ لاڈلوں کی وہ قسم ہے جو کام کاج کرنے کے بجائے اپنے بڑوں یعنی والدین یا پھر دادا ‘ نانا ئوں تک سے رقم مانگ کر زندگی گزارنے کو تر جیح دیتے ہیں۔ میرے تجربے میں تو اب تک کوئی' کھن لائو زو ‘ ٹائپ کا کاہل چینی نہیں گزرا جو اپنے بڑوں کی رقم پر ہی جی رہا ہو لیکن اس فقرے کی موجودگی کا مطلب ہے کہ ایسے لوگ بہرحال موجود ہیں ۔ چینی والدین اپنے بچوں (جن کی ایک بڑی تعداد اکلوتوں پر مشتمل ہوتی ہے)کی مالی ضروریات پوری کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی طرح ان بچوں کی دادی ‘ نانیاں بھی واری صدقے جاتی رہتی ہیںاس لئے کچھ کا 'کھن لائو زو ‘ بن کر ان سے ناجائز فائدہ اٹھانا عین ممکن ہے۔ ویسے اس قسم کی ہمارے ہاں بھی کمی نہیں بلکہ اگر آبادی کے تناسب سے دیکھا جائے تو شاید ہم اس میںچینیوں سے کچھ آگے ہی ہوں‘ خصوصاً ان والدین کے بچے جو' رزق حلال عین عبادت ہے‘ والے نوٹ دونوں ہاتھوں سے سمیٹتے ہوں۔
اب بات ذرا اْن بے چاروں کی بھی ہو جائے جو نہ تو فضول خرچ ہیں اور نہ ہی اپنے بڑوں سے پیسے بٹورنے کی عادت رکھتے ہیں لیکن ایک اور مصیبت کا شکار رہتے ہیں۔ فانگ نیو ) (Fang nu اْن لوگوں کو کہا جاتا ہے جن کی ساری زندگی اپنے مکان کی قسطیں دیتے ہی گزر جاتی ہے اور اسی لئے اس اصطلاح کا مفہوم ہے مکان کے غلام۔ پراپرٹی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے بیک وقت رقم دے کر مکان خریدنے یا بنانے کا تصور ہی ختم کر دیا ہے اس لئے گھر کے قرضے جنہیں عرف عام میں (House Mortgage) بھی کہا جاتا ہے کی قسطیں ایک طویل عرصے تک ادا کرنی ہوتی ہیں۔ ویسے میرے مشاہدے کے مطابق نئی چینی نسل کے لئے مکان کی ملکیت پہلی تر جیح نہیں رہی ہے۔ اگر والدین کی طرف سے مل گیا تو ٹھیک ہے ورنہ عمدہ کپڑے‘جوتے‘ ہینڈ بیگز‘ جدید ترین موبائل فون کے ماڈلز اور کاریں نئی
نسل خصوصاً شہری آبادی کی اہم ترین ترجیحات میں شامل ہیں۔ بہرحال وہ لوگ جو مکان یا فلیٹ کی ملکیت چاہتے ہیں وہ طویل عرصے تک اس کی قسطیں دیتے دیتے فانگ نیو کی کیٹگری (Category) میں شامل ہو جاتے ہیں۔ اسی سے ملتی ہوئی اصطلاح ای زو (Yi zu) ہے یعنی وہ لوگ جو بہتر معاشی مواقع کی تلاش میں بڑے شہروں کا رخ کرتے ہیں اور تنگدستی یا مہنگی رہائش کے باعث چھوٹے چھوٹے کمروں میں بیک وقت کئی لوگوں کے ساتھ گزارا کرتے ہیں۔ جو لوگ دبئی ‘ ہانگ کانگ ‘ ٹوکیویا سنگا پور وغیرہ میں سے کسی ایک بھی جگہ سے اچھی طرح واقف ہیں انہیں' ای زو ‘کا مطلب بخوبی سمجھ آجائے گا۔ چین کے بڑے تجارتی شہروں میں بھی ورکنگ کلاس کو انہی حالات سے گزرنا پڑتا ہے بلکہ بعض اچھا خاصا کمانے والے بھی بچت کر نے کے لئے 'ای زو‘ بن کر رہنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ پاکستان کے وہ لوگ جو بڑے گھروں کی نعمت سے لطف اندوز ہو رہے ہیں یہ پڑھ کر شکرانے کے نفل پڑھ لیں ۔
کتابی کیڑے ان لوگوں کو سمجھا جاتا ہے جو ہمہ وقت کتابوں کو پڑھنے میں مشغول رہتے ہیں لیکن اب کتابی سے زیادہ کمپیوٹر کے کیڑے پائے جاتے ہیں۔ وہ لو گ جنہوں نے کمپیوٹر اور انٹر نیٹ کے استعمال کو ہی دن رات کا اوڑھنا بچھونا بنا رکھا ہو'وانگ چھانگ‘ ( Wang Chang)کے اعزاز سے نوازے جاتے ہیں۔ ' وانگ چھانگ‘ لوگوں کی زندگی اپنے کمپیوٹر کی اسکرینز کے گرد ہی گھومتی ہے۔یہ عادتیں بھی ایک خاص طرح کا غیر سماجی (Anti Social)رویہ پیدا کرنے کا سبب بنتی ہیں جس میں لوگ تنہائی پسند یا آدم بیزار ہو جاتے ہیں۔ تنہائی پسند اور ہر وقت گھر میں رہنے والے مردوں کو چی نان(Zhi Nan) اور عورتوں کو چی نیو(Zhi Nu) کا لقب دیا جاتا ہے جو یقینا اچھے معنوں میں استعمال نہیں ہوتا۔ اب اس عادت کی جو بھی وجوہ ہوں یہ ایک صحت مند رویے کی نشاندہی نہیں کرتیں۔ بات دیگ میں انڈے کے تلنے سے شروع ہو کر کہاں سے کہاں پہنچ گئی‘ ایسا نہ ہو اتنی چینی پڑھ لینے کے بعد آپ کو باوجود گرمی کے چائے کی طلب محسوس ہو اور وہ بھی کم از کم دو چمچ چینی کے ساتھ۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں