کولمبس کی فرضی بیوی اور ہوائی قلعے

امریکہ دریافت کرنے کا سہرا باندھنے والے کولمبس کے حوالے سے فیس بک پر ایک دلچسپ پوسٹ کافی لوگوں کی نظر سے گزری ہو گی جو اردو املا کی غلطیوں باوجود انسان کو مسکرانے پر مجبور کردیتی ہے۔ اس پوسٹ کا سیدھا سا پیغام یہ ہے کہ کولمبس غیر شادی شدہ ہونے کی وجہ سے اتنے بڑے سفر پر نکل پایا ورنہ بیوی اتنے سوالات کرتی کہ کہاں جا رہے ہو؟ کس کے پاس جا رہے ہو؟کب آئو گے؟ وغیرہ وغیرہ ‘کہ شاید وہ جانے کا ارادہ ہی ترک کر دیتا۔ کولمبس کی شادی اور گھریلو زندگی کے بارے میں تو کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن کچھ بھی نہ کرنے یا نہ کر پانے کے لئے شادی شدہ ہونے کی کوئی شرط نہیں ۔ جنہوں نے کچھ کرنا ہی نہیں ہوتا انہیں اس قسم کی باتوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ویسے شکر ہے کہ چینیوں نے بحیثیت قوم کولمبس کی فرضی بیوی کی طرح غیر ضروری سوالات میں الجھنے کی عادت نہیں اپنائی اور کام پر لگے رہے۔ اب سوالات اور بحث مباحثے سے بچنے کو آپ یہاں کی خوبی کہیں یا خامی آج چین جس مقام پر بھی ہے اس میں ایک بہت بڑا ہاتھ سر جھکا کر بے تکان کام کرنے میں پوشیدہ ہے۔ جب یہاں مائو زے تنگ کی کٹر کمیونسٹ پالیسیوں کا زور تھا تب بھی یہ قوم بے چون و چراں اس پر عمل کرتی رہی اور جب یہاں کی لیڈر شپ نے ڈینگ ژیائو پھنگ کی قیادت میں اپنی پالیسی تبدیل کر کے اس کو چینی خصوصیات والی سوشلزم کا نیانام دیا تو یہی قوم اس کام میں جت گئی۔
چینی قیادت کی پالیسیوں کے نتیجے میں یہاں ترقی کا جو دور شروع ہوا تو کروڑوں لوگوں نے کام کی تلاش میں ملک کے ان علاقوں کا رخ کیا جہاں صنعتی ترقی کا عمل سب سے پہلے شروع ہوا۔ اتنی بڑی ہجرت نے یہاں کے سماجی اور خاندانی نظام پر بڑے گہرے اثرات مرتب کئے۔ دیہات اور چھوٹے قصبوں سے ہنر مند یا نیم ہنر مند محنت کشوں نے جب صنعت اور پیداوار کا پہیہ چلانا شروع کیا تو دیکھتے ہی دیکھتے چین نے کم لاگت میں صنعتی پیداوار کے ایسے ریکارڈ قائم کر دئیے کہ دنیا نے دانتوں تلے انگلیاں دبا لیں۔ کم اجرت میں دن رات کام کرنے والے ان محنت کشوں نے زیادہ سوال جواب کرنے کے بجائے بتائے گئے کام کر کے ملک کی ترقی کو تو چار چاند لگا دئیے لیکن ان کی خاندانی زندگی اور رشتے بری طرح متاثر ہوئے۔ لیکن اس کے باوجوداپنے معاشی حالات کو بہتر کرنے کے لئے یہ لوگ نا مساعد حالات میں بھی کام کرتے رہے ۔ اسی طرح جب یہاں کے پالیسی سازوں کو یہ محسوس ہوا کہ آبادی کے جن کو قابو میں لانے کے لئے فی جوڑا ایک بچے کی پالیسی پر عمل درآمد کرنا ہو گا تو مخصوص علاقوں اور اقلیتی گروپوں کے علاوہ پچھلے تیس پینتیس برس میں چینی جوڑے ایک بچہ ہی پیدا کرتے رہے۔
اس پالیسی نے جہاں آبادی میں اضافے کو روکا وہیں چینیوں کی ایک پوری نسل اکلوتوں کی تیار ہو گئی ۔ بہت کم نے ہی کوئی سوال ْاٹھایا ہو گا کہ ایسا کیوں ہے؟ حالانکہ اس سخت گیر پالیسی پر عمل شروع کرنا کسی بھی خاندان کے لئے کوئی آسان فیصلہ نہ ہو گا۔اس پالیسی کے سخت قانونی نفاذ کے نتیجے میں چینی قوم نے اپنے وسائل کے مطابق آبادی تو کنٹرول کر لی لیکن اس کے بھی سماجی اور خاندانی اثرات بہت گہرے اور پیچیدہ ہیں۔ اب جب کہ اس پالیسی میں تبدیلی اور رعایتیں لائی جا رہی ہیں تو پتہ چلے گا کہ کتنے جوڑے اب ایک سے زیادہ بچہ پیدا کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ پابندی طویل ہو جائے تو پختہ عادت میں بدل جاتی ہے۔
1960ء کی دہائی کے شروع میں چین کو بد ترین قحط کا سامنا کرنا پڑا جس نے مختلف اندازوں کے مطابق اندازاً کروڑسے زیادہ جانیں لے لیں۔ اس قحط نے جو محض قدرتی آفت ہی نہیں بلکہ بعض غلط پالیسیوں کا بھی نتیجہ تھا‘ چینیوں کو ایسا سبق سکھایا کہ انہوں نے اپنے زرعی نظام کو اتنی ترقی دی کہ آج کے چین کو کسی غذائی بحران کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ اس غذائی خود کفالت کو حاصل کرنے کے لئے بھی کی گئی زرعی تبدیلیوں میں ہر طرح کی جدید تحقیق سے فائدہ ْاٹھاتے ہوئے پیداوار میں اضافہ ہوا گندم اورچاول سے لے کر ہر زرعی جنس کی نئی اور بہتر اقسام متعارف کروا کر ملک کی فوڈ سکیورٹی کا بندوبست کر لیا گیا ۔ آج جدید طریقوں سے پیدا کی گئیں سبزیاں‘ پھل اور دیگر اجناس سے بازار بھرے پڑے ہیں جو دیکھنے میں دلکش ہیں اور ذائقے میں بھی گزارا کروا دیتے ہیں جبکہ عام آدمی کی قوت خرید کے اندر ہیں۔ ایک متعین پالیسی کے تحت کروڑوں کسانوں کو محدود ملکیتی حقوق دے کر ہر طرح کی تکنیکی معاونت کے لئے ہزاروں ٹیمیں بنا دیں گئیں ہیں ۔ یونیورسٹیوں نے تحقیق کا کام سنبھالا ہوا ہے اور سب اپنے دائرۂ کار میں رہتے ہوئے ایک مکینیکل انداز میں طے شدہ اہداف کو خاموشی سے پورا کرتے ہیں نہ غیر ضروری بحث‘ نہ بے تکا شور شرابہ ۔ایک ارب پینتیس کروڑ کی آبادی کی غذا کے لئے وافر مقدار میں زرعی پیداوارکوئی سادہ معاملہ نہیں۔
دنیا کا بڑے سا بڑا ایونٹ خاموشی سے کروادینا ان کے لئے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ سال2010ء میں شنگھائی شہر میں ورلڈ ایکسپو منعقد ہوئی۔ دنیا کا سب سے بڑا تجارتی میلہ اور نمائش جسے آپ تجارتی میلوں کا ورلڈ کپ کہہ سکتے ہیں ہر دس سال بعد منعقد ہوتا ہے اور لاکھوں لوگ اور ہزاروں کمپنیاں اس میں شرکت کرتے ہیں۔ اس ایکسپو کی تیاری کے لئے شنگھائی جیسے گنجان اور تاریخی شہر کا حلیہ بدل دیا گیا ۔ شنگھائی کے انٹر نیشنل ایئر پورٹ سے ایگزیبیشن سینٹر تک کے درمیان تقریباً 35 کلو میٹر کا فاصلہ طے کرنے کے لئے چار سو کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے زیادہ میٹرو ٹرین میگلیو (Maglev) کی لائن بچھائی گئی جو یہ فاصلہ محض چند منٹوںمیں طے کر لیتی ہے۔ شہر کے وسط سے اس ٹرین میں بیٹھ کر سفرکرنا ایک ایسا تجربہ ہے جو ایک مدت تک یاد رہتا ہے ۔برائے مہربانی ان کو پاکستان میں بننے والی میٹرو منصوبوں سے فی الحال نہ ملائیے گا ہمیں وہاں تک پہنچنے کے لئے بڑا وقت درکارہے۔
اندرونی طور پر معاشی طاقت بننے کے بعد اور کھربوں روپے کے سرمائے کی موجودگی میں چین کا عالمی منظر پر اثر انداز ہونا ایک فطری عمل ہو گا۔ اس مقام تک پہنچنے کے لئے اس قوم نے بڑے مصائب جھیلے ہیں اور آج بھی اتنے بڑے ملک کو کامیابی اور خوشحالی کے راستے پر برقرار رکھنا ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ چینی قوم نے اپنے مزاج میں بہت زیادہ سیاسی اور مذہبی سوالات کو جگہ نہیں دی اور بہت مستقل مزاجی اور خاموشی سے اس دنیا کو ہی تعمیر کرنے میں مصروف رہے۔ شاید ہی کسی قوم نے تر قی کے لئے اپنے مزاجوں کو اتنا کنٹرول کیا ہوورنہ سوالات ْاٹھانا اور شبہات کا اظہارکرناانسان کی فطرت کا حصہ ہے۔ اب یہی خاموش ملک جب دنیا سے معاملات طے کرنے نکلا ہے تو سوالات ْا ٹھانے والے طرح طرح کی منطقیں لاتے ہیں۔ کسی کو چینی کمپنیوں کی بنائی ہوئی سڑکوں اور بندر گاہوں کے اخراجات پر اعتراض ہے تو کوئی یہاں انسانی حقوق کی آزادی پر فکر مند ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ سارے اعتراض کرنے والے موزوں سے لے کر موبائل فون تک سب چین کا ہی بنا ہوا استعمال کرتے ہیں بے شک برانڈ کا نام کچھ بھی ہو۔ جب سے پاکستان میں اکنامک کوریڈور کی بات شروع ہوئی ہے‘ چین کی سرمایہ کاری اور تعاون ہمارے ہاں بھی بحث کا موضوع بن گیا ہے۔ ایک بات ہم پاکستانیوں کو چینیوں سے ضرور سیکھ لینی چاہیے اور وہ ہے غیر ضروری سوالات اور فارغ بیٹھے بیٹھے دور کی کوڑیاں لانے سے گریز۔ چین ہمارا خیر خواہ ہے لیکن اس کی سرمایہ کاری سے ہم اپنی ترقی کے مقاصد کیسے حاصل کریں گے یہ ہمارا درد سر ہے کسی اور کا نہیں۔ چینی کاروبار کرنا اور کروانا چاہتے ہیں انہوں نے متاثر کن انفرا اسٹرکچر بنانے میں مہارت حاصل کر لی ہے جو وہ بنا کر دے دیں گے۔ بس ہمیں کولمبس کی فرضی بیوی کے غیر ضروری سوالات والے روئیے کے بجائے فوکس ہو کر اس عمل کا حصہ بن جانا چاہیے۔ عین ممکن ہے آنے والی نئی چینی نسل خوشحالی کے نتیجے میں ادھر ادھر کی گپ شپ کرنا افورڈ بھی کر لے لیکن ہمارا تو سمجھیں اب کام کا وقت شروع ہوا ہے اور ہوائی قلعے بنانے کاختم۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں