ایک دنیا اس کی دیوانی ہے ‘کسی کو اگر اس کے نزدیک تصویر کھنچوانے کا موقعہ مل جائے تو خوشی سے پھولا نہیں سماتا۔ اس کی صحت‘ سلامتی اور نشوونما کے متعلق وہ سارے ممالک بھی یکساں طور پر فکر مند ہیں جو ایک دوسرے سے خائف ہو کر اپنی جنگی صلاحیتوں کو ہر وقت پروان چڑھانے میں مصروف ہیں۔ کوئی نہیں چاہتا کہ اس کی تعداد میں کمی آئے اور کسی کو یہ بھی اعتراض نہیں کہ آخر ریچھ کی نسل سے تعلق رکھنے والا بے حد خوبصورت ' پانڈا ‘ صر ف چین میں ہی کیوں پایا جاتا ہے ۔ ایسا شاندار نصیب تو انسانوں میں سے بھی کم کو میسر ہے جو اس سفید اور سیاہ رنگ کے حسین امتزاج والے جانور کو حاصل ہو چکا ہے۔ چین والے اسے نہ صرف اپنا قومی خزانہ قرار دیتے ہیں بلکہ اس کی حفاظت اور دیکھ بھال بھی خزانے کی طرح ہی کرتے ہیں۔ پانڈے کی نسل کو محفوظ رکھنے اور پالنے پر سالانہ اربوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں۔ سفید اور سیاہ رنگ کے دلکش ڈیزائن والے نرم وملائم بال ‘ عین آنکھوں کے نیچے سیاہ دائرے اور انتہائی سفید بالوں والے منہ پر سیاہ رنگ کے کانوں والا یہ گول مٹول سا ریچھ اتنا معصوم اور دلکش لگتا ہے کہ دیکھنے والا متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ‘یوںسمجھیں (Love at first sight) والا معاملہ ہے۔
خوش قسمتی سے ہمارا رہائشی کمپائو نڈ شنگھائی کے چڑیا گھر سے محض پندرہ منٹ پیدل کے فاصلے پر واقع ہے اورشاید اسی قربت کے باعث ہمیں یہاں کی سیر کرنے میں کئی ماہ کی تاخیر ہوگئی ۔ جب بھی خیال آتا تو یہ سوچ کر دل کو تسلی دے لیتے کہ ذرا سا فاصلے پر ہی تو ہے کبھی دیکھ لیں گے۔ با لآخر یہ احساس ہو گیا کہ پڑوس کا سوچ کر شنگھائی زو کو دیکھنے میں کچھ زیادہ ہی تاخیر ہو رہی ہے؛ چنانچہ ایک دن مع زچہ وبچہ اُدھر کا رخ کیا۔ اصل مقصد دوسرے جانوروں سے زیادہ یہاں موجود پانڈے صاحب کی زیارت تھی۔ میلوں کے رقبے پر پھیلے اس چڑیا گھر میں‘ جو ہزاروں درختوں اور سبز ے میں گھرا ہوا ہے‘ پانڈے کی رہائش ڈھونڈنے میں خاصا وقت لگ گیا۔ اسے دیکھنے کے لئے آنے والوں کے شوق کے پیش نظر‘ ابتدا سے ہی اس کی تصویر اور جائنٹ پانڈا کے نام کے اشارے‘ اس طر ح موجود تھے جیسے اگلے موڑ پر ہی وہ ہمیں گلے لگانے کو تیار بیٹھا ہے۔ ان اشاروں کے پیچھے چلتے ہوئے تقریباً آدھے سے زیادہ جانوروں کو دیکھ لینے کے بعد بالآخر ہم پانڈے کی رہائش گاہ پر پہنچ گئے۔ ایسا لگتا تھا جیسے چڑیا گھر کی انتظامیہ نے جان بوجھ کر اس مہارت سے یہ اشارے نصب کئے ہیںکہ اس کے شوق میں باقی جانوروں کی بھی رونمائی ہوتی رہے؛ یعنی پانڈا نہ ہو گیا مشاعرے کا سب سے اہم شاعر ہو گیا جسے آخر میں سننے سے پہلے کئی ایک شاعروں کے کلام کو بھگتنا پڑتا ہے۔ بڑی مشکل سے لوگوں کے رش میں جگہ بنا کر جب پہلی بار پانڈے صاحب پر نظر پڑی تو مو صوف نہایت بے نیازی سے غنودگی کے عالم میں غالباً ایک سلائیڈ پر بیٹھے نظر آئے ۔ شائقین کے رش کو دیکھنا تو ایک طرف اس نے تو ہم جیسے اکنامک کوریڈور والے اہم ترین پڑوسی کو دیکھ کر بھی کوئی حر کت نہ کی ۔ لیکن اس خوبصورت جانور نے کیا قسمت پائی ہے کہ لوگ اس کی اسی ادا پر قربان ہوئے جا رہے تھے کہ دیکھو کس عمدہ طریقے سے قیلولہ کر رہا ہے۔ خیر کچھ منٹ جب کوئی حرکت نہ ہوئی تو مجبوراً کسی طرح پانڈے کو بیک گرائو نڈ میں لیتے ہوئے فٹا فٹ تصاویر بنا لیں کیونکہ رش تو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔
پانڈے کی مقبولیت کی وجہ اس کی خوبصورتی اور معصومیت کے علاوہ اس کے نہایت کمیاب ہونے میں بھی ہے۔ اس کی نسل کو بچانے اور پروان چڑھانے کے لئے چین کی حکومت کو بہت کوششیں کرنا پڑتی ہیں۔ ریچھ کی نسل سے تعلق رکھنے والا یہ جانور چینی زبان میں ' دا شیونگ مائو‘ (da xiong mao) کہلاتا ہے۔ نر پانڈے کا قدچا ر سے چھ فٹ کے درمیان اور وزن ایک سو بیس سے ایک سوپچاس کلو گرام تک ہوسکتا ہے۔ مادہ عموماً سو کلو گرام سے کچھ ہی زیادہ وزن تک کی ہوتی ہے۔ پانڈا چین کے جنوب مغربی صوبے ' سی چو آن‘ میں سب سے زیادہ اور اس سے ملے ہوئے صوبوں 'شان شی ‘ اور ' گا نسو‘ کے جنگلات میں بھی پایا جاتا ہے۔ سی چو آن صوبے کے دارالحکومت ' چھنگ دو‘ کو آپ پانڈے کا انٹر نیشنل مرکز سمجھ لیں۔ اس شہر اور اس کے اطراف میں ہی اس کی پرورش اور دیکھ بھال کے خصوصی زونز اور ریسرچ کے ادارے موجود ہیں۔ اس نسل کے جانوروں کی تعداد‘ تمام اندازوں کو ملا کر بھی بمشکل تین ہزار تک پہنچتی
ہے۔ اس کی اصل غذا بانس (Bamboo)کے درخت ہوتے ہیں اور اپنی توانائی کو بحال رکھنے کے لئے اس کو دن میں دس سے پندرہ کلو خوراک درکار ہوتی ہے‘ جسے کھانے میں دن کے کئی گھنٹے لگا دیتا ہے۔ اتنا کھانے کے باوجود یہ بس اتنی ہی ضرورت پوری کرتی ہے کہ پانڈے صاحب ہلکی پھلکی چہل قدمی کر لیں ۔بنیادی طور پر یہ ایک آرام طلب اور تنہائی پسند جانور ہے جو انتہائی ضرورت کے وقت ہی بھاگتا دوڑتا ہے؛ البتہ درختوں اور اونچائی پر چڑھنے میں اسے دقت محسوس نہیں ہوتی۔ پانڈوں میں افزائش نسل بھی کافی کم ہوتی ہے اگر ایک مادہ بیک وقت دو بچوں کو جنم دے تو بھی جنگل میں اس کے اندرایک بچے کو سنبھا لنے اور دودھ پلانے کی توانائی ہوتی ہے ۔ ان کی خصوصی دیکھ بھال کے انتظامات اور حکومت کی توجہ کے باعث اب ان کی افزائش اور حفاظت میں بہت بہتری آئی ہے۔
چینیوں کی پانڈا ڈپلومیسی کا بھی چرچا رہا ہے ۔ 1970ء کی دہائی میں جب امریکی صدر رچرڈ نکسن نے پہلی مرتبہ چین کا دورہ کیا تو خیر سگالی کے طور پر چینی قیادت نے پانڈوں کا ایک جوڑا تحفے کے طور پر امریکیوں کو دیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس نسل کی کمیابی اور قیمتی ہونے کے سبب چینی حکومت پانڈوں کو بیرونی ممالک بھیجنے میں کافی محتاط ہو گئی ہے۔دنیا بھر میں گنے چنے ممالک اور چڑیا گھر ہی ہیں جو پانڈوں کی موجودگی کا اعزاز رکھتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پانڈا دنیا میں کہیں بھی جائے وہ چین کی ہی ملکیت ہوتا ہے اور یہ عموماً
دس سال کی لیز پر دیا جاتا ہے۔ چینی ایک پانڈے کی سالانہ دس لاکھ امریکی ڈالر تک فیس لیتے ہیں اور اس دوران پیدا ہونے والے ان کے بچے بھی چینی ریاست کی ملکیت سمجھے جاتے ہیں۔ پانڈوں کو کرائے پر دینے سے حاصل ہونے والی رقم کا نصف اس نسل کی پرورش اور حفاظت پر خر چ کیا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں جنگلی حیات یعنی وائلڈ لائف کی بہبود کے ادارے (WWF) کا علامتی لوگو (Logo) یا نشان بھی پانڈے کی تصویر پر مشتمل ہے۔ یہ تصویر 1961ء میں لندن کے چڑیا گھر میں لائے گئے پانڈے 'چی چی‘ سے متاثر ہو کر بنائی گئی تھی۔اس کے ڈیزائنر سر پیٹر سکاٹ نے جنگلی حیات کی علامت کے طور پر پانڈے کے انتخاب کی وجوہ بتاتے ہوئے کہا تھا کہ ' ہم کسی ایسے جانور کی تصویر چاہتے تھے جو خوبصورت ہو ‘ بہت کم پایا جاتا ہو اور لوگو ں کا پسندیدہ بھی ہو ۔ ساتھ ساتھ پانڈے کے صرف سفید اور سیاہ رنگ کا ہونے کے باعث پرنٹنگ کے اخراجات بھی کم ہو رہے تھے۔
دنیا میں شاید ہی کسی جانور کے خوبصورتی اور کمیابی کے باعث پانڈوں کے جتنے لاڈ اُٹھائے گئے ہوں۔ اس کی مقبولیت نے چین کو بھی بین الا قوامی طور پر ایک منفرد شہرت دی ہے۔ دیوار چین‘ سمر پیلس اور بے شمار تاریخی مقامات کی موجودگی میں پانڈے صاحب کی مقبولیت سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگر قسمت اچھی ہو تو سارا دن لوٹ پوٹ کر آرام کرنے اور کھانے کے باوجود بھی دنیا قدر کرتی ہے۔ شاید اسی لئے ہم بجا طور پر پانڈے کو چین کا قومی نواب قرار دے سکتے ہیں۔ ویسے تو کچھ لوگ عادات میں پانڈوں کی ہی طر ح ہوتے ہیں لیکن پانڈوں کے بر عکس ان کو پسند کرنے والے ڈھو نڈنے سے بھی نہ ملیں۔