گزشتہ دو ہفتوں کے دوران ایک واقف کار کی وجہ سے نہایت مقبول چینی طریقہء علاج ایکوپنکچر کے متعلق کافی کچھ دیکھنے اور پرکھنے کو ملا۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ اس دوست نے اپنے بڑھتے ہوئے وزن اور جوڑوں کے درد کے لیے روایتی چینی طریقہء علاج والے ایک نہایت معروف سرکاری ہسپتال میں جانے کا فیصلہ کیا۔ یوئے یانگ نام کا یہ ہسپتال چینی اور مغربی طرز علاج کے ملاپ سے اپنے مریضوں کو صحت یاب کرنے میں نہ صرف خاصا مشہور ہے بلکہ شنگھائی یونیورسٹی آف ٹریڈیشنل میڈیسن کا حصہ بھی ہے۔ شہر کے وسط میں بلند و بالا عمارات کے بیچ یہ عمارت ایک درمیانے سائز کے تین چار منزلہ سرکاری کالج کی طرح لگ رہی تھی۔ اپنے دوست اور ان کی چینی سیکرٹری پلس ترجمان کے ہمراہ ہم ایکوپنکچر کے لئے مخصوص کمرے میں داخل ہوئے تو صبح کے ساڑھے نو بج رہے تھے اور چند ایک مریض پہلے سے موجود تھے۔ ایک درمیانے سائز کے ہال نما اس کمرے میں دس بارہ بستر لگے ہوئے تھے‘ جنہیں پردوں کی مدد سے ایک دوسرے سے علیحدہ کیا گیا تھا۔ ایک پھرتیلی سی ڈاکٹر موٹے عدسوں والی عینک لگائے نرس کو کچھ ہدایات دینے کے بعد ہماری طرف متوجہ ہوئی۔ مریض کو سامنے بٹھاتے ہوئے میری طرف اس طرح حیرت سے دیکھا‘ جیسے کہہ رہی ہو کہ شکل سے تو تم زیادہ بیمار لگ رہے ہو۔ شکر ہے کہ چینی سیکرٹری نے صورتحال کی وضاحت کر دی کہ موصوف مریض کے ہمراہ ہیں۔ ایک منجھے ہوئے حکیم نما ڈاکٹر کی طرح اس نے مریض کی نبض اپنے ہاتھ سے چیک کی اور زبان باہر نکالنے کا حکم صادر کیا۔ زبان کو ایک نظر دیکھ کر ہی اس نے چینی ترجمان کو فٹافٹ مریض کے جسم کی اندرونی حالت کے بارے میں بتانا شروع کر دیا‘ جس کا سب سے اہم نکتہ یہ تھا کہ ان کا معدہ کھانے کو ٹھیک سے ہضم نہیں کر پاتا‘ جس کے باعث جسم میں فیٹس عام لوگوں کے مقابلے میں تیزی سے جمع ہو کر وزن میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔ مریض سے چند روٹین کے سوالات کرنے کے بعد اس نے کہا کہ ایکوپنکچر کے ہفتہ وار دو سیشنوں پر مشتمل کل بارہ سیشنز کا ایک مکمل سیٹ ہو گا‘ جس کے نتیجے میں واضح افاقہ ہونے کی امید ہے۔
مرض کی تشخیص کے بعد وہ تیزی سے اٹھی اور مریض کو ایک بستر پر لیٹ جانے کا کہہ کر نرس سے ایکوپنکچر کی سوئیوں کے دو پیکٹ منگوائے۔ صورتحال بھانپ کر کہ اب سوئیاں لگانے کا عمل شروع ہونے والا ہے‘ میں نے اس ہال سے نکل کر ہسپتال گھومنے میں عافیت جانی۔ استقبالیہ ہال میں دیوار پر ایک بڑا سا بورڈ کم از کم دو درجن ڈاکٹروں کے تعارف اور تصاویر کے ہمراہ آویزاں تھا‘ اور لوگوں کی آمد میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا تھا؛ البتہ عام ہسپتالوں کے مقابلے میں یہاں کی فضا خاصی پُرسکون لگ رہی تھی۔ ابھی اس ماحول کو پرکھتے ہوئے چند ایک منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ چینی سیکرٹری مسکراتی ہوئی باہر آئی اور کہا کہ سوئیاں لگ چکی ہیں‘ اور میں اندر جا سکتا ہوں۔ پتا نہیں اس کی مسکراہٹ سے مجھے ایسا کیوں محسوس ہوا کہ زیر لب کہہ رہی ہو کہ ڈرنے والی کوئی بات نہیں ہے۔ دوبارہ اندر داخل ہوا تو ہال میں کئی لوگوں کا اضافہ ہو چکا تھا‘ اور ڈاکٹر بے انتہا مصروف نظر آرہی تھی۔ پردہ ہٹاتے ہوئے دوست کو دیکھا تو ٹانگوں‘ پیٹ‘ چہرے اور ماتھے پر کم و بیش پچیس تیس باریک سوئیاں لگی دیکھ کر فوراً مڑنے کو دل چاہالیکن دل پر جبر کر کے رک گیا۔ جناب کا حال پوچھا تو ساکت و جامد لیٹے ہوئے دوست کی دھیمی سی آواز آئی کہ سب خیریت ہے اور کوئی خاص چبھن بھی نہیں ہو رہی۔ ایکوپنکچر میں استعمال ہونے والی سوئیاں کافی باریک ہوتی ہیں اور مریض نے اس حالت میں کم از کم آدھ گھنٹہ لیٹے رہنا ہوتا ہے۔
ڈاکٹر اس دوران مزید لوگوںکو سوئیاں لگا کر کچھ فارغ ہوئی‘ تو ہمارے بیڈ کا رخ کیا اور مسکراتے ہوئے مریض کا حال پوچھا۔ جسم کے مخصوص مقامات پر لگی ہوئی ان سوئیوں میں سے چند ایک کو نہایت ہلکی سی برقی رو دینے کا بھی انتظام تھا۔ ڈاکٹر نے ہماری چینی ترجمان کو یہ بتایا کہ اس علاج کے ساتھ مریض کے لئے یہ ضروری ہے کہ رات کا کھانا سونے سے کم از کم تین گھنٹے قبل کھانے کی عادت ڈالے۔ اس گفتگو سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں نے بھی چینی زبان کی مشق کے طور پر چند ایک سوال کرنے کی کوشش کر ڈالی۔ میری دلچسپی دیکھ کر ڈاکٹر نے بتایا کہ موصوفہ روایتی چینی طریقہء علاج میں پی ایچ ڈی کی سند رکھتی ہیں‘ اور میں اس وقت چین کے چند ایک بہترین ہسپتالوں میں سے ایک میں کھڑا ہوں‘ جس میں نامی گرامی مستند ڈاکٹرز کام کرتے ہیں۔ اس نے مسکراتے ہوئے مریض کے کان پر لگے پلاسٹر نما چھوٹے چھوٹے سٹکرز بھی دکھائے جو ہم سے رہ گئے تھے‘ اور بتایا کہ انسانی کان کا جسم کے مختلف حصوں سے بہت موثر رابطہ ہوتا ہے‘ اور کان پر چسپاں یہ ہلکی سی چبھن والا پیچ (patch)بھی اس طریقہ علاج کا ایک اہم حصہ ہے۔ کان والی بات ہمیں اس طرح بھی خوب سمجھ آئی کہ سکول کے زمانے میں جب بال چھوٹے نہ کروانے پر پی ٹی ٹیچر کان مروڑتے تو پورے جسم میں کرنٹ دوڑ جاتا تھا۔ ڈاکٹر نے بڑی فخریہ مسکراہٹ سے بتایا کہ نہ صرف ایکوپنکچر بلکہ اس سے منسلک دیگر طریقے بھی یہاں موجود ہیں‘ جن میں سے ایک میں شیشے کے کپس کو اندر سے گرم کر کے جسم کے مختلف حصوں پر کچھ دیر چسپاں کیا جاتا ہے‘ اور اس تھراپی کے ذریعے پٹھوں کا درد اور دیگر جسمانی تکالیف جاتی رہتی ہیں۔ اس موقع پر ہمیں یاد آیا کہ اکثر چینیوں کی گردن پر ہم نے گہرے گول دائرہ نما سرخ یا سیاہ نشان دیکھ رکھے تھے‘ جو اسی کپ تھراپی کا نتیجہ تھے۔ چینی سیکرٹری نے مسکراتے ہوئے بتایا کہ جسم پر بننے والے ان نشانات کے باعث‘ جو کئی ہفتوں میں مندمل ہوتے ہیں‘ اکثر لوگ گرمیوں میں اس طریقے کو کم ہی استعمال کرتے ہیں کہ کم کپڑوں میں ان کو چھپانا ممکن نہیں رہتا۔ شیشے کے ان کپوں کے ذریعے علاج‘ جنہیں آپ (Suction Cups) کہہ سکتے ہیں‘ صرف چینی تہذیب کا ہی نہیں بلکہ قدیم عرب اور مصری تہذیب کا بھی حصہ ہے۔
ایکوپنکچر کے طریقہء علاج میں جسم کے مخصوص حصوں پر ان سوئیوں کو ایک خاص گہرائی میں لگانے کا مقصد جسم کے مختلف حصوں کا آپس میں رابطہ بحال کرنا ہوتا ہے۔ اس طریقے کے مطابق چینیوں نے جسم میں موجود سینکڑوں مقامات یعنی ایکو پوائنٹس دریافت کر لیے ہیں‘ جن پر اس تیکنیک کی مدد سے ایک مخصوص دبائو اور حرکت پیدا کر کے پورے جسم میں توانائی کی بحالی کے ذریعے بیماریوں اور تکالیف کا علاج کیا جاتا ہے۔ روایتی طور پر اس توانائی کو چھی (Qi) کہہ کر پکارا جاتا ہے‘ جو پورے جسم میں ایک کمیونیکیشن کے چینل کا کام کرتی ہے۔ جدید میڈیکل سائنس اس طرح کے روایتی علاج کے سائنٹیفک نہ ہونے پر سوالات اٹھاتی رہتی ہے‘ لیکن میرے لئے اس میں دلچسپی کا پہلو سائنس اور آرٹ کا ملاپ ہے۔ یہاں جسمانی بیماریوں کو علیحدہ یا (Isolation) میں دیکھنے کے بجائے ایک کل یا (Integrated form) میں دیکھا جاتا ہے۔ ہزاروں برس کی تاریخ پر مشتمل روایتی چینی علاج اور جدید میڈیکل سائنس کے ملاپ سے اس شعبے کو مزید بہتر اور قابل اعتماد بنایا جا رہا ہے۔ خود چینیوں کی یہ کوشش ہے کہ دنیا بھر میں مقبول ہوتے ایکوپنکچر سمیت دیگر روایتی طریقوں کی بہتر سائنسی توجیح پیش کی جائے۔
ٹریڈیشنل چائنیز میڈیسنز (TCM) کے نام سے دنیا میں معروف اس شعبے کی چین کے طول و عرض میں کئی یونیورسٹیاں کام کر رہی ہیں‘ جن میںگریجوایشن سے لے کر پی ایچ ڈی کی سطح تک تعلیم دی جا رہی ہے‘ اور یہاں غیر ملکی طلبا کی بھی ایک معقول تعداد پڑھتی ہے۔ سال 2015ء کے نوبل انعام جیتنے والوں میں چین کی 85 سالہ میڈیکل ریسرچر 'میڈم تھو یو یو‘ بھی شامل ہیں۔ یہ نوبل انعام چین کی سائنٹیفک کمیونٹی کے لیے بہت اہم ہے کیونکہ 'میڈم تھو یو یو‘ روایتی چینی ادویات پر ایک عرصے سے تحقیق کر رہی ہیں۔ چینی طریقہء علاج چند ہفتوں میں نہ تو قد چھ فٹ لمبا کر دینے کا دعویٰ کرتا ہے‘ اور نہ ہی تین دنوں میں پیلی رنگت کو سر خ کر دیتا ہے۔ یہ علاج چند طے شدہ طریقوں‘ ہربل ادویات‘ غذا اور مخصوص جسمانی مشقوں پر مشتمل بتدریج صحت یاب ہونے کا راستہ دکھاتا ہے اور شاید اسی لئے زیادہ قابل اعتماد ٹھہرتا ہے۔