چین اور امریکہ کی گلوبل کبڈی سیریز

امریکی بڑے مزے کے لو گ ہیں اور ان سے بڑھ کر امریکی ریاست ہے جس کے آگے بڑے بڑے تخت نشین سر جھکا کر رکھتے ہیں اور جو نہیں جھکاتے وہ مستقل سر درد کا شکار رہتے ہیں ۔ان کے بڑے سیاسی مخالفین بھی امریکی سر زمین پر اقوام متحدہ کے اجلاسوں میں جا کر دل کی بھڑاس نکال لیتے ہیں مگر مجال ہے جو امریکیوں کے ماتھے پر بل آئے یا دنیا کے بارے میں ان کی پالیسیوں میں کوئی فرق پڑے۔ ستم یہ ہے کہ ان پر تنقید کے لئے بھی ان ہی کے فراہم کردہ مواد پر بھروسہ کرنا پڑتا ہے۔ہر دوسری تیسری امریکی فلم یا ٹی وی سیریز میں کہانی امریکی صدر اور وائٹ ہائوس کے ارد گرد یا سی آئی اے(CIA) ، ایف بی آئی(FBI) وغیرہ کے متعلق نظر آئے گی۔ دنیا بھر میں سازشوں اور جنگوں کے ذریعے اودھم مچانے والے ان کے خفیہ اداروںیا فوج سے متعلق یہ ٹی وی پروگرامز خاصے گلیمرس اور مقبول ہیں، جن کو دنیا بھر میں شوق سے دیکھا جاتا ہے۔ ان پروگراموں میں جہاں امریکی اداروں کا ہیرو ازم دکھایا جاتا ہے وہیں ان کی کمزوریاں، غلطیاں اور جرائم بھی دکھا ئے جاتے ہیں یعنی بدنام ہوئے تو کیا نام نہ ہو گا والا معاملہ ہے۔ ان میں یہ خود اعتمادی بلا وجہ نہیں کہ ایک عرصے سے دنیا کا نظم ونسق چلانے میں امریکی کردار مرکزی حیثیت کا حامل ہے ۔ امریکی صدور دنیا کے سب سے طاقت ور لیڈر کا رول بھی نبھاتے چلے آرہے ہیں ،بس اسرائیل اور امریکہ کی نیشنل رائفل ایسوسی ایشن کے سامنے ان کا بس نہیں چلتا۔ یہاں ہونے والے فائرنگ کے واقعات میں سکول کے معصوم بچوں سمیت سینکڑوں شہریوں کی آئے دن ہلاکتوں کے باوجود امریکی صدر یہاں کی گن لابی کے ہاتھوں لاچار ہیں، جو ایک عام امریکی کے ہتھیار رکھنے کو ایک بنیادی آئینی حق سمجھتے ہیں۔سوویت یونین اور کمیونسٹ بلاک کے ختم ہونے کے بعد سے امریکی ریاست نے اپنے حواریوں کے ہمراہ گزشتہ بیس پچیس برس دنیا بھر میں اپنے اختیار اور طاقت کا بے لاگ استعمال کیا ،لیکن اب چند برسوں سے چین کی ابھرتی اقتصادی اور فوجی طاقت نے رنگ میں بھنگ ڈال دیا ہے ۔
جب تک چین کی کم قیمت مصنوعات امریکہ اور یورپ سمیت دنیا بھر کی دکانوں اور سپر مارکیٹس کے شیلف بھرتی رہیں تو سب اچھا لگ رہا تھا لیکن جیسے ہی چین نے عالمی سطح پرسرمایہ کاری کے ذریعے اپنے اقتصادی اثرات بڑھانا شروع کیے تو بس سمجھیں کبڈی کاایک نہ ختم ہونے والا میچ چل پڑا ہے۔ جس طرح کبڈی کے کھلاڑی ایک دوسرے کو گھیر کر اپنے پوائنٹس سکور کرتے ہیں اسی طرح چین اور امریکہ مختلف ممالک کے ہمراہ ایک دوسرے کے گرد گھیرا ڈالنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ چین کا چیلنج امریکیوں کے لئے کسی حد تک الجھا دینے والا ہے جس کی سب سے بنیادی وجہ چینیوں کا بڑھک باز نہ ہونا ہے۔ چینی ،امریکی فری سٹائل ریسلنگ کے بجائے کنگ فو (Kung Fu) ماسٹر ہیں جس میں لڑنے کا طریقہ خاصا خاموش اور دائو پیچ کافی مختلف ہوتے ہیں۔چینیوں کی تو خیر مجبوری یہ ٹھہری کہ انہیں تجارت ، اقتصادیات اور انفرا سٹرکچر کے منصوبوں کے علاوہ اپنی معاشی ترقی اور رسوخ بڑھانے کا اور کوئی طریقہ آتانہیں لیکن امریکی تو ہر چیز جنگ یا محبت کی طرح کرتے ہیں جس میںسب کچھ جائز ہے۔ دنیا کے سٹیج پر ہونے والی اس سیریز کے میچز کیسے کھیلے جارہے ہیں ان کا جاننا دلچسپی سے خالی نہیں اور ذرا توجہ سے دیکھیں تو اس میں ہمارے سیکھنے کے لئے بہت کچھ ہے۔
اس سیریز کا اہم میچ اس وقت شروع ہوا جب دنیا کی ابھرتی ہوئی پانچ معیشتوں اور منڈیوں یعنی چین، روس،برازیل، بھارت اور جنوبی افریقہ نے ایک مشترکہ بینک تشکیل دیا۔ برکس (BRICS)ڈویلپمنٹ بینک کے ابتدائی نام کو اب سر کاری طور پر نیو ڈویلپمنٹ بینک (NDP) کہا جاتا ہے جس کا مرکزی دفتر شنگھائی میں قائم کیا گیا ہے۔ اس بینک کاقیام صرف چین ہی نہیں بلکہ بھارت سمیت دیگر ممبر ممالک کی خواہش بھی تھی۔ اس بینک کی تشکیل نے موجود ہ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف جیسے مالیاتی اداروں کے کان میں خطرے کی گھنٹی بجا دی جو امریکہ اور یورپی یونین کے اہم مہرے ہیں ۔ امریکیوں نے ان اداروں کے ذریعے دنیا بھر میں جو گہرا اثر ورسوخ قائم کیا ہوا ہے، وہ آسانی سے ختم یا کمزور ہونے والا تو نہیں، لیکن بہرحال یہ ایک اہم قدم ہے جس میں چین اور روس جیسے ملکوں کی موجودگی بڑے دور رس اثرات رکھتی ہے۔ اب چین نے ایشین انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک بھی کھڑا کرنا شروع کردیا ہے، جس کے اثرات نیو ڈویلپمنٹ بینک سے بھی بڑھ کر مرتبہ ہونے والے ہیں۔ اس بینک نے امریکی زیر اثر ایشین ڈویلپمنٹ بینک کو بھی متاثر کیا ہے اور دنیا کے پچاس سے زیادہ ممالک بشمول برطانیہ اور کئی یورپی ممالک اس کی رکنیت اختیار کر چکے ہیں یعنی امریکی کبڈی ٹیم کے کھلاڑی اب چینی ٹیم کی طرف سے بھی میچ کھیلنے کا ارادہ کر رہے ہیں ۔ بیجنگ میں ہیڈ آفس رکھنے والے اس ادارے کے ذریعے ایشیا اور بحر الکاہل کے چھوٹے بڑے ممالک کو تعمیراتی اور ترقیاتی منصوبے مکمل کرنے کے لئے و ہ سرمایہ میسر ہوسکے گا جس میں کوئی براہ راست امریکی عمل دخل نہیں ہے۔
جب چینی منصوبہ ساز ان بینکوں اور نئے اقتصادی روٹس پر توجہ دے رہے تھے اسی دوران امریکی بڑی ذہانت سے ایک نیا تجارتی بلاک تشکیل دینے میں مصروف تھے۔ اس تجارتی بلاک کے بنیادی ایگریمنٹ پر بحر الکاہل (Pacific Ocean) کے اطراف میں واقع گیارہ ممالک نے پانچ اکتوبر کو دستخط کر دئیے ہیں۔ اس معاہدے میںجو ٹرانس پیسیفک پارٹنر شپ کہلاتا ہے چین نے شمولیت اختیار نہیں کی ہے اور جس طرح امریکی ایشین انفر اسٹرکچر بینک کے قیام سے خوش نظر نہیں آتے اسی طرح چینیوں کے نزدیک ویت نام ، برونائی، سنگاپور،ملائشیا سے لے کر ،کینیڈاآسٹریلیا ، نیوزی لینڈ اور چلی تک پھیلا ہوا یہ بلاک در حقیقت امریکہ اور جاپان کی طرف سے بحر الکاہل کے اس خطے میں امریکی تجارتی بالادستی قائم رکھنے کی ایک کوشش ہے۔ عام انداز میں یوں سمجھ لیں کہ جب کبھی یہ معاہدہ عملی شکل اختیار کرے گا تو ان ممالک کے درمیان درآمدات برآمدات اور کاروبار کرنے کے خصوصی قوانین چین کے لئے شاید ہی ساز گار ہوںاور چینی کمپنیوں کی ایک بہت بڑی مارکیٹ اس معاہدے سے متاثر ہونے کا اندیشہ ہے ۔گزشتہ ہفتوں کے چینی اخبارات میں تسلسل سے اس معاہدے پر اعتراضات اور تنقید کا سلسلہ جاری ہے اگرچہ ابھی اس پر عملدرآمد ہونے میں بڑی قانونی رکاوٹیں حائل اور خاصا وقت درکار ہے،بالکل اسی طرح جیسے ایشین انفرا سٹرکچر بینک سے ضرورت مند ممالک کو قرضے دینے کا سلسلہ فوراً نہیں شروع ہونا۔ان معاملات سے قطع نظر چین اور امریکہ تمام تر کشمکش اور عدم اعتمادکے باوجود ایک دوسرے کے بڑے تجارتی پارٹنر ہیں۔دونوں ممالک کے درمیان تجارت کا حجم600 ارب ڈالر سے زائدہے اور چینی کمپنیوں کی امریکہ میں براہ راست سرمایہ کاری 46 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے ۔دونوں کے ا ختلافات اور کبڈی کے میچ اپنی جگہ اور ممکنہ کاروباری مواقع سے فوائد سمیٹنا اپنی جگہ ، شاید اس قسم کی غیر جذباتی اور ذہین اپروچ ہی ان کی اقتصادی ترقی کا راز ہے۔
اس سال ستمبر کے آخری ہفتے میں چینی صدر نے امریکہ کا ایک بھرپور دورہ کیا ۔ وائٹ ہائوس کی بالکونی سے دونوں ممالک کے صدور نے اپنی بیگمات کے ہمراہ نیچے موجود حاضرین کو دیکھ کر مسکراتے ہوئے ہاتھ لہرائے۔ وائٹ ہائوس کے سٹیٹ ڈنر میں چینی مہمانوں کے لئے خالص امریکی مکھن میں تیار کردہ خصوصی لوبسٹر(Lobster) اور نوڈلز منیو کا اہم حصہ تھے۔ اس سے قبل صدر اوباما کی اہلیہ مشیل اوباما نے کچھ عرصے پہلے اپنی دونوں بیٹیوں کے ہمراہ چین کے تفریحی دورے میں چینی خاتون اول مادام 'پھنگ لی یوآن‘ کی مہمانداری سے خوب لطف اٹھایاتھا۔ہنستے مسکراتے ڈپلو میسی کرنے والے یہ سر براہان جب اپنے ملکوں میں بیٹھ کر ایک دوسرے کے اثر و نفوذ کو کنٹرول کرنے کی منصوبہ بندی میں حصہ لیتے ہوں گے تو ساتھ گزرے یہ پرلطف لمحات نجانے ذہن کے کس گو شے میں بند کرتے ہو ں گے۔ کیا چین حقیقت میں امریکہ کی بالا دستی کے لئے کوئی فوری خطرہ ہے ؟ اس کا جواب ہاں میں دینا توشایدمشکل ہو؛ البتہ دونوں ملکوں میں جاری کبڈی کے دوران لحیم شحیم امریکی کھلاڑی کو چھو کر پھرتی سے اس کی ٹانگوں کے درمیان سے نکلنے کا ہنر چینیوں نے سیکھ لیا ہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں