چینی طلباء کے مشکل ترین دن

چین میں جون کے مہینے کا ابتدائی ہفتہ کم ازکم تین کروڑ کے لگ بھگ لوگوں پر بے حد بھاری گزرتا ہے۔ ان تین کروڑ میں نوے لاکھ سے زیادہ تو یہاں کے ہائی اسکول کی تعلیم مکمل کرنے والے طلباء و طالبات ہیں اور باقی دو کروڑ ان کے والدین اور قریبی رشتہ دار ہوتے ہیں۔اس آزمائش کی وجہ ملک بھر میں منعقد ہونے والا ایک امتحان ہے جو ان لاکھوں طلباء کے تعلیمی مستقبل بلکہ ایک لحاظ سے باقی زندگی کی کامیابی کا تعین کر دیتا ہے۔ اس سال یہ امتحان جون کی سات سے نو تاریخ کے درمیان منعقد ہوئے جن میں چورانوے لاکھ کے قریب طلباء نے حصہ لیا۔ چینی زبان میں ' گائو کھائو ‘ (Gaokao) یعنی بڑا امتحان کہلانے والا یہ ٹیسٹ بنیادی طور پر ملک بھر کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں داخلے کے لئے مقابلے کا امتحان ہے جس میں اچھی کارکردگی دکھانے والے طلباء اپنی پسند کے عمدہ تعلیمی اداروں میں داخلے کے مستحق ٹھہرتے ہیں جبکہ اوسط کارکردگی والے اوسط درجے کے اداروں میں جاتے ہیں۔ اس ٹیسٹ میں ناکامی کا مطلب ایک اچھے کیرئیر سے ہاتھ دھو بیٹھنا ہوتا ہے‘ اس لیے اس امتحان کو عموماً ان طلباء کی زندگی کا سب سے فیصلہ کن موڑ قرار دیا جا سکتا ہے ۔
ہر سال ہائی اسکول میںتعلیم حاصل کرنے والے طلباء اس امتحان کے لئے بھرپور تیاری کرتے ہیں اور سخت مقابلے کی فضا میں اس میں حصہ لیتے ہیں۔ اس امتحان میں تین مضامین لازمی ہوتے ہیں جو چینی زبان‘ حساب (Mathematics) اور انگریزی یا چند ایک منتخب زبانوں مثلاً جاپانی‘ روسی یا فرانسیسی زبان کے ہو تے ہیں۔ طلباء کی اکثریت انگریزی کا ہی امتحان دیتی ہے۔ ان مضامین کے علاوہ سائنس کے طلباء بائیو لوجی ‘ فزکس اور کیمسٹری جبکہ آرٹس میں دلچسپی رکھنے والے جغرافیہ‘ تاریخ اور پولیٹیکل ایجوکیشن جیسے مضامین کو ٹیسٹ کے لئے منتخب کرتے ہیں۔ گو کہ اس امتحان کا انعقاد پورے ملک میں ایک ہی وقت میں ہوتا ہے لیکن بعض صوبے اپنے حالات اور تر جیحات کے حساب سے ان میں چھوٹی موٹی تبدیلیاں اور اصلاحات کے مجاز ہوتے ہیں۔ ایک کٹھن مقابلے کی وجہ سے اکثر طلباء زیادہ پڑھائی کے دبائو کا شکار رہتے ہیں اور ساتھ ہی ان کے والدین اور اساتذہ بھی اس دوران کافی ذہنی تنائو میں رہتے ہیں۔ والدین ہر صورت میں اپنے بچوں کو کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں اور اس مقصد کے لئے وہ کتنے سنجیدہ اور فکر مند ہوتے ہیں اس کا اندازہ ٹیسٹ والے دنوں میں امتحانی مراکز کے باہر موجود بے چین‘ چینی والدین کی کثیر تعداد کو دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے۔ چاہے گرمی ہو یا تیز بارش‘ یہ والدین چھتریوں تلے اپنے بچوں کے باہر آنے کا انتظار کر تے نظر آئیں گے۔ اخبارات اور ٹی وی پر ان کی تصاویر دیکھ کر لگتا ہے جیسے محشر کا سماں ہو۔ یہ ماحول امتحانات میں حصہ لینے والے بچوں کے لئے ایک اضافی آزمائش بن جاتا ہے‘ اس لیے اکثر طلباء کے گروپس امتحانات کی تیاری کے ساتھ اپنے آپ کو پر سکون رکھنے کے لئے جسمانی مشقیں بھی کرتے ہیں۔ ایک دلچسپ تصویر میں ایک طالبہ آنکھیں بند کر کے اپنے ساتھی طلباء کے گروپ پر گرنے کا مظاہرہ کرتی نظر آئی ۔ اس کو سنبھالنے کے لئے پورا گروپ نیچے موجود ہے اور اس مشق کے ذریعے درحقیقت یہ بچے انجانے خطرے کا اعتماد سے مقابلہ کرنے کی تیاری کر تے ہیں۔
اتنے بڑے پیمانے پر دو سے تین روز میں بیک وقت نوے لاکھ سے زائد طلباء کے لئے فول پروف امتحان کا انعقاد کوئی آسان انتظامی معاملہ نہیں ہے۔ سمجھیں یہ ایک طر ح سے چھوٹے موٹے انتخابات کروانے کے مترادف ہے جن کی شفافیت پر بھی کوئی انگلی نہ اٹھا سکے۔ امتحانی مراکز کے آس پاس کے علاقے کو پر سکون رکھنے کے لئے بھی خصوصی انتظامات کا ذکر دلچسپی سے خالی نہیں۔ گاڑیوں کے ہارن بجانے پر پابندی ہوتی ہے۔ اسی طرح اگر قریب کوئی تعمیراتی کام ہو رہا ہو تو اس کو بھی امتحانات کے دنوں میں روک دیا جاتا ہے تاکہ طلباء کے سکون میں شور سے کوئی خلل واقع نہ ہو۔ امتحانی مراکز پر مستعد عملے کے علاوہ سکیورٹی اور چیکنگ کے ایسے سخت مراحل ہوتے ہیں جیسے کسی حساس ائیر پورٹ سے جہاز میں سوار ہونے ہونے والے مسافروں کی تلاشی ہو رہی ہو۔ کسی بھی قسم کی نقل یا دھوکہ دہی کو ناکام بنانے کے لئے جدیدا سکینرز کی مدد سے طلباء کی تلاشی لی جاتی ہے۔ بعض مراکز میں تو خفیہ کیمروں کے علاوہ ڈرونز کیمروں تک کے استعمال تک کی خبریں بھی آئی ہیں۔ ان حالات میں نقل کرنے کی کوشش کرنے کے لئے کسی سائنسدان کا دماغ چاہیے۔ چند ایک با ہمت طلباء سے ایسے چشمے بر آمد ہوئے جنہیں آپ ٹیکنالوجی کا شاہکار ہی سمجھیں۔ یہ عینکیں ایسے ننھے آلات تھے جن کے شیشے پڑھنے والی ا سکرین کا کام دیتے اور یوں بظاہر معصومیت سے چشمے پہنے یہ کاریگر دراصل اپنی آنکھوں کے سامنے اسکرین سجائے نقل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس قسم کی تیاریوں سے نقل کرنے والوں کو تو اعزازی طور پر پاس کرنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں۔ اس موقعے پر کسی مذہب پر یقین نہ رکھنے والی چینی قوم بھی دعائوں اور روحانی ٹوٹکوں کا سہارا لینے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتی۔ کچھ لوگ عظیم چینی فلسفی اور روحانی ہستی کنفیوشس کے مجسمے کے سامنے آنکھیں بند کئے کھڑے ہوتے ہیں تو کچھ بْدھ مذہب کے ٹیمپل میں جا کر ڈھیروں اگر بتیاں جلا کر اپنے بچوں کی کامیابی کی دعائیں مانگتے ہیں۔
چینی نظام تعلیم کی عمومی خوبی یا خامی اس کے بہت زیادہ طے شدہ یا (Focused) ہونے میں ہے۔ یہاں تعلیم چاہے بنیادی ٹیکنیکل کورسز کی دی جائے یا پی ایچ ڈی کی سطح کا معاملہ ہو‘ یہ لوگ ہر جگہ مخصوص پیشوں کے لئے اسپیشلائزیشن کو تر جیح دیتے ہیں۔ شوقیہ تعلیم اور مختلف شعبوں میں بیک وقت جگالی جیسی عیاشی کی یہاں گنجائش نہیںہے۔ اسی طرح یہاں کی تعلیم میں یادداشت اور حساب کتاب کا عمل دخل بہت زیادہ ہے ۔ چینی طلباء اپنی تعلیم کے ابتدائی دور سے چیزوں کو رٹنے میں کافی ماہر ہو جاتے ہیں۔ میرے کچے پکے تجزیے کے مطابق چونکہ چینی قوم اجتماعی مفاد کے لئے بعض انفرادی خصوصیات کی قربانی دینے کے لئے تیار رہتی ہے اس لئے یہ اپنے تعلیمی نظام میں بھی ایسی افرادی قوت کی تیاری میں دلچسپی لیتی ہے جو اجتماعی منصوبوں کے لئے درکار افراد فراہم کر سکے۔ اس لئے چینی نظام تعلیم پر تنقید کرنے والے اس میں تخلیقی عمل کی غیر موجودگی پر بڑا اعتراض کر تے ہیں ۔ اسی طرح کا اعتراض اس امتحان پر بھی کیا جاتا ہے کہ اس میکانکی طریقے سے امتحان میں انفرادی صلاحیتوں والے
بہت سے طلباء زیادہ کامیاب نہیں ہوتے بلکہ وہی اچھے نمبر لیتے ہیں جو امتحان کے طریقۂ کار کے مطابق اچھی تیاری یا رٹا لگا کر آتے ہیں۔اب یہ بحث تو ماہرین تعلیم کا موضوع ہے لیکن موجودہ چینی تعلیمی نظام اگر کوئی آئن اسٹائن پیدا نہیں کر پا رہا تو بھی ہر شعبے میں اتنے قابل ماہرین ضرور پیدا کر رہا ہے جو چین سمیت پوری دنیا کی تعمیر و ترقی میں سب سے زیادہ حصہ ڈال رہے ہیں۔ رہ گیا معاملہ اس امتحان کا تو اپنی تمام تر سختیوں اور کمزوریوں کے باوجود یہ اتنی بڑی آبادی والے ملک کے ہر بچے کو سال میں کم ازکم ایک ایسا موقعہ ضرور فراہم کرتا ہے جہاں کامیابی کی صورت میں وہ اپنے اور اپنے خاندان کے لئے ایک بہتر مستقبل کا خواب پورا کر سکے۔
چینی معاشرے میں بھی ہمارے معاشرے کی طرح تعلیمی محاذ پر بچوں کی کمزور کارکردگی ایک سماجی مسئلہ ہے۔ رشتہ دار اور دوست احباب سب ہی ایک دوسرے کے بچوں کی کامیابیوں اور ناکامیوں کی ٹوہ میں لگے رہتے ہیں۔ اس لئے اس سالانہ امتحان میں کار کردگی نہ دکھا پانے والے بچے اور والدین خاصی مایوسی اور جھنجھلاہٹ کا شکار ہو سکتے ہیں۔البتہ ایک فرق جو ہمارے اور چینی معا شرے میں بہت واضح ہے‘ وہ یہاںکسی کا فارغ نہ بیٹھنا ہے۔ بے شمار طلباء پیشہ ورانہ ٹیکنیکل تعلیم کے اداروں میں تر بیت کے لئے داخل ہو جاتے ہیں اور ایک ہنر مند بن کر نکلتے ہیں ۔ یونیورسٹی اور کالج کے داخلہ امتحان میں ناکامی کا یہ مطلب نہیں کہ گلی کے نکڑ پر تاش کھیلنے بیٹھ جائیں ‘یہاں سب نے اپنے آپ کو پالنے کے لئے کام کرنا ہوتا ہے ۔ویسے یہ بھی ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ ایک کامیاب کاروباری بننے کے لئے ہنر اور محنت بعض اوقات ڈگری سے زیادہ اہم ثابت ہوتے ہیں ‘ ورنہ شہرہء آفاق کمپنی مائیکرو سوفٹ کا بانی کھرب پتی بل گیٹس کبھی ہارورڈ جیسی یونیورسٹی کی تعلیم ادھوری نہ چھوڑتا۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں