انڈر گرائونڈ میٹرو اسٹیشن کے اسٹاپ پر اپنی ٹرین کے انتظار میں بیٹھا ہوا میںاپنے ہاتھ میں موجود کارڈز پر لکھے چینی الفاظ اور ان کے معنی ذہن نشین کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اپنی لینگویج کی کلاس والے روز اکثرصبح کو یہی معمول ہوتا تھا تاکہ سفر کے اس آدھ پون گھنٹے میں کچھ دہرا لیا جائے۔ ساتھ ہی بیٹھی ایک بڑی عمر کی چینی خاتون اور اس کے شوہر نے کافی دلچسپی سے میرے ہاتھ میں موجود کارڈز دیکھے۔ ان کی مسکراہٹ اور دلچسپی دیکھ کر میں نے بھی ایک ہلکی سی مسکراہٹ سے جواب دیا۔ اکثر چینی اجنبیوں سے بات یا تعارف میں پہل بہت کم ہی کرتے ہیں اس لئے مجھے ایک طرح کی خوشگوار حیرت بھی ہوئی ۔ میرے رد عمل سے متاثر ہو کر انہوں نے قریب ہی بیٹھے اپنے چھ سات سال کے پوتے کو ان کارڈز کی طرف متوجہ کر کے بتایا کہ دیکھو یہ کیا یاد کر رہا ہے۔ صحت مند اور صاف ستھرا بچہ ذرا ہچکچاتے ہوئے قریب آیا اور میرے ہاتھ میں موجود کارڈزکو آہستہ سے پڑھنے لگا۔ بچے کی دادی نے ان کارڈز پر لکھے ہوئے الفاظ میں لکھائی کی ایک آدھ غلطی کی طرف نشاندہی کی اور ساتھ ہی اس بات پر خوشی کا بھی اظہار کیا کہ میں چینی زبان پر اتنی محنت کر رہا ہوں ۔ دل ہی دل میں شر مندہ میں انہیں کیا بتاتا کہ میری لینگویج ٹیچر شاید ان سے اتفاق نہ کرے لیکن بہرحال ان کا اصل مقصد اپنے پوتے کو شاید پڑھائی کا یہ طریقہ دکھاکر اس کی بھی حوصلہ افزائی کرنا تھی۔چین میں بچوں کو ان کے والدین کے مقابلے میں نانا ‘ نانی یا دادا ‘دادی کے ہمراہ زیادہ دیکھنا ایک بہت عام سی بات ہے کیونکہ بچوں کی پرورش میں ان کا کردار بہت زیادہ ہوتاہے جس کی وجوہ اور اثرات دونوں ہی بڑے انوکھے اودلچسپ ہیں۔
آج کل گرمیوں کی تعطیلات کے باعث تفریح گاہوں اور پبلک ٹرانسپورٹ پر دن کے اوقات میں کافی رش نظر آتا ہے اور اکثر بچوں کے ہمراہ والدین سے زیادہ ان والدین کے امی ابو بچوں کو گھماتے پھراتے نظر آتے ہیں۔ صرف یہی نہیں کہ وہ بچوں کے ہمراہ ہوتے ہیں بلکہ اتنے مستعد کہ اگر ایک بچے پر ہاتھ سے پنکھا جھل رہا ہے تو دوسرا اس کو پانی یا کوئی مشروب بھی پیش کرنے میں مصروف ہے۔ گو کہ بچوں کے ہمراہ والدین اور خصوصاً مائیں بھی نظر آجاتی ہیںلیکن بزرگ والدین کی اپنے نواسوں ‘ پوتیوں وغیرہ کے ہمراہ اتنی نمایاں موجودگی ایک اجنبی کے لئے حیرت کا باعث بن جاتی ہے ۔ چین کی تیز صنعتی اور معاشی ترقی نے یہاں کی سوسائٹی کو بہت کم عرصے میں ایسے منفرد چیلنجز دئیے جن کی مثال دنیا کے دوسرے معاشروں میں اتنے بڑے پیمانے پر ملنا بہت ہی مشکل ہے۔صدیوں سے ایک روایتی جڑے ہوئے خاندانوں میں رہنے کے عادی اس معاشرے کو پہلے سخت گیر سوشلسٹ نظرئیے کے لئے اپنی بہت سی اقدار کی قربانی دینی پڑی‘ اور پھر جب ملک میں 1978 ء کے بعد کی اصلاحات کے نتیجے میںنئے صنعتی شہر بسناشروع ہوئے تو ایک ہی ملک میں انسانوں نے روزگار کے لئے انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت کی۔ بہتر روزگار اور ترقی کی تلاش میں جانے والے شادی شدہ جوڑوں کو بچے اپنے والدین کے حوالے کرنا پڑے اور یوںوالدین کی ایک پوری غیر حاضر نسل جسے (Skipped Generation) کہا جاتا ہے وجود میں آئی جو ایک انوکھا معاشرتی تجربہ تھا۔آج چین کے دیہی اور دور دراز علاقوں میں بچوں کا اپنے والدین کے بغیر دادا ‘ دادی وغیرہ کے زیر نگرانی پرورش پانا کوئی غیر معمولی بات نہیں۔
اس سماجی تجربے میں اگر 1980 ء کے عشرے کی فی خاندان ایک بچے کی پالیسی کو بھی شامل کر لیا جائے تو صورتحال اور بھی منفرد ہو جاتی ہیـ۔کیا بوڑھے ہوتے یہ بزرگ بچوں کی دیکھ بھال کے لئے ایک آئیڈیل حل ہیں؟ اس سوال کا جواب اتنا آسان تو نہیں لیکن بچوں کے والدین ان کو اپنے ماں باپ کی نگرانی میں دینا زیادہ محفوظ خیال کرتے ہیں ۔ ایک دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ ساٹھ برس سے اوپر ہوتے بچوں کے یہ نگران بزرگ عمومی طور پر چا ق و چوبند ہوتے ہیں اور اس کام کو خاصی دلچسپی سے کرتے ہیں۔ جہاں تک چاق وچوبند رہنے کا تعلق ہے تو اس کی واضح مثال آپ صبح سویرے اور مغرب کے بعد ان لوگوں کو پارکس اور کھلی جگہوں پر ہلکی پھلکی مشقیں اور رقص کرتے ہوئے دیکھ کر سمجھ جائیں گے۔ والدین کے مقابلے میں بچوں کو ان بزرگوں سے زیادہ لاڈ پیار اور توجہ ملتی ہے جس کے باعث چند ایک مسائل بھی جنم لے رہے ہیں۔ حال ہی میں آنے والی ایک رپورٹ کے مطابق چینی بچوں میں بڑھتے ہوئے موٹاپے کی وجہ یہی نرمی اور لاڈ ہے جس میں بزرگ والدین ان کو ضرورت سے زیادہ کھلا پلا کر خوش ہوتے ہیں بلکہ میٹھی اور رنگ برنگی چیزیں کھانے کے معاملے میں بھی بچوں کی ضد کے آگے جلد ہتھیار ڈال دیتے ہیں۔ ان کے خیال میں بچے کا موٹا ہونا
صحت مندی کی نشانی ہے۔ ایک اور اہم بات شاید یہ بھی ہے کہ بزرگوں کی اس نسل نے بھوک اور بد حالی کے بڑے تلخ تجربات سہے ہیں اور یوں ان بچوں کو زیادہ کھلا پلا کر شایدوہ ان دنوں کی محرومی کا مداوا کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔اسی صورت حال کی وجہ سے اب یہ خیال بھی زور پکڑ رہا ہے کہ بچوں کی دیکھ بھال کے حوالے سے ان بزرگوں کو بھی باقاعدہ تربیت دی جائے جس کے لئے اب محدود پیمانے پر ایسے ادارے بھی وجود میں آرہے ہیں‘ جو ان کو پرورش کے زیادہ مناسب طریقے بتائیں گے بلکہ شاید یہ یاد دہانی بھی کروائیں کے ان کے اپنے ماں باپ نے ان کی پرورش کس طرح کان کھینچتے ہوئے کی تھی۔ویسے یہ امکان کم ہی ہے کہ یہ بزرگ ایسا کریں پائیں۔
ان تمام باتوں سے یہ تاثر لینا کہ ان بچوں کے اپنے ماں باپ لا پروا یا خود غرض ہیں غلط ہو گا۔ میرے مشاہدے کے مطابق چینی والدین اپنے بچوں کے معاملے میں بہت حساس ہوتے ہیں اور ان کے لئے ہر طرح کی سہولت فراہم کرنے پر بھی کمر بستہ ‘خصوصاً جب اولادیں بھی ایک دو سے زیادہ نہ ہوں۔ وہ نہ صرف بچوں کی تعلیم بلکہ دیگر سہو لیات جن میں موسیقی ‘ رقص سے لے کر کھیل کود اورپینٹنگز سیکھنے تک کے علیحدہ اخراجات شامل ہیں پورا کرنے کی بھر پور کوشش کرتے ہیں۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ تمام والدین اتنے خوش قسمت نہیں کہ وہ مطلوبہ آمدنی وہیں کما سکیں جہاں ان کی آبائی رہائش ہے۔ چینی مائیںبھی اس معاشی بوجھ میں برابر کی شریک رہتی ہیں اس لئے وہ پرورش کے معاملے میں اپنے والدین کی طرف دیکھتے ہیں جو ان
کے نزدیک ایک بہترین اور محفوظ حل ہے۔ اگر یہ قابل اعتماد رشتے اس موقعے پر مدد نہ کریں تو چھوٹے بچوں کی دیکھ بھال کے ڈے کیئر سینٹرز کی ضرورت بڑھتی جائے گی جن کے معیار پر ہر کسی کوپورا اطمینان نہیں ہو سکتا ۔ جب آپ ہزاروں کلومیٹر پر پھیلی برق رفتار ٹرینوں کے ٹریکس‘ سمندروں اور دریائوں پر معلق طویل ْپل یا میلوں پر محیط سرنگوں سے گزرتے ہوئے یہاں کی معجزاتی ترقی کو حیرت اور خوشی سے دیکھتے ہیں تو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اس کے پیچھے کام کرنے والی افرادی قوت کے پاس روز شام کو اپنے گھر والوں کے ساتھ بیٹھ کر چائے سموسے کھانے کی آسائش میسر نہیں تھی۔ اس اعتبار سے چین کی اس بزرگ نسل نے بچوں کی دیکھ بھال جیسا مشکل کام لے کر دراصل چین کی موجودہ ترقی میں ایک بہت بڑا کردار ادا کیا ہے۔
ا کثر ویک اینڈز پر ایک پاکستانی کاروباری دوست کے شو روم پرجا کر گپ شپ لگاتے ہوئے آس پاس کی دکانوں پر دوڑتے بھاگتے بچوں اور ان کی نانیوں دادیوں کو دیکھنا میرا ایک عام مشاہدہ ہے ۔ان بچوں کے اپنے والدین کاموں میں اس لئے اطمینان سے مصروف ہوتے ہیںکیونکہ ان کے ماں باپ میں سے کوئی نہ کوئی ان کے بچوں کو بخوشی دیکھ رہا ہوتا ہے۔تصویر کا ایک رخ تو ان بزرگوں کی اپنی اولاد کی اولاد پر نظر رکھنا ہے لیکن ایک اور رخ اس بوڑھی نسل کی اپنی دیکھ بھال کے مسائل بھی ہیں۔ ان کی نوجوان اولادیں دور ہونے کے باعث اپنے والدین کی دیکھ بھال سے قاصر ہوتی ہیں جو آج کے چین کا بہت سلگتا ہواسماجی مسئلہ ہے۔ اس موضوع پر تفصیل سے پھر کبھی بات ہو گی فی الحال اپنی اولاد کے بچوں کی دیکھ بھال کرنے میں مصروف ان بزرگوں کے کردار کو ہی سراہا جائے تو کافی ہو گاجو رضا کارانہ طور پر خاموشی اور نہایت خوشی سے یہ کام کئے جا رہے ہیں۔