پاکستان ٹیلی ویژن پر برسوں قبل نشر ہونے والے ایک پُرمزاح ڈرامے ' چھوٹی سی دنیا ‘ کا ایک منظر بہت ہی دلچسپ تھا‘ دوبارہ ذکر کرنے سے شاید کچھ لوگوں کی یادداشت میں وہ تازہ ہو جائے۔ کہانی کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ سندھ کے ایک گائوں کے باشندے نے ایک انگریزکو سانپ کے کاٹنے سے بچایا۔ انگریز مہمان جو غالباً آثار قدیمہ کی تحقیق کے سلسلے میں آیا ہو تھااپنے اس ملازم کو خوش ہو کر کچھ برس کے لئے اپنے ساتھ انگلینڈ لے گیا۔ اصل ڈرامہ اس دیہاتی کی گائوں واپسی سے شروع ہوتا ہے جب سارا گائوں بشمول اْ س کی سادہ مزاج بیوی اْس کے گورا صاحب والے سوٹ بوٹ اور طور طریقوں سے حیران و پریشان ہیں۔اسی ڈرامے کے ایک منظر میں گائوں والوںکا ایک گروپ انگلینڈ سے آنے والے کردار مراد علی خان کی انگریزی کا امتحان لینے کے لئے ایک نیم خواندہ شخص کو مقابلے پرڈھونڈ لاتے ہیںجو 'جانو جرمن‘ کے نام سے مشہور ہے۔ گائوں کے سادہ لوح بزرگ اس مقابلے کے جج بنتے ہیں اور جانو جرمن نامی فراڈ‘مراد علی خان کی انگریزی کے جواب میں مسلسل انگریزی کی گنتی سناتا جاتا ہے۔ دیہاتی جج جو خو د انگریزی کے ایک لفظ سے بھی واقف نہیں ہیں درست انگریزی بولنے والے مراد علی خان کے مقابلے میں جانو جرمن کو اس لئے فاتح قرار دے دیتے ہیں کہ مراد علی اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے ایک دیہاتی کا نام اور لفظ گلاس اپنے جملے میں استعمال کر لیتا ہے جو ان کے خیال میں مقامی الفاظ ہو گئے۔ جانو جرمن ہربات میں صرف انگریزی کی اْلٹی سیدھی گنتی سناتا ہے اورتھینک یو‘گْڈ بائے وغیرہ کے الفاظ استعمال کرتے ہوئے مقابلہ جیت جاتا ہے اور اس کے حامی دیہاتی خوب خوشیاں مناتے ہیں۔ عبدالقادر جونیجو کی دلکش تحریر والے اس ڈرامے میں ولایت پلٹ دیہاتی کا کردار محمد یوسف نے بہت عمدگی سے ادا کیا تھا اور اس ڈرامے کا یہ منظر بہت مقبول ہوا۔ اس منظر کو آپ اب بھی یو ٹیوب پر دیکھ کر لْطف اندوز ہو سکتے ہیں۔
پاکستانی ڈرامے کا یہ منظر یاد آنے کی وجہ ایک دوست کا موبائل فون پر بھیجے جانے والا ایک پیغام بنا ۔ یہ پیغام دراصل چینی سے انگریزی زبان میں تر جمہ کئے جانے والے چند ایسے جْملوں کی تصاویر پر مبنی تھا جو معصومانہ غلطیوں کے باعث کافی مزاحیہ بن چکی تھیں۔ ترجمے یا املا کی یہ غلطیاں غیر ملکیوں کے لئے اکثر حیرانی ‘پریشانی یا پھرقہقہوں کا باعث بن جاتی ہیں۔ چند ایک ترجمے تو اتنے معنی خیز ہوتے ہیں کہ ان کا ذکر بھی نہیں ہو سکتا۔ دراصل یہ دلچسپ ترجمے چینی انگریزی یا "Chinglish" کی ایک شکل ہیں اور یہاں ان کے بیان کامقصد محض لطف اندوز ہونا ہے مجھے چینیوں کی اپنی زبان سے محبت اور قدر کا بڑا اعتراف ہے اور میں ہر گز بھی محض انگریزی کو ترقی یا تہذیب کا معیار نہیں مانتا۔چند ایک کی مثالیں تفریح طبع کے لئے حاضر ہیں مثلاً صفائی کے دوران گیلے فرش والے حصے پر آگے آنے سے رکنے کا اشارہ دینے والے بورڈ پر لکھا ہوا تھا "Execution in progress" ۔ اسی طرح معذور افراد کے بیت الخلا ء کے باہر موجود نشان پر کیا گیا تر جمہ کچھ یوں بنتا تھا "Deformed Man End Place"۔ باہر جانے یا ایگزٹ کے نشان کا تر جمہ "Export" لکھا ہوا تھا۔ اسی طرح اسکرو ڈرائیور‘پلاس اور کٹر کے ایک پیکٹ پر"Manicure set" چھپا ہوا تھا۔ ایک نشان میں لوگوں کو آگے سر بچا کر احتیاط سے چلنے کے لئے لکھی گئی چینی عبارت کا تر جمہ "Careful, Collision head" تھا۔
اب ان چند ایک چٹکلوں سے ہٹ کر اصل بات کر لیتے ہیں جس سے قارئین کو پڑھے لکھے چینی مزاج اور چینی زبان کی اہمیت کا اندازہ بھی ہو جائے گا۔ گذشتہ ماہ شنگھائی کے فلم میوزیم میں ہالی وڈ کی شہرہ آفاق فلم ' کاسابلانکا‘ (Casablanca) کی خصوصی نمائش کا اہتمام کیا گیا۔ یہ اہتمام سویڈن کے قونصلیٹ کی جانب سے اس فلم کی سویڈش نژاد ہیروئن اور اپنے وقت کی حسین ترین اداکارہ انگرڈ بر گ مین کی100 ویں سالگرہ اور سوئیڈن کے قومی دن کی مشترکہ خوشی میں کیا گیا تھا۔ غیر ملکیوں کے علاوہ ایک بڑی تعداد میں چینی باشندے بھی اس موقعے پر موجود تھے۔ فلم شروع ہونے سے قبل تعارفی کلمات کے بعدانگرڈ برگ مین کی شخصیت اور فلم پر ایک لیکچربھی انگریزی زبان میں دیا گیا جس کا ایک خاتون چینی زبان میں تر جمہ بھی کرتی جا رہی تھی۔ میرا تاثر یہی تھا کہ اکثرلوگ انگریزی سے ناواقف ہیں لیکن پوری فلم کے دوران چینی میںسب ٹائٹلز (Subtitles)نہ چلنے کے باوجود جس طرح شائقین نے انگریزی مکالمات کو سراہا وہ بہت متاثر کن تھا جن مکالمات پر جس قسم کا ردعمل درکار تھا وہی ان چینی شائقین کی طرف سے دیا گیا۔ بڑی اسکرین پر یہ فلم پہلی بار دیکھنے کا یہ تجربہ لوگوں کی عمدہ داد کے باعث دوچند ہو گیا۔ ذہنوں میں یہ سوال آسکتا ہے کہ آخر جب انگریزی سب ہی سمجھتے تھے تو اضافی آدھا گھنٹہ چینی تر جمے پر کیوں صرف کیا گیا۔ جواب بڑا سادہ ہے کہ یہاں کی رسمی اور خصوصی تقاریب میںچاہے وہ کاروباری ہوں یا سرکاری چینی زبان کا استعمال لازمی ہو گا۔ سیمینارز ہوں یا رسمی تقاریب ہر تقریر یا لیکچر پہلے چینی زبان میں ہی سننا پڑتا ہے۔پاکستان کے بر عکس یہاں کا حکمران اور با رسوخ طبقہ اس معاملے میں نہایت حساس اور محتاط ہے۔
دنیا سے بڑے پیمانے پر تجارت اور تعلق کے باعث چین میں انگریزی زبان سمیت سارے بین الا قوامی رجحانات پروان چڑھ رہے ہیں۔ یہاں اسکول سے ہی انگریز ی بحیثیت زبان پڑھانے کا بندوبست ہو رہا ہے۔ انگریزی پڑھانے اور سکھانے کے اداروں کا کاروبار بھی خوب چلتا ہے۔ انگریزی بولنے والے ممالک کے اسا تذہ جن میں امریکہ‘کینیڈا‘برطانیہ اور آسٹریلیا وغیرہ شامل ہیں یہاں کافی معقول معاوضوں پر کام کر رہے ہیں۔ لوگوں میں اس بات کا احساس بڑھ رہا ہے کہ اچھی انگریزی ان کی پیشہ ورانہ ترقی میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ بیرون ملک سے پڑھ کر آنے والے چینی باشندے بھی انگریزی زبان اور مغربی رجحانات اپنے ساتھ لا رہے ہیں بلکہ دیگر یورپین زبانوں خصوصاً فرنچ ‘اٹالین اور جرمن میں بھی دلچسپی لی جارہی ہے۔ مجموعی طور پر چینی قوم میں اس بات کا ادراک بڑھ رہا ہے کہ آنے والے برسوں میں چین کا بیرونی دنیا سے تعلق اور لین دین محض گاہک اور سامان بیچنے والے کا نہیں رہے گا۔ ملک کے بڑھتے ہوئے عالمی
اثر و رسوخ کے نتیجے میں یہاںکے لوگوں کو بھی بیرونی دنیا سے اپنے رابطے بڑھانے ہوں گے اور اس مقصد کے لئے دیگر زبانوں خصوصاً انگریزی میں مہارت درکار ہو گی۔ ان تمام حقائق اور بدلتے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کے ساتھ یہاں اس بات پر بھی سوچ بچار جاری ہے کہ اندھا دھند تقلید نہ کی جائے۔ یہاںکے پالیسی ساز‘چینی زبان خصوصاً ہاتھ سے چینی لکھنے کی اہمیت پر زور دے رہے ہیں تاکہ طلباء میں چینی زبان کے کردار وں سے شناسائی برقرار رہے۔ ہزاروں کی تعداد میں چینی زبان کے الفاظ جو حروف تہجی کے نہ ہونے کے باعث کرداروں کی شکل میں پائے جاتے ہیں طالب علموں کے لئے لکھنا اور ذہن نشین کرنا کالج کا امتحان پاس کرنے کے لئے لازمی ہیں۔ چینی زبان میں روایتی مہارت حاصل کرنے کے ساتھ اچھی انگریزی بھی سیکھناطلباء کے لئے ایک منفرد اور مشکل چیلنج ہے ۔
مختلف زبانوں میں مہا رت حاصل کرنا ایک بہت بڑی خوبی ہے۔ چینی عوام کی اکثریت کا انگریزی سمیت دیگر غیر ملکی زبانوں سے واسطہ باقی دنیا کے مقابلے میں نسبتاً دیر سے پڑا ہے لیکن اس کم عرصے میں بھی لوگوں نے انگریزی بہت تیزی سے سیکھی ہے۔ چینی باشندوںخصوصاً نو جوان اور شہری طبقوں میں امریکی اور یورپین کلچر کی پذیرائی بڑھ رہی ہے اور لوگ اپنے آپ کو گلوبل رجحانات سے جو ڑنا چا ہتے ہیں ۔ اسی طرح مجھ سمیت پوری دنیا سے لاکھوںلوگ چینی زبان اور رہن سہن سے واقفیت حاصل کر رہے ہیں اور یوں رابطے کا ایک سلسلہ ہے جو جاری وساری ہے۔ اب دنیا کا کوئی گوشہ یا معاشرہ کٹ کر نہیں رہ سکتا جب مل جل کر جینا ہے تو ایک دوسروں کے بارے میں جاننا اور سمجھنا ضروری ہو گا‘اور نئی زبانوں کا سیکھنا یہ کام بہت آسان کر دے گا۔