باورچی خانے میں ہونے والا ناٹک

یہاں کے موسم سرماکی وہ پہلی شام تھی جس میں درجۂ حرارت نے صفر کے قریب پہنچ جانا تھا لیکن ایک تھیٹر پر فارمنس دیکھنے کے لئے ملنے والا اعزازی ٹکٹ جسم میں اتنی گرمی ضرور لے آیا کہ میں فٹا فٹ تیار ہو کر میٹرو اسٹیشن کی طرف چل پڑا۔ پون گھنٹے کی ٹرین نے شہر کے مرکز تک تو پہنچا دیا لیکن جیسے ہی زیر زمین سے نکل کر بر سرزمین قدم رکھا‘ بر فیلی ہوا نے مزاج درست کر دئیے۔ موسم کے تیور نے کچھ ایسا اثر ڈالا کہ اصل مقام کی مخالف سمت پر چلتا ہوا شنگھائی کنسرٹ ہال کی عمارت کو اپنی منزل سمجھ بیٹھا کہ وہاں موجود لوگ قطار بنائے اند ر جا رہے تھے۔ ابھی لائن میں لگنے کا سوچاہی تھا کہ آگے موجود لوگوں کے ہاتھ میں مختلف ٹکٹ دیکھ کر شک گزرا کہ کچھ گڑ بڑ ہے اور پھر سرد ہوا میں ہلتے جلتے یاد آیا کہ میرے ٹکٹ پر درج عمارت کا نام مختلف ہے ۔ دل ہی دل میں خود کو کوستے ہوئے ایک نظر ایڈریس پر ڈالی اور الٹے قدموں مخالف سمت کی راہ لی‘گو کہ پیدل فاصلہ کچھ زیادہ نہ تھا لیکن گھر سے نکلتے ہوئے پی جانے والی چائے کے کپ کی باقیات کے ایمر جنسی سگنلز نے سردی میں معاملے کو مزید پیچیدہ بنا دیا۔ اس دوران یہ خوا ہش بھی شدت سے ا بھری کہ آج کی یہ پر فارمنس ایسی ہونی چاہیے کہ واپسی کا سفر سرد ہونے پر بھی بہار کا سا دکھائی دے ‘قبولیت کی گھڑی تھی اور یوںشنگھائی کے دورے پر آئے اس جنوبی کورین تھیٹر گروپ کی شاندارکارکردگی نے یہ خواہش پوری کر دی۔
نانتا (NANTA) کے نام سے معروف اس کورین تھیٹر گروپ نے ایک نرالے انداز کا ہی اسٹیج پلے تیار کیا ہے جس کی شہرت دنیا بھر میں ہے۔ آپ نے ' کچن کیبنٹ ‘ نام کی اصطلاح تو سنی ہی ہوگی جس میں سر براہ حکومت اپنے چند قریبی لوگوں کو ہی اہم مشوروں میں شامل کرتے ہیں بس کچن کو مرکزی خیال سمجھتے ہوئے اس پر فارمنس کو ' کچن تھیٹر ‘ سمجھ لیں۔ کچن کیبنٹ حکمران کو محظوظ کرتی ہے تو کچن تھیٹر عوام کی تفریح کے لئے کام کرتا ہے۔آج سے سترہ برس جنوبی کوریا کے دارالحکومت سئیول میں شروع ہونے والا یہ سلسلہ جتنا دلچسپ اور حیران کن ہے اتنا ہی اس کی قسم یعنی (Genre)کی وضاحت کرنا بھی مشکل ہے ،یہ میو زیکل بھی ہے لیکن بغیر گانوں کے ‘مزاحیہ بھی ہے اور بغیرمکالمات کے‘ایکشن سے بھر پور جبکہ اس ایکشن کے ہتھیار کسی باورچی خانے میں پائے جانے والے برتنوں‘چمچوں‘چھریوں ‘کھانا بنانے کی اشیاء سمیت وائپرز‘ڈسٹ بن وغیرہ پر مشتمل ہیں۔ ڈیڑھ گھنٹے دورانیے کا یہ ڈرامہ پانچ کرداروں پر مشتمل ہوتا ہے جس کا سیٹ اپ ایک کچن ہے جبکہ ایکٹرز اس میں کام کرنے والے تین باورچی ‘ان کا بد مزاج مینیجر اور اس کا لا ابالی سفارشی بھانجا ہے جو شیف کی ٹریننگ لے رہا ہے۔ کھیل کی ابتدا روایتی انداز میں کورین ڈرم بجانے کی پر فارمنس سے شروع ہوتی ہے جو ہیڈ شیف اور اس کے مدد گار ایک خاتون اور ایک مرد باورچی کرتے ہیں۔ ہنستے کھیلتے اور برتنوں کی مدد سے موسیقی کی ردھم قائم کرتے ہوئے ان باورچیوں کو اس وقت مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب مینیجر انھیں اچانک شام چھ بجے تک ایک شادی کے لئے خصوصی کھانے بنانے کا حکم دیتا ہے۔ اسی دوران وہ اپنے بھانجے کو بھی کچن اسٹا ف کا حصہ بنا دیتا ہے۔ اچانک ملنے والے اس حکم پر بو کھلایا ہوا یہ اسٹاف نہایت تیزی سے کام شروع کرتا ہے جو دیکھنے والوں کو ان کی مہارت کا قائل کر دیتی ہیں۔ سیکنڈوں میں پیاز اور سبزیوں کا کٹنا اور برتنوں کے ساتھ ساتھ پورے اسٹیج پربکھر جانا شائقین کو حیران کر دیتا ہے۔ ان کھانوں کی تیاری کے دوران ہی کامیڈی آف ایر ر زکے تماشے بھی شروع ہو جاتے ہیں۔ جن میں خاتون باورچی کا اپنے ایک ساتھی سے رومانوی تعلق بھی شامل ہے۔ اس مو قعے پر ٹریننگ لینے والا سفارشی بھانجا بھی کام بگاڑنے کی مزاحیہ حر کتوں کے باعث شائقین کو قہقہے لگانے پر مجبور کر دیتا ہے۔ 
اس پر فارمنس کا سب سے مشکل کام مکالموں کی ادائیگی کے بغیر محض نا مانوس آوازوں ‘چہرے کے تاثرات اور پھر تیلی حرکات سے لوگوں کی توجہ مسلسل اپنی طرف مر کوز رکھنا ہوتا ہے۔ سوپ کی پہلی ڈش تیار کر نے کے بعد دو کردار اسٹیج سے نیچے اتر کر دو شائقین مرد اور خاتون کو اسٹیج پر لا کر بھاپ اڑاتے سوپ کا ذائقہ چکھواتے ہیں اور ان سمیت تمام شائقین سے اس کی تعریف میں تالیاں بھی بجواتے ہیں۔ شادی کے لئے مختلف ڈشیں تیار کرنے کے دوران کچن کی اشیاء اور ڈرمز بجاکر یہ کردار اسٹیج پر ایک متحرک ماحول بھی قائم رکھتے ہیں اور روایتی کورین ثقافت کو بھی اجاگر کرتے ہیں۔ اس دوران مینیجر کا وقفے وقفے سے آکر ان کی کار کردگی کا جائزہ لیتا ہے اور باورچیوں کو ڈیڈ لائن بھی یاد دلاتا رہتا ہے ‘ہر بار ان کو ڈانٹ پلا کر ایک خاص انداز میں اپنے سر کے جمے ہوئے بالوں پر ہاتھ پھیر کر جب وہ لوگوں کو دیکھ ایک احمقانہ سی مسکراہٹ دیتاہے تو پورا مجمع ہنس پڑتا ہے۔ مسلسل ڈیڑھ گھنٹے تک ماہر ایتھلیٹس کی طرح اچھل کود‘پلیٹوں کو بغیر گر ائے اچھالنے‘بھڑکتے چو لہوں اوربھاپ اڑاتے برتنوں کے ساتھ رقص اور دو کرداروں کی آپس میں مزاحیہ رومانوی حر کتیں کرنے کے لئے بہت ہی حیران کن اسٹیمنا چاہیے۔ با لآخر مقررہ وقت میں ساری ڈشیں تیار نظر آتی ہیں اور اس تیز رفتا ر کھیل کا آخری مرحلہ تمام کر داروں کے مسلسل کئی منٹ تک ایک ردھم میں روایتی کورین ڈرمز بجانے پر اختتام پذیر ہوتا ہے ۔ کھیل شروع ہونے سے ختم ہونے تک کا دورانیہ اتنی تیزی سے گزرتا ہے کہ گزرے وقت کا احساس تک نہیں ہوتا اور لوگ کئی منٹ تک تالیاں بجا کر اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔اس گروپ کا یہ کھیل دنیا بھر میں گزشتہ پندرہ سالوں سے اپنی صلا حیتوں کا لوہا منوا رہا ہے اور نیو یارک براڈوے کے تھیڑز میں بھی مسلسل ڈیڑھ برس تک چلتا رہا ہے۔ایک اندازے کے مطابق صرف جنوبی کوریا میں اس کو اب تک دس لاکھ سے زائد غیر ملکی سیاح دیکھ چکے ہیں۔
جنوبی کوریا اور چین بہت ہی قریب پڑوسی ہیں اور دونوں ممالک سیاسی‘تاریخی اور ثقافتی طور بے حد جڑے ہوئے ہیں۔ اس تھیٹر گروپ کی سارے شوز ہائوس فل جا رہے ہیںجن سے چینی باشندوں کے علاوہ یہاں بڑی تعداد میں مقیم کورین باشندے بھی لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ تفریح اور ثقافت کی اس توانا روایت کے ذریعے چین بھی ہر سال لاکھوں سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ بیجنگ کا روایتی' اوپرا‘یہاں آنے والے ہر سیاح کی فہرست کا ایک حصہ ہوتا ہے جس میں نہایت شوخ روایتی میک اپ اور ملبوسات سے مزین گلوکارائیںاپنی باریک آواز کا جادو جگاتی ہیں بلکہ سمجھیں کانوں میں سیٹیاں بجا دیتی ہیں۔اسی طرح قدیم قصوں پر مشتمل تھیٹر دکھانے کے دوران ایک بڑی اسکرین پر اس کا انگریزی تر جمہ بھی لوگوں کی سہولت کے لئے چلتا رہتا ہے۔ ان روایتی ڈراموں کے کردار اکثر اپنے میک اپ اور کاسٹیوم کی تیاری بھی سیاحوں کی دلچسپی کے لئے اسٹیج پر کرتے نظر آتے ہیں جس کے باعث سیاحوں کے تجسس میں اضافہ ہوتا ہے اور چند ایک ان کی تصاویر بھی اتارلیتے ہیں۔اسٹیج پر دی جانے والی پر فارمنس قدیم داستانیں ہوں ‘ماڈرن میوزیکل شوز یا پھر ' نانتا ‘جیسے روایتی‘تجرباتی اور مزاح پر مشتمل کامیاب شوز ,‘ سب قوموں کی فنکارانہ صلاحیتوں کے ساتھ ثقافتی اثرورسوخ اور آمدنی بڑھانے کا ذریعہ ہیں۔ہمارے ہاں بھی معیاری تھیٹر کی روایت موجود رہی ہے اور بہت سے گر وپس اس حوالے سے کام کررہے ہیں ۔ اس کلچر کو فروغ دینے کے ساتھ اس کے کمرشل پہلو ئوں کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔اس شعبے میں بھی ہمیں بس وہی کچھ درکار ہے جس کی ضرورت شاید ہر جگہ ہے یعنی پیشہ ورانہ بنیادوں پر تنظیموں اور ہر مزاج اور سوچ کے لوگوں کیلئے اپنی صلاحیتوں کے اظہار کے مواقع ۔ حال ہی میں پاکستانی فلموں کو دیکھنے لوگوں نے کثیر تعداد میں سینمائوں کا رخ کیا ہے یہی لوگ تھیٹر بھی دیکھنے آئیں گے کیونکہ ہر وقت محض کھانا کھانے کے بہانے گھر سے نکلنے سے سماجی گھٹن کا خاتمہ ممکن نہیں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں