پانیوں کے جیتے جاگتے قدیم قصبے

چین کی سیاحت کے دوران یہاں کے تاریخی واٹر ٹائونز (Water towns) کی سیر کو لازمی سمجھیںجن کو دیکھے بناء یہاں کی سیاحت نامکمل سی رہ جاتی ہے۔ یہ قدیم بستیاں جو چین کے طول و عرض میں بکھری ہوئی ہیں یہاں کے لوگوں کے روایتی رہن سہن کو سمجھنے کے لئے بہت ضروری ہیں۔ ان کا عنوان ہی یہ بتانے کے لئے کافی ہے کہ یہ تاریخی جگہیں نہروں کے کنارے آباد وہ بستیاں ہیں جن کی رونق ہی دریائوںکی قدرتی گزر گاہوں کے مرہون منت ہے۔ یہاں کی تیز رفتار صنعتی ترقی اور جدید تعمیرات نے پرانے علاقوں اور شہروں کا نقشہ ہی بدل کر رکھ دیا ہے اور شاید اسی لئے یہ خطرہ محسوس ہوتاہے کہ اکثرپرانی تعمیرات اور تاریخی مقامات ہی اس ترقی کا نشانہ نہ بن جائیں۔اسی بات کے پیش نظر بعض تاریخی مقامات کو اہم ثقافتی ورثے کا درجہ دے کرمحفوظ کیا جا رہاہے جن میں یہ خوبصورت اور پرسکون بستیاں بھی شامل ہیں ۔ یہ واٹر ٹائونز یا پانی کے کنارے موجود قصبے اپنی صدیوں پرانی تعمیرات اور طرز زندگی کو سنبھالے بیٹھے سیاحوں کو خوش آمدید کہتے ہیں۔خوش قسمتی سے مجھے شنگھائی کے نزدیک واقع بعض قصبوں کی سیر کے کئی مواقع ملے جو بنیادی طور پر ہماری چینی زبان کے کورس کا حصہ تھے۔ گوکہ ہمارے اساتذہ کی تو یہ کوشش ہوتی تھی کہ ہم اس سیر کے دوران کلاس میں سیکھی گئی چینی زبان کا یہاں استعمال کریں لیکن اس کی نوبت کم ہی آئی کیونکہ کلاس کے رٹے جملے اٹک اٹک کر جہاں بھی بولتے وہاں جواب میں جو فر فرچینی سنائی دیتی تو ہم فوراً ہی چینی انداز کی انگریزی پر ْاترآتے۔ چینی انداز کی انگریزی کا مطلب ہے ایک انگریزی کا لفظ اور پھر چار پانچ اشارے اس کو سمجھانے کے لئے اور پھر دوسرا انگریزی کا لفظ اور مزید اشارے۔ اس مشقت کے دوران دل میں ْاردو کے بعض ناقابل اشاعت الفاظ بھی آتے تھے۔ ان سیاحتی مقامات کے بعض دکاندار گزارے لائق انگریزی بول لیتے ہیں ویسے بھی خرید و فروخت کی اصل زبان تو ان کا کیلکولیٹر ہوتا ہے چیز کی طرف اشارہ کریں اور وہ اپنے کیلکولیٹر پر نمبر لکھ کر دکھا دے گا۔
شنگھائی کے نواح میں واقع دو واٹر ٹائونز بہت مشہور ہیں۔ ایک چھی بائو (Qibao)کہلاتا ہے اور دوسرا چو جیا جیائو (Zhujiajiao) کے نام سے معروف ہے۔ شہر سے نکل کر کم وبیش گھنٹے کی مسافت پر آپ ان جگہوں پر پہنچ سکتے ہیں۔ چھی بائو نامی قصبہ نسبتاً قریب پڑتا ہے۔ بنیادی طور پر ان قصبوں کو آپ روایتی پتھریلی اور تنگ گلیوں اور راہداریوںپر مبنی ایک وسیع و عریض محلہ سمجھ لیں جہاں دونوں اطراف میں بازار اور چھوٹے بڑے ریسٹورنٹس ہوتے ہیں۔ عمارتوں میں لکڑی کا کام زیادہ نظر آتا ہے جن میں قدیم نقش ونگار اور باریک کندہ کاری (Carving) نمایاں ہوتی ہے۔ مکانات کی تکون چھتیں روایتی کھپریل سے مزین ہوتی ہیں جن میں سے بعض کے کنارے خاص اندازمیں مڑے ہوتے ہیں۔ دوکانوں میںروایتی ریشمی کپڑوں کے ملبوسات‘ زیورات‘ سجاوٹ کا سامان ‘ مقامی میوے اور پینٹنگز سمیت ہر طرح کی چیزیں دستیاب ہوتی ہیں۔ اسی طرح پرانی طرز تعمیر کے مکانات اور ان میں بنے ریستورانوں میں بیٹھ کر آپ نہر وںکے کنارے انواع و اقسام کے کھانوں سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ اکثر چینی باشندے تو ان ٹائونز کی منفرد اور مشہور ڈشز کھانے کے لئے ہی یہاں کا رخ کرتے ہیں۔ یہاں کی چہل قدمی کے دوران آبی گزر گاہیں آپ کے ساتھ چلتی ہیں۔ جس طرف کا بھی رخ کریں گے چھوٹی بڑی نہریں اور پل آپ کے سامنے ہوں گے۔ ان نہروں میں چلتی کشتیوں پر سوار ہو جائیں تو روایتی انداز میں چپو چلاتا ملاح آپ کو پورے قصبے کا دورہ کرواتے ہوئے نسبتاً کھلے پانی کی طرف لے جاتا ہے ۔اکثر ان کشتیوں پر سوار ہوتے ہوئے بعض مقامی لوگ انہی پانیوں سے پکڑی گئیںچھوٹی چھوٹی مچھلیاں بیچنے کے لئے کھڑے ہوتے ہیں جنہیں آپ واپس پانی میں ڈال کر ثواب حاصل کرسکتے ہیں۔ ہمارے ایک کلاس فیلو نے مچھلیاں پانی میں ڈالتے ہوئے بڑے یقین سے کہا کہ یہ عمل خوش قسمتی کی علامت ہوتا ہے۔
یہاں مٹر گشت کے دوران بعض بہت دلچسپ روایتی آرٹ اور کرافٹ کی دوکانیں بھی مل جاتی ہیں۔ کہیں آپ کو مخصوص انداز میں ریشم تیار کرتے کاریگر ملیں گے تو وہیں باریک کاغذ کو کاٹ کر نہایت نفیس ڈیزائن بنانے والا کوئی ہنر مند بھی نظر آجائے گا۔ اسی طر ح کے ایک نہایت چھوٹے سے کیبن پر ایک ضعیف سی عورت نے چند یوآن کی رقم کے عوض نہایت مہارت سے کاغذپر کٹنگ کر کے میرے چہرے کی شبیہ (Image) منٹوں میں بنا ڈالی۔ پیپر کٹنگ کا یہ ہنر بھی چینیوں کا ہی کمال ہے جو سینہ بہ سینہ صدیوں سے چلا آرہا ہے۔ چینی زبان میں جیان چی (Jianzhi) کہلانے والا یہ ہنر شاید اس وقت سے چلا آرہا ہے جب چینیوں نے کاغذ ایجاد کیا تھا۔اسی طرح چند ایک قدیم گارڈنز بھی نہایت عمدہ طریقوں سے محفوظ کئے گئے ہیںجنہیں آپ یہاں کے پرانے امراء کی رہائش گاہیں سمجھ سکتے ہیں۔ ان رہائش گاہوں میں کمروں‘ دالانوں اور راہداریوں کے ساتھ ہی چھوٹے تالاب اور باغ بھی ہوتے ہیں جن میں ایک خاندان تو کیا چھوٹی موٹی برادری بھی سماں سکتی ہے۔ قدیم چینی اشرافیہ اور امراء کا یہ رہن سہن خوبصورتی اور نفاست میں اپنی ہی ایک مثال ہوتا تھا۔ ان مقامات سے منسوب کچھ نہ کچھ مافوق الفطرت داستانیں اوررنگین قصے بھی منسوب ہوجاتے ہیںلیکن ان پر کان دھرنے کے بجائے ہم نے یہاںکچھ دیر کے لئے خود کو ہی پرانے وقتوں کا وزیر یا مقامی رئیس سمجھ کر گھومنے کو ترجیح دی۔ چاہے بے شک یہ عہدہ ہم نے چند یوآن کا ٹکٹ خرید کر ہی کیوں نہ حاصل کیاہو۔ چو جیا جیائو کے واٹر ٹائون میں چینی بادشاہت کے زمانے سے موجود پوسٹ آفس کی عمارت بھی اپنے اندر ایک مخصوص کشش رکھتی ہے ۔چینی مصوری کے فن پاروں میں بھی ان قصبوں کی زندگی کو بہت مہارت اور خوبصورتی سے دکھایا گیا ہے۔ پرانی اور نادرچیزوں کی فروخت کے لئے معروف ایک اسٹریٹ مارکیٹ سے جو شنگھائی کے وسط میں واقع ہے مجھے اس طرح کی ایک روایتی اور نادر(Antique) پینٹنگ خوش قسمتی سے بہت کم قیمت پر مل چکی ہے۔ اس پینٹنگ میں واٹر ٹائون کی ایک ڈھلتی شام کے منظر میںبستی کے سیکڑوںباسیوں کی مصروفیات کونہروں اور پلوں کے پس منظر میں اتنی خوبصورتی اور تفصیل سے دکھایا گیا ہے کہ بے شک جتنی باردیکھ لی جائے دل نہیں بھرتا ۔
ان مقامات کی مقبولیت اور سیاحوں کی جو ق درجوق آمد کے باعث بعض جدید طرز کے ریسٹورنٹس اور کافی ہائوسز وغیرہ کے لئے بھی کچھ گنجائش پیدا کی گئی ہے جن سے غیر ملکی سیاحوں کو شاید تھوڑی سہولت محسوس ہو لیکن بہرحال یہاں کی قدامت اور مخصوص دیہاتی پن ہی اصل خوبصورتی ہے۔چینی تمدن کی ان جیتی جاگتی بستیوں اور دیگر تاریخی مقامات کی سیاحت سے یہاں کا وہ چہرہ سامنے آتا ہے جو شاید ایک طویل عرصے تک دنیا کی نظروں سے اوجھل رہا‘ ایک ایسا چین جس کی ہزاروں سال کے تہذیبی تسلسل کی نشانیاں اب بھی آب وتاب کے ساتھ موجود ہیں۔ دنیا بھر میں تاریخی مقامات اور بستیوں کو سیاحت کے ذریعے آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ سمجھا جاتا ہے ۔ لوگوں کو اس طرف متوجہ کرنے کے لئے وہاں سہولتیں فراہم کرنے والے ادارے دن رات محنت کرتے ہیں۔اسی طرح تعلیمی اداروں کو اس بات کا پابند کیا جاتا ہے کہ وہ طلباء کو ان مقامات کے اسٹڈی ٹور کروائیں۔ چین میں سیاحوں کی بڑھتی ہوئی آمد نے نہ صرف یہاں کی ثقافتی ورثے کو مقبول بنایا ہے بلکہ اس سے منسلک سرگرمیاں مثلاً روایتی پتلی تماشے کاتھیٹر اور چینی اوپرا (Opera) بھی شہرت حاصل کر رہے ہیں۔ صرف یہی نہیں کہ چین میں لوگوں کی آمد بڑھ رہی ہے چینی باشندے بھی لاکھوں کی تعداد میںدنیا بھر کی سیاحت کے لئے نکل رہے ہیں ۔ دنیا چین کا رخ کر کے حیرت زدہ ہے اور چینی باشندے باہر کی دنیائوں کے سحر میں گرفتار ہو رہے ہیں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں