اپنے بچپن کی یاد یں تازہ کرنے میں اس بات کا خدشہ ہوتا ہے کہ لوگ آپ کی عمر کے بارے میں کافی درست اندازہ لگا سکتے ہیں۔ بہرحال اس خطرے کو مول لیتے ہوئے یہ بات بتانے میں کوئی عار نہیں کہ میرے اسکول جانے کے زمانے میں مستنصر حسین تارڑ صبح کی پی ٹی وی نشریات میں ایک عدد کارٹون پروگرام ضرور پیش کر تے تھے۔ اسکول کے لیے نکلنے کے ''غمگین‘‘ لمحات میں دو چار منٹ کے یہ کارٹون کافی تسلی کا باعث بن جاتے تھے۔ بلاشبہ وہ اس زمانے کی مقبول براہ راست نشریات تھیں۔ ایک ٹی وی چینل اور گنتی کے مشہور پروگراموں کا دور ختم ہوئے عرصہ بیت گیا ہے، اب تو اتنے چینلز اور پروگرام ہیں کہ فی گھرانہ ایک ٹی وی سیٹ تمام افراد خانہ کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ناکافی ہے اور یہ تبدیلی پوری دنیا میں رونما ہو چکی ہے۔ اب آپ اپنی مرضی کے پروگرام اور خبریں کہیں بھی دیکھ سکتے ہیں شرط بس انٹرنیٹ کی ہے اور سکرین تو اب جیب میں پڑی ہے۔
چین کا سرکاری ٹی وی چائنا سنٹرل ٹیلیویژن کہلاتا ہے جس کا مخفف خاصا معنی خیز یعنی (CCTV) ہے۔ اس نیٹ ورک میں خبروں، ڈراموں، کھیلوں، فلموں اور دستاویزی فلموں سے لے کر ہر نوعیت کے چینلز شامل ہیں۔ اس مر کزی ٹی وی کے علاوہ مختلف صوبوں اور بڑے شہروں کے اپنے ٹی وی چینلز بھی موجود ہیں۔ سنٹرل چائنا ٹی وی کے انگریزی، عربی اور چند دیگر اہم زبانوں میں بھی انٹرنیشنل نیوز چینلز موجود ہیں۔ آج چینی باشندے بے شمار ملکی، بین الا قوامی اور مقامی ٹی وی چینلز کی نشریات سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ مقامی چینلز ہر طرح کے پروگرام ، جن میں ڈراموں سمیت رنگا رنگ ٹی وی شوز شامل ہیں، نشر کرتے ہیں۔ اتنے بڑے ملک میں کسی پروگرام کا پورے ملک کی توجہ کھینچ لینا بہت بڑا چیلنج ہے، اس چیلنج میں بچوں کی ایک کارٹون سیریز اور ایک چینی بادشاہ کے حرم کی داستان پر مشتمل ڈرامہ سیریل سب پر بازی لے گئے ہیں۔
شام پانچ بجنے سے چند منٹ قبل سنٹرل چائنا ٹی وی پر پیش کی جانے والی ایک کارٹون سیریز یہاں کے کروڑوں بچوں کا پسندیدہ ترین پروگرام ہے۔ چینی زبان میں ' شیونگ چھو مو ‘کہلانے والی یہ سیریز ایک خوبصورت جنگل میں رہنے والے دو ریچھوں اور ایک لکڑ ہارے کے درمیان ایک نہ ختم ہونے والے مقابلے اور کشمکش پر مبنی ہے۔' گوانگ تھو چھیانگ‘ نامی شخص جس کے نام کا مطلب 'گنجا چھیانگ‘ ہے اس جنگل سے درخت کاٹ کر لکڑیاں شہر بھیجتا ہے جبکہ دو ریچھوں کی جوڑی اس کے کام میں رکاوٹیںکھڑی کرتی ہے۔ ' شیونگ دا ‘ بڑا ریچھ ہے جو زیادہ سمجھدار ہے جبکہ دوسرا 'شیونگ آر‘ نسبتاً بیوقوف ریچھ ہے۔ ہر شام چینی بچے ان ریچھوں کو گنجے چھیانگ سے مزاحیہ انداز میں مقابلہ کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ جنگل کے دوسرے جانور جن میں ایک گلہری اور بندروں کی جوڑی بھی شامل ہے اکثر اس معرکے میں ریچھوں کا ساتھ دیتے ہیں۔ بظاہر لڑائی کے باوجود ریچھ اور لکڑ ہارا چھیانگ کبھی کبھی بیماری یا تکلیف میں ایک دوسرے کا خیال بھی کر لیتے ہیں کہ آخر پڑوسی جو ٹھہرے۔ اس کارٹون کے کرداروں کے کھلونے خصوصاً گنجے چھیانگ کی شکاری بندوق آپ کو کھلونوں کی اکثر دکانوں پر نظر آئے گی۔ اس انتہائی مقبول سیریز کی خصوصی فلم بھی بن چکی ہے اور اپنے بہترین معیار کی اینی میشن (Animation) کے ساتھ یہ کارٹون سیریز حالیہ برسوں میں چینی بچوں کا مقبول ترین کارٹون پروگرام ثابت ہوا ہے۔
اسی طرح ایک تاریخی ڈرامے (The Legend of Zhen Huan) نے بھی نہ صرف چینی ناظرین میں بلکہ اردگرد کے ممالک میں بھی بے انتہا مقبولیت حاصل کی۔ 76 اقساط کی یہ ڈرامہ سیریل چینی بادشاہ یونگ چنگ (Yongzheng) کے حرم میں موجود ملکائوں، داشتائوں اور کنیزوں کی زندگی پر مشتمل ہے۔ چن ہوان (Zhen Huan) نامی ایک نو عمر لڑکی کس طرح اس ماحول کی سازشوں کا مقا بلہ کرتے ہوئے ملکہ کے رتبے پر پہنچتی ہے یہ اس ڈرامے کا مر کزی خیال ہے۔ اس ڈرامے کی کہانی کی مزید تفصیل میں جانے سے قبل بہتر ہے کہ ہم چینی بادشاہوں کے طور طریقوں کے بارے میں جان لیں۔ چینی بادشاہت ہزار ہا برس تک بڑی شان و شوکت کے ساتھ قائم رہی، یہاں کا آخری شاہی سلسلہ چھنگ (Qing) کہلاتا ہے۔ یہ بادشاہ عالی شان محلات میں برا جمان تھے اور حرم میں سیکڑوں داشتائوں اورکنیزوں کو رکھنا ایک معمول تھا۔ یہ منتخب لڑکیاں جو اہم سرکاری عہدیداروں کی بیٹیاں ہوتی تھیں، نو عمری میں بادشاہ کے حرم کے لیے منتخب کی جاتیں۔ یہ خواتین شاہی محلات کی مکین بننے کے بعد بادشاہ سلامت کی ملکیت ہوتیں ، جہاں تمام تر آسائشوں کے ساتھ یہ اپنے حکمران کی ایک نظر التفات کی منتظر رہتیں۔ بیجنگ کے مرکز میں موجود شہر ممنوعہ (Forbidden city) کے قدیم محلات کی یہ بستی آج بھی سیاحوں کو مسحورکر دیتی ہے۔
اس ڈرامے کی مرکزی کردار'چن ہوان‘ ستر ہ برس کی عمر میں بادشاہ کے حرم کے لیے منتخب ہونے والے گروپ میں شامل تھی۔ اس کھلنڈری اور سادہ مزاج لڑکی کو بالکل اندازہ نہ تھا کہ بظاہر جنت نظر آنے والی یہ بستی جہاں نوکر وں اور کنیزوں کی فوج سمیت دنیا کی ہر آسائش موجود ہے، ایک نہایت سازشی اور بے رحم جگہ ہے۔ اس بستی میں موجود خواتین بادشاہ کی خوشنودی کے حصول کے لیے ہر حربہ استعمال کرتی تھیں۔ خوبصورت اور معصوم 'چن ہوآن ‘پر جیسے ہی بادشاہ سلامت کا دل آیا تو سمجھیں بے چاری کی مصیبت آ گئی اور یوں ایک ہنستی کھیلتی لڑکی نے اپنی بقا کے لیے وہ سارے حربے سیکھے جو انسان کو مقام تو دلوا دیتے ہیں لیکن پھر نہ وہ کسی کا دوست ہوتا ہے اور نہ اس کا کوئی دوست رہ جاتا ہے۔ دوسری داشتائوں اور با اثر عورتوںکو ہر جائز اور ناجائز حربہ استعمال کر کے غیر مو ثرکرنے اور بادشاہ کی موت کے بعد ایک نئے کم سن بادشاہ کی موجودگی میں وہ انتہائی با اثر ملکہ بھی بن جاتی ہے، لیکن'چن ہوآن‘ یہ سب حاصل کرنے کے بعد ایک تنہا اور اداس شخصیت بن چکی ہے۔۔۔۔۔ دوستوں سے محروم اور خادموں میں گھری ہوئی۔
ڈرامے کی کہانی اور شاندار مکالموں کے علاوہ میرے نزدیک اس ڈرامے کی سب سے بڑی خوبی اس کا عمدہ پروڈکشن ڈیزائن ہے۔ حقیقی محلات اور شاہی رہائش گاہوں کے د لکش مناظر، انتہائی دیدہ زیب ملبوسات اور کرداروں کے میک اپ نے اس قدیم دور کو جیسے جیتی جاگتی صورت میں آپ کے سامنے لا کھڑا کیا ہو۔ اب تک چینی طرز تعمیر، قدیم ادویات اور رہن سہن کے حوالے سے ان کالموں میں جتنا بھی ذکر ہوا ہے سمجھیں اس کی ایک مکمل تصویر یہ ڈرامہ دیکھ کر نظروں کے سامنے آجاتی ہے۔ اس دور کی خواتین کو محلات میں جس قدر تیاری اور آداب سے رہنا ہوتا تھا وہ کسی اذیت ناک مشقت سے کم نہ تھا۔ ذرا سی غلطی پرسخت سزائیں عام سی بات تھی۔ اس ڈرامے کو تائیوان اور جاپان سمیت دنیا بھر میں بے حد پذیرائی ملی اور ڈرامے میں مرکزی کردار ادا کرنے والی اداکارہ سن لی (Sun Li) نے ایک سپر اسٹار کا درجہ حاصل کر لیا۔ ایک رپورٹ کے مطابق تائیوان کی بعض خواتین نے تو ' سن لی‘ جیسی آنکھیں بنوانے کے لیے پلاسٹک سرجنز تک سے رابطے کر لیے تھے۔
پاکستانی میڈیا خصوصاً تفریحی اور ڈرامہ چینلز کے لیے کچھ برس کام کا عملی تجربہ رکھنے کے بعد مجھے اس بات کا اکثر احساس ہوتا ہے کہ ہم نے بچوں کے پروگرامز اور کارٹونز کے حوالے سے کچھ خاص کام نہیں کیا۔ مثال کے طور پر اگر کسی تر قی یافتہ معاشرے کو انکل سرگم جیسا عمدہ کردار ملا ہوتا تو شاید وہ ڈزنی (Disney)کے کرداروں کی طرح ایک برانڈ بن چکا ہوتا۔ اسی طرح بھاری بجٹ، زیادہ محنت اور وقت لگنے کے باعث تاریخی ڈرامے بنانے کا رجحان بھی ختم ہورہا ہے۔ چوبیس گھنٹے ٹی وی کا پیٹ بھرنے کے لیے چین سمیت دنیا بھر میں ہر طرح کے پروگرامز بنتے ہیں، لیکن ہر ملک کے کامیاب تفریحی چینل بڑی لاگت سے ایک عمدہ پرائم پروڈکٹ بھی بناتے ہیں۔ چین میں نہ صرف بادشاہت بلکہ آزادی کی جنگوں سمیت ماضی کے ہر اہم دور پر ڈرامے ٹی وی چینلز کی نشریات کا لازمی حصہ ہیں۔ تاریخی اور ماضی کے عہد پر مبنی ڈرامے محض ماضی پرستی یا ناسٹلجیا ہی نہیں ہوتے بلکہ اپنے آپ کو سمجھنے کا بڑا اہم ذریعہ بھی ہوتے ہیں اور یقین مانیں اگر ہمارے چینلز ان کی پروڈکشن اچھی کر پائے تو یہ مالی طور پر بھی بہت نفع بخش ثابت ہوں گے۔ بس آزمائش شرط ہے۔