ذبح ہونے سے پہلے حلال ہوجانے والے بکرے

سب سے پہلے تو آپ کو کسی ضمنی انتخاب کے نتیجے کی طرح یہ غیر حتمی اور غیر سرکاری خبر دے دوںکہ شنگھائی شہر کے مضافات میں ایک عدد موٹا تازہ بکرا اٹھارہ سے بیس ہزار روپے میں قربانی کے لئے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ یہ اطلاع ہمیں ایک مقامی مسلم چینی ریسٹورنٹ کے ساتھیوں نے دی‘ جو ان جگہوں پر ایک بکرا خریدنے بلکہ وہیں اس کو فٹا فٹ ذبح اور صاف کر نے کے بعد پورا بکرا کندھے پر ڈال کر لانے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں۔ بات اگر قربانی‘گوشت اور کھانوں کی کرنی ہے تو پھر چین کے مسلمانوں اوران کے پکوانوںکی ہی کر لیتے ہیں۔چینی مسلمانوں کے چھوٹے چھوٹے ریسٹورنٹس شنگھائی سمیت چین کے تمام بڑے شہروں میں بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ان چھوٹی چھوٹی د کانوں کے دو حصے ہوتے ہیں‘ ایک نسبتاًکھلا ڈائننگ والا حصہ ‘ جہاں اوسطاً دس پندرہ لوگ بیک وقت بیٹھ کر کھا پی سکتے ہیں‘ جبکہ پیچھے ایک نہایت مختصر سا کچن ۔ یہ باورچی خانہ عموماً خواتین نے سنبھالا ہوتا ہے‘ جن کے سر مخصوص انداز کے اسکارف سے ڈھکے ہوتے ہیں۔ ان کے سر ڈھانپنے کا طریقہ ہمارے ہاں سر ڈھانپنے والی خواتین کے انداز سے بہت مختلف ہوتا ہے۔ یہ اسکارف زیادہ ترسیاہ رنگ کے ہوتے ہیں اور اس طرح باندھے جاتے ہیں کہ شانوں کے دونوں طرف سے کھلے لٹک رہے ہوتے ہیں۔ خواتین پھرتی سے مختلف کھانے تیار کرتی ہیں‘ جو اسی وقت گر ما گرم آپ کے سامنے آجاتے ہیں۔ ایسے ریسٹورنٹ ایک یا دو خاندان مل کر چلاتے ہیں۔ مرد عموماً ویٹر یا پھر آرڈر پر کھانوں کی باہر ڈلیوری کا کام کرتے ہیں۔ یہاں کھانے کا اوسط بل دس بارہ یوآن تک ہوتا ہے۔ سب سے کم قیمت میں نوڈلز کا بھرا ہوا پیالا ملتا ہے۔ سات یو آن کا ایک پیالہ تقریباً ایک سو پندرہ پاکستانی روپے کے برابر سمجھیں۔اس بڑے سے پیالے میں نوڈلز کی طویل لڑیاں اور گوشت کے چند باریک سے قتلے تیر رہے ہوتے ہیں۔ اس مخصوص ڈش کو 'لامیان ‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ نسبتاً مہنگی ڈشوں میں زیرے کے ساتھ گائے یا بکرے کے بھُنے ہوئے اور باریک کٹے ہوئے گوشت پرمشتمل ایک پلیٹ ہوتی ہے ‘جو پوری نما پراٹھے کے ٹکڑوں یا ابلے چاولوں کے ساتھ کھائی جا سکتی ہے۔ ایسے چھوٹے ریسٹورنٹس زیادہ تر چین کے شمال مغربی صوبے 'گانسو‘ کے دارالحکومت لانچو اور اس کے گرد ونواح میں آباد چینی مسلمانوں کی ملکیت ہوتے ہیں ۔
چینی مسلمانوں کی سب سے معروف نسل 'ہوئی‘ (Hui)کہلاتی ہے۔ یہ پورے ملک میں بکھری ہوئی ہے جبکہ اوغورمسلمان نسلی طور پر صوبے سنکیانگ Xinjiang) ( سے تعلق رکھتے ہیں‘ جس کی سرحدیں چین کے شمال مغرب میںوسط ایشیا کے ممالک قازقستان‘ کرغیزستان وغیرہ اور پاکستان میں گلگت سے ملتی ہیں۔ سمندر سے ہزاروں کلو میٹر دور آباد یہ خطہ خاصا سرد اورخشک ہے۔ جس کے میدان اور پہاڑ مویشی پالنے‘ خشک میوہ جات‘ انگوراور انار وغیرہ کی پیدا وارکے لئے آئیڈیل ہیں۔ شنگھائی میں جمعے کے روز بعض مساجد کے باہر چینی مسلمانوں کے کھانوں‘ خشک میوہ جات اور حلال گوشت کی جوعارضی مارکیٹیں لگتی ہیں‘ وہ آپ کو سنکیانگ کے کھانوں کا ابتدائی تعارف کروا دیتی ہیں۔ یہ عارضی اسٹا لز زیادہ تر گرما گرم تکے‘ جن میں ایک یا دو چربی کی بوٹیاں لازماً لگی ہوتی ہیں‘ تندوری نانوں کے ساتھ فروخت کرتے ہیں۔ آپ موٹے تنکوں میں سیخیں بنواکر نان کے ساتھ وہیںبیٹھ کر کھا سکتے ہیں۔ یہ تکے نمکین اور بغیر کسی تیز مصالحے کے ہوتے ہیں۔بعض لوگ ان پر ہلکا سا مرچوں والا پائوڈر چھڑک کر بھی کھاتے ہیں۔ میزوں پرسنہرے رنگ کی کیتلیوں میں قہوہ بھی موجود ہوتا ہے۔ گرما گرم سبزی مائل قہوہ جتنا چاہے نوش فرمائیں کوئی پابندی نہیں‘ بس یہ خیال رہے کہ ساتھ پڑے پلاسٹک کے کپ خاصے ہلکے سے ہوتے ہیں‘ جن میں گرم قہوہ پکڑے رکھنا ذرا مشکل کام ہے۔ دوسری اہم ڈش پلائو ہوتی ہے‘ جسے مقامی طور پر'پلاف‘(Pilaf) کہا جاتا ہے۔ بڑے دیگچوں میں بننے والا یہ پلائودیکھنے میں تو ممکن ہے ہمارے پلائو سے زیادہ مختلف نہ ہو‘ لیکن انتہائی چربی والے گوشت کا یہ پلاف کھانا کافی ہمت کا کام ہے‘ جو ہم نے اب تک صرف ایک ہی بار کیا ہے۔ ' سمسہ‘ نام کے مزیدار اور خستہ پیٹیز تنور میں لگائے جاتے ہیں۔ان کے اندر موٹے قیمے کی طرح کاگوشت بھرا ہوتا ہے اور یہ تازہ اور گرم ہی کھائے جائیں تو بہتر ہے۔ ان کھانوں میں استعمال ہونے والے گوشت میں چربی کو بہت زیادہ صاف کرنے کا تکلف نہیں کیا جاتا‘ جس کی بنیادی وجہ سنکیانگ کا عمومی سرد موسم اور دشوارپہاڑی علاقے ہیں جہاں گوشت میں چکنائی کا استعمال عام ہے۔ اسی طرح یہاںروسٹ کی ہوئی مرغیاں اور تازہ گوشت کے اسٹالز بھی ہیں‘ جہاں سے آپ حلال گوشت خرید سکتے ہیں۔ یہ یاد رہے کہ گوشت آپ یہاں سے لیں یا آرڈر پر منگوائیں اس کی چربی خود سے صاف کرنے میں طبیعت صاف ہو جاتی ہے۔
کھانے پینے کے چھوٹے ڈھابے نما ریسٹورنٹس کے علاوہ چین کے ہر بڑے شہر میں سنکیانگ کے مسلمانوں کے خصوصی اور مشہور ریسٹورنٹس بھی ہیں‘ جو اپنے لذیذ کھانوں کی وجہ سے خاصے مقبول ہیں۔ اسی طرح کے ایک بڑے ریسٹورنٹ میں مٹن کی روسٹ ہوئی چانپیں ‘ تکے‘کباب اور ایک خصوصی ڈش چکن کے گوشت اور سبزیوں کے ہمراہ بڑی پلیٹوںمیں پیش کی جاتی ہے۔ بکرے کے گوشت کا سوپ نماشوربہ‘ جسے مقامی طور پرشرپہ بھی کہہ سکتے ہیں‘ کافی لذیذ ہوتا ہے۔ یہاں آلو بخارے کا شربت بھی کسی ہیوی ویٹ فالودے سے کم نہیں ہوتا اور سبز انگور کا جوس (سو فیصد حلال) بھی بہت مزیدار ہوتا ہے۔ حیرت انگیز طور پر یہاں کھانا ہمیں بہت سستا پڑتا ہے کیونکہ اس کے بعد چوبیس گھنٹے تک مزید کھانے کی ضرورت نہیں پڑتی اور محض چائے پر گزارا ہو جاتا ہے۔ یہ بات کراچی کے ایک اوسط معدے کے لحاظ سے کی گئی ہے۔ جو لوگ کھا کھا کر تھک جانے کے باعث مجبوراً ہاتھ روکتے ہیں‘ ان پر اس بات کا اطلاق نہیں ہوتا۔ تندوری نان بھی اکثر مساجد کے باہر اور چند ایک مخصوص دکانوں پرمل جاتے ہیں‘ جوکافی موٹے اور نسبتاً سخت ہوتے ہیں اور چند گھنٹوں میں ہی ایک بڑے سے بسکٹ کی شکل اختیار کر جاتے ہیں ۔
چین میں آباد کم وبیش دو کروڑ مسلمانوں کو یہاں کی ایک اہم اقلیت کا درجہ حاصل ہے‘ جن میں 'ہوئی ‘ اور 'اوغور‘ دو سب سے بڑے گروہ ہیں‘لیکن یہ چین کی کل آبادی کے بمشکل ڈیڑھ فیصد کے قریب بنتے ہیں۔ 1978ء کے بعد چین کی بدلتی پالیسیوں کے باعث دیگر مذاہب اور عقائد کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو بھی اپنی مذہبی رسومات ادا کرنے کی آزادی ملی ۔دونوں عیدوں کے تہوار یہاں خاصی سہولت سے منائے جاتے ہیں اور عیدالاضحی کے موقعے پر قربانی کا بھی بند و بست ہوتا ہے۔روایتی طور پر چینی مسلم اقلیت کا ایک بڑا حصہ چین کے شمال مغربی صوبوں کی آبادی پر مشتمل ہے جو کھیتی باڑی‘ مویشی پالنے کے علاوہ تجارت اور کاروبار بھی کرتی ہے۔ سنکیانگ کے لوگوں کی تجارتی صلاحیتوں کی بھی خاصی شہرت ہے۔ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد مزدوری کے لئے بھی چین کے بڑے شہروں کا رخ کرتی ہے اور اپنے قدرے مختلف نقوش کی وجہ سے خاصی نمایاں نظر آتی ہے۔ یہ محنت کش طبقہ غریب اور کم تعلیم یافتہ ہوتا ہے۔ چین کے مشرقی ساحلی شہروں اور جنوبی علاقوں کی بے مثال ترقی کے بعد اب چینی حکومت کم ترقی یافتہ مغربی اور شمالی علاقوں خصوصاً سنکیانگ کے صوبے میں بہت تیزی سے ترقیاتی کام کروا رہی ہے۔ وسیع و عریض رقبے کے حامل اس خطے میں ہونے والی تبدیلیوں اور اقتصادی سرگرمیوں کا پاکستان چین اقتصادی کوریڈورسے براہ راست جغرافیائی تعلق ہے۔ ویسے تواس راہداری سے بہت بڑے پیمانے پر تجارت کے مواقع آئندہ چندبرسوں میں ہی جنم لینا شروع ہو جائیں گے لیکن اگر لگے ہاتھوں آنے والی بقرعیدوں پر چینی بکرے بھی ہماری منڈیوں تک پہنچنا شروع ہو جائیں تو کوئی مضائقہ نہیں‘بس قیمتوں کے معاملے پر خوش فہمی کا شکار ہونے کی ضرورت نہیں۔ اٹھارہ ہزار کا چینی بکرا اگر پاکستان پہنچتے پہنچتے چالیس ہزار کا ہو جائے تو سمجھیں راستے میں بہت سے مسلمان پاکستانی بھائیوں نے اس کو ذبح ہونے سے پہلے ہی حلال کر لیا ہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں