14 اگست کے موقع پر شنگھائی اور اس کے گرد ونواح کی پاکستانی کمیونٹی یہاں کے پاکستانی قونصل خانے میں موجود تھی۔ کم وبیش نوے پاکستانی اس موقع پر آئے اور اکثر اپنے اہل خانہ کے ہمراہ تھے ۔ بچے قونصل خانے کی جانب سے دئیے گئے پرچم ہاتھوں میں لئے خوشی سے اِدھر اُدھر بھاگ دوڑ رہے تھے۔ قونصل خانے کا عملہ کیک سجانے اور ایک منفرد روایت یعنی حلوہ پوری اور گلاب جامنوں کے تھال لگانے میں مصروف تھا ۔ سمجھیں ناشتہ اور لنچ مل کر ایک برنچ تیار ہو رہا تھا۔پس منظر میں قومی نغمے بھی دھیمے سروں میں بج رہے تھے اور یوں پورے ماحول میں ایک واضح گرمجوشی اور ْامید کی فضا تھی۔ خواتین اور مرد گروپس کی شکل میں گپ شپ لگا رہے تھے جبکہ ارد گرد بچے ایک دوسرے کے ساتھ کھیل کود میں مصروف تھے۔ کئی پاکستانی گھنٹوں کی ڈرائیونگ کے بعد قریبی تجارتی شہروں سے اس تقریب میں شرکت کے لئے پہنچے تھے۔ ایک صاحب اپنی چینی بیوی اور بچوں کے ہمراہ صبح چھ بجے گھر سے نکل کر تین گھنٹے کی ڈرائیونگ کر کے یہاں اولین پہنچنے والوں میں تھے اور ہشاش بشاش نظر آرہے تھے۔ ان لوگوں کے درمیان ٹہلتے ہوئے ارادی یا شاید غیر ارادی طور پر میرے قدم پوریوں اور چنوں کی لگائی جانے والی ٹیبلوں کی طرف چلے جاتے تھے۔ صاف بات ہے‘ اس حلوہ پوری کی خوشی میں صبح سے میں نے چائے کا صرف ایک کپ پی رکھا تھا۔ قونصل خانے کا مختصر سا عملہ بشمول اپنی قائمقام خاتون قونصل جنرل سمیت تندہی سے انتظامات اور لوگوں کے استقبال میں مصروف تھا۔شنگھائی میں پاکستانی کمیونٹی محض چند سو افراد پر مشتمل ہے اور اگر قریبی شہروں کو بھی شامل کر لیں تو بمشکل چند ہزار تک ہی پہنچ پائے گی۔ اکثریت کاروباری لوگ یا طلباء ہیں۔آئیے چند ایک پاکستانیوں سے تعارف کروادیتا ہوںجو اس موقع پر موجود تھے ۔میں ان سب کو محض ایک پاکستانی کہہ کر ہی متعارف کرائوں گاکہ اس دن کے لئے یہی نام کافی تھا۔
شائو شنگ کائونٹی کے شہر کھچیائو کے ایک معروف کاروباری پاکستانی‘ جن کا تعلق پشاور سے ہے‘ گزشتہ ستائیس برس سے چین میں مقیم ہیں۔ سادہ‘ صاف گو اور ہر دم تازہ یہ پاکستانی فرفر چینی بولتے ہیں ۔ باتیں اتنی سادہ اور سیدھی کرتے ہیں کہ ہم جیسے جلیبی کی طرح باتیں بنانے والے اس صاف گوئی پر حیران رہ جاتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ان کے شہر جانا ہوا تو دفتر میں موجود ایک کمرے کی فرشی نشست پر بیٹھ کر ان کے گھر کے نان اور نمکین کڑاہی کھائی‘ بالکل اسی طرح جیسے پشاور کے کسی گھر کا مہمان خانہ ہو۔ جس روانی اور مہارت سے وہ اپنے چینی سٹاف کو ساتھ ساتھ ہدایات جاری کر رہے تھے اس سے کاروباری معاملات پر ان کی گرفت کا خوب اندازہ ہوا۔ پاکستانی کمیونٹی کے کسی فرد کو کوئی بھی مشکل درپیش ہو وہ اپنی رضا کارانہ خدمات پیش کرنے کے لئے تیاررہتے ہیں۔ وہ صبح سویرے کئی گھنٹے کی مسافت طے کر کے شنگھائی پہنچے تھے ۔لاہور سے تعلق رکھنے والی ایک نوجوان خاتون‘ جو شنگھائی کی ایک کمپنی میں فیشن ڈیزائنر کے طور پر کام کر رہی ہیں‘ اپنے دفتر سے آدھے دن کی رخصت لے کر یہاں موجود تھیں۔ یہ خاتون اور ان کے آرکیٹیکٹ شوہر شنگھائی کی معروف کمپنیوں میں ترقی کی منازل طے کر رہے ہیں ۔ کراچی سے تعلق رکھنے والی یہاں مقیم ایک کاروباری شخصیت اپنی چینی بیوی اوربچوں کے ہمراہ نہایت اہتمام سے قمیض شلوار پہن کر موجود تھے۔ کراچی سے ہی تعلق رکھنے والے ایک صاحب‘ جو غالباً ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں کام کرتے ہیں‘ خاص طور پر سبز رنگ کا کرتہ پہن کر اس تقریب میں شریک تھے۔
میانوالی سے تعلق رکھنے والا ایک نوجوان جوڑا بھی یہاں موجود تھا ۔ شوہر صاحب شنگھائی کے نواح میں ایک کمپنی میں بطور کنسلٹنٹ کام کرتے ہیں۔ یہ لوگ تقریباً ایک گھنٹے کی مسافت طے کر کے نہ صرف خود یہاں پہنچے تھے بلکہ کمپنی کے پاکستانی باس کی فیملی بھی ہمراہ تھی‘ جن کے بچوں نے عید کی طرح تیار ہو کر نہ صرف خوبصورت کپڑے زیب تن کئے ہوئے تھے بلکہ پاکستانی پر چموں کے بیج بھی لگا رکھے تھے۔یہ یاد رہے کہ شنگھائی میں یہ ایک مصروف ورکنگ ڈے تھا اور ہر کسی کے لئے کام سے رخصت لینا ممکن نہ تھا۔ اس شہر میں طویل عرصے سے مقیم ایک اور معروف کاروباری شخصیت اپنی ہنستی کھیلتی دو بچیوں کے ہمراہ موجود تھے ۔ چینی اور پاکستانی نقوش کی حامل یہ معصوم بچیاں نہایت خوبصورت پاکستانی لباس پہنے ہوئے تھیں۔ شنگھائی کی مختلف یونیورسٹیوں کے پاکستانی طلباء بھی موجود تھے‘ جن میں سے اکثر طلباء و طالبات پی ایچ ڈی کی سطح پر ریسرچ میں مصروف ہیں۔ قائمقام خاتون قونصل جنرل نے ان طلباء و طالبات سے اپنے دیرینہ تعلقات کا استعمال کرتے ہوئے ان کو مختلف ڈیوٹیاں دے دیں تھیں۔ چند ایک قونصل خانے کے عملے کے ہمراہ کھانے پینے کی میزیں لگانے میں لگ گئے تھے تو ایک طالبہ کے ذمے تقریب کی نظامت اور کمپیئرنگ تھی۔ قونصل خانے کا چینی عملہ اس گہما گہمی میں کام کرنے کے ساتھ ساتھ اس پُرجوش اور رنگ برنگے کرائوڈ کو دیکھ کر بھی خوش ہو رہا تھا۔ ان کے لئے چند پاکستانیوں کی چینی بیویوں کو روایتی قمیض شلوار میں ملبوس دیکھنا ایک انو کھا تجربہ تھا۔
ان پاکستانی مہمانوں کے علاوہ ایک چینی باشندہ مسٹر وانگ بھی خاص طور پر مدعو تھے۔ نہایت روانی سے ا ردو بولنے والے وانگ صاحب نے ساٹھ کی دہائی کے آخرمیں کر اچی یونیورسٹی سے اردو زبان کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی تھی۔ انہوں نے شاہراہ قراقرم کی تعمیر کے دوران سالوں مترجم کی خدمات بھی انجام دیں تھیں۔ ٹھہر ٹھہر کر نہایت شستہ اردو بولنے والے مسٹر وانگ نے جب کراچی یونیورسٹی کہنے کے بجائے جامعہ کراچی کے شعبہء ْاردو کا لفظ استعمال کیاتو بہت ہی بھلا معلوم ہوا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی وہ اکثر اوقات بحیثیت مترجم خدمات انجام دیتے رہتے ہیں۔ مسٹر وانگ کے پاس اس دور کے پاکستان چین تعلقات کے بارے میں اتنی یادداشتیں ہیں کہ کئی علیحدہ کالم ان پر لکھے جا سکتے ہیں۔ سب نے قومی ترانہ با آواز بلند پڑھا اور پاکستان زندہ باد اور پاک چین دوستی زندہ باد کے نعرے بھی بلند ہوئے۔ بچوں کوخاص طور پر آگے لا کرکیک کاٹا گیا اور لوگ اس موقع پر تصاویر بناتے رہے۔ ایک خوبصورت اور جدید کمرشل بلڈنگ کی گیارہویں منزل پر موجود قونصل خانے کا یہ آفس ایک روایتی پاکستانی شادی ہال کا سا منظر پیش کر رہا تھا۔ لوگ پوری ترکاری‘ پکوڑوں‘ چکن تکے‘ نمک پاروں اور گلاب جامنوں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے ایک دوسرے سے گپ شپ لگا رہے تھے۔
امریکہ‘ یورپ‘ کینیڈا یا مڈل ایسٹ میں مقیم لاکھوںپاکستانیوں کے مقابلے میں چین اور خصوصاً شنگھائی جیسے شہروں کی پاکستانی کمیونٹی کو ایک نیا اور چھوٹا سا اضافہ ہی سمجھیں گو کہ کئی پاکستانی یہاں عشروں سے آباد ہیں۔ چین پاکستان تعلقات کے بڑھتے ہوئے سکوپ میں آنے والا وقت دونوں ملکوں کے لوگوں کے لئے بھی امکانات کے نئے دروازے کھولے گا اور ممکن ہے کہ آئندہ برسوں میں یہ تعداد تیزی سے بڑھے۔اس تقریب میں پاکستان کے ہر چھوٹے بڑے علاقے سے تعلق رکھنے والے لوگ شریک تھے۔ ان میں نہایت کامیاب کاروباری شخصیات بھی تھیں اور وہ جوان طبقہ بھی تھا جو اپنے پیشہ ورانہ کیریئر کے درمیانے حصے میں ہے۔ یونیورسٹیوں کے طلباء وطالبات بھی موجود تھے‘ جنہوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز ابھی کرنا ہے اور سب سے بڑھ کر رنگ برنگے کپڑوں میں ملبوس ہر عمر کے بچے تھے۔پاکستان کے مختلف شہروں‘ قصبوں اور دیہات سے تعلق رکھنے والے مختلف مزاجوں‘ سماجی پس منظراورسیاسی خیالات کے حامل ان سب لوگوں میں ایک ہی تعلق کی گر مجوشی تھی ,اور وہ ان کا پاکستانی ہونا تھا۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے لوگوں کی چھٹی حس نے ان کو خبر کر دی ہے کہ مشکلات اور مصائب کی گھڑیاں تمام ہو رہی ہیں اور ایک مستحکم پاکستان جنم لے رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کافی عرصے بعد میرے احساسات بھی کچھ اسی نوعیت کے تھے اور یقین مانیں ان میں حلوہ پوری کا کچھ زیادہ ہاتھ نہ تھا۔ اس مختصر اور پُراثر تقریب میں پاکستانیوں کو حوصلہ مند دیکھ کر خوشی سے میں نے کئی گلاب جامنوں پر بھی ہاتھ صاف کرلیا اور یوں دیس کے یوم آزادی پر یہ دیسی ضیافت دوہرا مزا دے گئی۔