ہوا میں ہلکی سی ٹھنڈک گھل رہی ہے۔ سبز پتوں پر زرد رنگ نمایاں ہوتا جارہا ہے اور نہایت خاموشی سے انہوں نے شاخوں کو الوداع کہنا شروع کر دیا ہے، جس کا سلسلہ اگلے دو ماہ تک جاری رہے گا۔ یہاں خزاں کا موسم خاصا خو شگوار سمجھا جاتا ہے جس میں بارشیں بہار کے موسم سے نسبتاً کم ہوتی ہیں۔ موسم کی تبدیلیاں انسانی مزاج پر خوب رنگ جماتی ہیں۔ ذرا سی بارش اور سیاہ بادل کراچی کا رخ کر لیں توچہرے کھلتے اور لوگ جوق در جوق باہر نکلتے ہیں جبکہ شنگھائی میں لوگ بارش نہ ہونے والے دن زیادہ تعداد میں باہر کا رخ کرتے ہیں۔ بس جس کو جو موسم کم میسرہے اسی کی زیادہ قدر بھی ہے ۔گزشتہ اتوار کو ہلکی سی سرد ہوا کے ساتھ جب سورج نے اپنی نرم شعاعیں پھیلاکر موسم کو چمکدار اور خوشگوار کیا تو اپنی سائیکل کی سیٹ جھاڑ کر باہر نکلنے کی ٹھانی ۔یہاں کے باشندوں کی اکثریت اب ہلکی پھلکی خاموش سی الیکٹرک بائیکس چلانے لگی ہے لیکن سائیکل کی سواری کا اپنا ایک مزا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ گزشتہ ڈیڑھ دو سالوں میں سائیکل سے دوستی پکی ہو گئی ہے۔ بدلتی ہوائوں اور برستی پھوار کاجو تجربہ اس سواری میںہے وہ کسی اور میں کہاں۔ گھر سے نکل کر قریبی بازار تک جانا ہو یا میٹرو کے سٹیشن پر پہنچ کر اسے پابہ زنجیر کرنے کے بعد اگلے سفر کا آغاز کرنا ہو اس سادہ سی مشین نے بڑی مستقل مزاجی سے ساتھ دیا ہے۔ آرام سے لفٹ میں بھی فٹ ہو جاتی ہے اور رہائشی عمارت کے سامنے کھڑی مغرورمہنگی گاڑیوں کے درمیان سے ایک مطمئن سفید پوش کی طرح نکل جاتی ہے۔ اس پر سوار ہو کر جیسے ہی پیڈل پر پائوں رواںہوتے ہیں تو ارد گرد کے مناظر دھیرے دھیرے ساتھ چلنا شروع ہو جاتے ہیں۔ہر موسم اور دن کی مناسبت سے ان مستقل مناظر میں چھوٹی بڑی تبدیلیاں جاری رہتی ہیں ۔ چلیں اس اتوار کے 'سن ڈے‘ کوایک تصوراتی سائیکل پر آپ بھی پیچھے ہو لیں اور چیدہ چیدہ مناظر سے لطف اندوز ہوں ۔
رہائشی بلاک کی گلی نما سڑک پتھروں کو بڑی مہارت سے جوڑ کر اس طرح بچھائی گئی ہے کہ سائیکل پر لگنے والے جھٹکوں میں بھی ایک ردھم ملتا ہے۔ اپارٹمنٹ بلڈنگزکے درمیان ایک ترتیب سے موجود گھاس کے قطعوںپر موجود لکڑی کی بینچیں چہل قدمی کرنے والوں کے کچھ دیر سستانے کا ایک اچھا ذریعہ ہیں۔ اکثر اوقات چند ایک معمر چینی پڑوسی دھوپ سینکنے کے لئے بیٹھے ہوئے ملتے ہیں اور گزرنے والوں کو خوشدلی سے دیکھتے ہیں۔ جیسے ہی موسم سرد ہوتا جائے گا۔ بزرگ حضرات کے باہر ٹہلنے کا سلسلہ بھی کم ہو تا جائے گا ۔کچھ افراد انواع واقسام کی نسلوں کے کتے ٹہلا رہے ہیں۔ ان میں بعض اتنے قوی الجثہ ہیں کہ ریچھ معلوم پڑتے ہیں تو چند ایک نازک اندام دوشیزائوں کی مانند ہیں ۔ رہائشی بلاک سے نکلتے ہوئے سکیورٹی گارڈ نے بھی ہاتھ کے اشارے سے حال پوچھ لیا ہے دن رات یکسانیت بھری ڈیوٹی کے باوجودیہ لوگ ہر آنے جانے والے پر نظر رکھتے ہیں اور گاڑی کے ماڈل اور سائز کے حساب سے سلیوٹ بھی مار لیتے ہیں۔ سائیکل سوار ہونے کی وجہ سے ہمارے لئے ہلکا سا ہاتھ کا اشارہ ہی کافی ہے۔ اتوار کا دن اور نرم سے سورج کے باعث مرکزی سڑک کے کنارے بھی گاڑیوں سے پرہوچکے ہیں۔ان کے مالکان یہاں سے چند سو میٹر دور چڑیا گھر کی سیر کرنے پہنچے ہیں۔ گاڑیوں کی تعداد میں حیرت انگیز اضافے کے باعث اب چھٹی کے دن کار پارکنگ والی جگہیں چھوٹی پڑ جاتی ہیں۔
ہم اپنی سائیکل بڑی سڑک کے متوازی لین پر چلا رہے ہیں جو چھوٹی الیکٹرک بائیکس اور سائیکلوں کے لئے مخصوص ہے۔ لوگ ساتھ والی چوڑی سی فٹ پاتھ پر چڑیا گھر کے مرکزی دروازے کی طرف رواں دواں ہیں جو ابھی ذرا فاصلے پرہے۔ کوئی اپنے چھوٹے بچوں کو اسٹرالر پر کھینچ رہا ہے تو کسی نے گود میں اٹھایا ہوا ہے ۔ فی خاندان بچوں کا تناسب ایک یا دو سے زیادہ نہیں ملے گا، اس لئے یہ لوگ تھو ڑی تھوڑی دیر میں بچوں کی گنتی کرنے کی مشق سے محروم ہیں، البتہ بعض جوڑوں کو دیکھ کر ایک بچہ ہی دس کے برابر لگتا ہے۔ کسی کونے کھدرے پر اگر کوئی روایتی سے نانی یا دادی چھوٹے بچے کو پیشاب کرواتی نظر آجائے تو کوئی انہونی بات نہ سمجھیں،یہ بہت عام تو نہیں لیکن اکثر مشاہدے میں آئے گا۔ جیسے جیسے آگے بڑھیں گے رفتا ر میں کمی ہو گی کیونکہ اتوار کی مناسبت سے فٹ پاتھ پر ٹھیلے نما سٹالز سج چکے ہیں، جن میں سے چند ایک ہماری لین تک اتر آئے ہیں۔ ایک معمر خاتون ربر کے پینگوئنز سجائے بیٹھی ہے تو برابر میں بچوں کے بلبلوں کی گن بیچنے والا اپنے فن کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ ایک ٹرائی سائیکل والے نے رنگ برنگے پاپڑوں کے بڑے تھیلے رکھے ہوئے ہیں اور ساتھ والا شکر قندی لئے گاہکوں کا منتظر ہے۔ کھانے پینے کی چیزوں سے لے کر مختلف ڈیزائنز کے غبارے والوں کا یہ سلسلہ چڑیا گھر کے مرکزی دروازے تک چلتا رہتا ہے، جس کے عین نیچے میٹرو ٹرین کا اسٹیشن بھی موجود ہے۔ ٹکٹ کا ئونٹرز کے سامنے قطاریں لگ چکی ہیں اور عین دروازے کے سامنے ہزار ڈیڑھ ہزار گز کے پختہ فرش پر سینکڑوں لوگ موجود ہیں۔ یہ جگہ روزانہ شام چھ سات بجے تک جب خالی ہو جاتی ہے تونسبتاً بڑی عمروں کی مقامی رہائشی خواتین کے دو گروپس موسیقی کی دھیمی سی دھنوں اور نغموں پر رقص کی مشقیں کرتے ہیں جو یہاں کی زندگی کا ایک اچھوتا رخ ہے۔
پیڈل مارتے ہوئے اس رش کو پارکریں اور بمشکل دو سو میٹر فاصلہ طے کرنے کے بعد دائیںطرف ایک چھوٹی سڑک پر مڑ نے پر ایک بارونق سٹریٹ آجاتی ہے۔ پہلے یہاں کی سبزی، پھل اور گوشت کی مارکیٹ کا معائنہ کرلیں جو ایک بہت بڑے ہال میں قائم ہے۔ سبزیوں کے سٹالز دو قطاروں میں لگے ہیں، جہاں تازہ سبزیوں کے ڈھیرہیں ۔ تیسری قطار میں تازہ مچھلیاں، کیکڑوں(Crabs) اور گوشت وغیرہ کے سٹالز ہیں جبکہ پھلوں کی دکانیں اطراف کے کونوں پر پائی جاتی ہیں۔ ایک دو جگہوں پر مختلف سائز اور رنگ والے انڈوں کے ڈھیر اہراموں کی سی صورت میں پڑے ہیں۔صبح کے تقریباً ساڑھے دس بجے ہیں اور اکثریت خریداری کر کے جا چکی ہے کیونکہ اب گھنٹے ڈیڑھ میں لنچ ٹائم شروع ہو جائے گا۔ یہاں صبح جلدی اٹھنے کی روایت فی الحال تو قائم ہے بھلے اتوار ہی کیوں نہ ہو، ورنہ پاکستان میں تو ہم نے حلوہ پوری والا ناشتہ دوپہر بارہ ایک بجے تک بھی تیار ہوتے دیکھا ہے۔اس مارکیٹ کے باہر کھانے پینے کی دوکانوں پر بھی تیار شدہ کھانوں کی خریداری بڑھ رہی ہے، ڈمپلنگس، مخصوص طریقے سے تلی ہوئی بطخوں،مرغیوں کا گوشت، بہت کچھ فروخت ہو رہا ہے۔ ایک دکان نمامسلم ریسٹورنٹ کے ساتھ ہی نان کے سٹال سے تل والے چھوٹے اور موٹے نان تازہ بنوا لیتے ہیں اس طرح کے اسٹالز یہاں کم ہی پائے جاتے ہیں ۔ سپرسٹور کے باہر بھی اکا دکا سائیکلوں کی پشت پرجال میں کسمساتے تازہ کیکڑے بیچنے والے دیہاڑی دار خاموشی سے کھڑے گاہکوں کے منتظر ہیں۔ ایک دکان پر کاپیوں ، پنسلوں سے لے کر چمچے چھریاں اور کپڑوں کے ہینگرز سب ہی کچھ دس بارہ یوآن میں فروخت ہو رہا ہے۔ عام طور پر یہ عارضی سیل دو تین ہفتے کے لئے کسی کرائے کی منتظر دکان پر لگتی ہے، جہاں سٹاک مال کم قیمتوں میں تیزی سے نکالا جاتا ہے۔ْؐ
واپسی کا سفر شروع کرتے ہوئے دودھ کی بوتلوں کے تھیلے کو سائیکل کی پچھلی نشست پر فٹ کر لیتے ہیں جو دراصل بے بی سیٹ ہے۔ سبزیاں اور نان کمر کی پشت پر بیگ میں ڈال لیتے ہیں اور سامنے والی باسکٹ پر بریڈ کی جگہ بن گئی ہے۔ پھر وہی تقریباً کلو میٹر کا فاصلہ، چڑیا گھر کے سامنے بڑھتا ہوا رش ، ٹریفک اور ہلچل۔ رہائشی کمپارٹمنٹ کے موڑ پر پڑوس والی بلڈنگ کا ایک میکسیکن جوڑا اپنے چھوٹے سے بچوں کو دو عدد سائیکلوں پر بٹھائے دھوپ کا مزہ لینے نکل رہا ہے۔ ماں نے ہیلمٹ پہنے ہوئے بیٹے کو بٹھایا ہوا ہے تو باپ کے ہمراہ بیٹی ہے۔ دونوں نے گرمجوشی سے ہاتھ ہلایا تو ایک مسکراہٹ سے جواب دینا ہی کافی سمجھا کہ اتنے لدے سامان میںایک ہینڈل چھوڑنا ذرا دشوار ہے۔ بلڈنگ کے سامنے ایک خاتون نازک سے کتے کو ٹہلا تے ہوئے دو عدد چھوٹے ْبل ڈاگز کی مالکہ سے گپ شپ میں مصروف ہے۔ میپل(Maple) کے پتے سڑک پر بکھرے دور ہوتے سورج کی خبر دے رہے ہیں ۔