عقل کے ساتھ جینا بھی ایک شہادت ہے

دسمبر کی ان تاریخوں میں کسی اور موضوع پر لکھنا ایک لاحاصل کوشش ہو گی۔ اگر اصل موضوع پر لکھوں تو یہ کالم بہت جلد ختم ہو جانے کا اندیشہ ہے۔ الفاظ کی حد بھی پوری نہیں ہو گی۔ اسی مشکل کے پیش نظر کہ کیا، کیسے اور کتنا لکھا جائے، چند بکھری باتیں جمع کر کے دل کی بات کہنے کی کوشش کرتا ہوں۔ بچپن میں ٹی وی پر دکھائی گئی ایک انگریزی فلم کی کہانی اور کردار ذہن میں گھوم رہے ہیں جو وقت گزرنے کے ساتھ کچھ غیر واضح تو ہو گئے ہیں لیکن ان کا تاثر اتنا گہرا رہا کہ اب اتنے عرصے بعد ذہن میں پھر تازہ ہو گئے ہیں۔ ٹی وی کے لئے بننے والی یہ فلم 1942ء میں لکھے گئے ناول Pied Piper پر مبنی تھی۔ اس کی کہانی کچھ یوں تھی: دوسری جنگ عظیم کے آغاز میں فرانس اور سوئٹزرلینڈ کی سرحد پر واقع ایک قصبے میں ایک بوڑھا انگریز باشندہ 'جون سڈنی ہوورڈ‘ موجود ہے اور قریبی تالاب میں مچھلیوں کا شکار کرتے ہوئے کچھ دن سکون کے گزارنا چاہتا ہے۔ یہ بوڑھا شخص اپنے دل کو قابو میں رکھنے کے لئے مستقلاً دوائیوں کا بھی استعمال کر رہا ہے اور یہ تکلیف اس کے جوان بیٹے کی اس موت کا نتیجہ ہے جو برٹش رائل فورس کے پائلٹ کی حیثیت سے جرمنی پر فضائی حملے کرتا ہوا مارا گیا تھا۔ اس کے بعد جرمن فوجیں فرانس کی جانب نہایت تیزی سے بڑھتی ہیں اور ان خبروں کے باعث 'جون‘ اپنی ان چھٹیوں کو جلد ختم کرکے واپس انگلستان کی طرف روانہ ہونے کا فیصلہ کرتا ہے۔ روانگی کے وقت ایک برطانوی خاتون‘ جسے اپنے شوہر کے پاس نہایت اہم اور غالباً کسی خفیہ کام سے سوئٹزرلینڈ پہنچنا ہے، اپنے نو عمر بیٹے اور بیٹی کو انگلینڈ لے جانے کے لئے اس سے درخواست کرتی ہے۔ اس بوڑھے شخص کے لئے یہ ایک بہت ہی 
آزمائش کی بات ہے لیکن ماں کے انداز میں کچھ ایسی التجا ہوتی ہے کہ وہ آمادگی ظاہر کر دیتا ہے۔ فلم کا باقی حصہ ایک ایسے غیر یقینی سفر پر مبنی ہے‘ جس میں نہ صرف اس بوڑھے انگریز کو جرمن فوجوں کی پیش قدمی کے باعث اپنے طے شدہ راستے بار بار بدلنا پڑتے ہیں بلکہ ان راستوں میں جگہ جگہ ملنے والے مزید لاوارث بچے بھی ایک گروپ کی شکل میں اس کے گرد اکٹھے ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اس سفر میں ایک فرانسیسی لڑکی، جو اس کے بیٹے سے بہت قریب رہ چکی تھی، اس کی مددگار بن جاتی ہے‘ اور کسی نہ کسی طرح 'جون‘ اور بچوں کا یہ گروپ اس ساحلی قصبے تک پہنچ جاتا ہے جہاں سے وہ بوٹ کے ذریعے انگلینڈ پہنچ سکتے ہیں۔ منزل کے اتنا قریب پہنچ کر جب تقریباً سارے معاملات حل ہونے والے ہیں، یہاں قابض ہونے والی جرمن فوج کو ان کی خبر ہو جاتی ہے۔ نازی جرمن فوج کا کمانڈر فرار کی کوشش کرنے والے اس بوڑھے انگریز کے ارادوں سے واقف ہونے کے باوجود اس کو اپنے ہمراہ ایک گارڈن میں آرام دہ نشست پر بٹھاتا ہے، جہاں چائے اور دیگر لوازمات موجود ہوتے ہیں۔ فلم کے اختتام کے قریب کا یہ منظر غالباً میری یادداشت میں سب سے گہرا ہے کہ باوردی جرمن کمانڈر کے ہمراہ اس خوبصورت باغ میں بیٹھا یہ بوڑھا انگریز حیران و پریشان ہے اور ذرا فاصلے پر بوسیدہ لباس میں کھڑے ایک شخص کو نروس سے انداز میں سگریٹ کے کش لگاتے ہوئے دیکھتا ہے۔ اسی دوران جرمن سپاہیوں کا ایک گروپ اپنی بندوقیں سیدھی کرتا ہے اور وہ شخص ایک مایوس مسکراہٹ سے 'جون‘ اور جرمن کمانڈر کو دیکھتے ہوئے سگریٹ پھینک دیتا ہے۔ کمانڈر سر کا ہلکا سا اشارہ کرتا ہے۔ سپاہی اس شخص کو گولیوں سے اڑا دیتے ہیں۔ بوڑھے جون کی آنکھیں حیرت سے پھٹی ہوئیں ہیں جبکہ کمانڈر نیپکن سے اپنا منہ صاف کرکے اسے اپنے ہمراہ لے جاتے ہوئے یہ بتاتا ہے کہ مرنے والا شخص برطانوی جاسوس تھا۔
کمانڈر بوڑھے 'جون‘ کو اسی باغ سے متصل اپنے گھر میں لے کر داخل ہوتا ہے، جہاں موجود ایک چھوٹی سی جرمن بچی انہیںدیکھتے ہی 'ہیل ہٹلر‘ کا تعریفی نعرہ بلند کر دیتی ہے۔ جرمن کمانڈر حیرت زدہ 'جون‘ کو یہ بتاتا ہے کہ وہ اسے اور بچوں کے گروپ کو برطانیہ لے جانے والی بوٹ میں سوار ہونے دے گا، اگر وہ اس کی یتیم بھتیجی کو، جس کی ماں یہودی تھی، برطانیہ پہنچا کر وہاں سے بالآخر امریکہ روانہ کروا دے۔ فلم کے کلائمیکس کا یہ انداز بہت چونکا دینے والا ہے‘ جس میں ان کی مدد کرنے والا سخت گیر جرمن کمانڈر سمندر میں رواں اس بوٹ کو ایک قریبی پہاڑی سے برطانیہ جاتے ہوئے دیکھ رہا ہے۔ گو کہ اس شخص کو ابھی ایک خو فناک جنگ لڑنی ہے لیکن دیگر لاوارث بچوں کے ہمراہ اس کی بھتیجی کی موجودگی اس کے لئے اطمینان کا باعث ہے۔
آج اس بوڑھے انگریز کا کردار ادا کرنے والے عظیم اداکار 'پیٹر اووٹول‘ کی یہ نسبتاً گمنام سی فلم یاد آنے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ ویسے تو جنگ و جدل اور خونریزی انسانی معاشروں کے ہر طبقے کو برباد کرتی ہے‘ لیکن بات جب بچوں تک پہنچ جائے تو یہ صبر کی ناقابل برداشت حدوں کو چھونے لگتی ہے۔ کسی نے بھی ہمیشہ نہیں جینا۔ آج کی پوری انسانی آبادی کا ایک صدی بعد وجود نہ ہو گا، جیسے پچھلی صدی کے ان برسوں میں پیدا ہونے والے چند ایک لوگ ہی آج سانسیں لے رہے ہوں گے۔ اس اٹل حقیقت کے بعد بھی جو جب تک جی سکتا ہے اسے جینا چاہیے۔ جو بچے اس دنیا میں آ گئے ہیں ان سب کو ایک اچھی زندگی جینے کا حق حاصل ہے، جو انہیں خدا نے دیا ہے۔ سولہ دسمبر کے سانحے کے براہ راست متاثرین کے غم کی شدت تک پہنچنا تو شاید ہمارے لئے ممکن نہیں لیکن اسی ملک کے کروڑوں بچے وہ زندگی بھی نہیں گزار رہے جو ہم میں سے اکثر اپنے بچوں کو دے پاتے ہیں۔ ایک سادہ سا راستہ بس یہی ہے کہ غربت، بھوک، مجبوری اور بے بسی کی زندگی گزارنے والے بچوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لئے ہم اپنا حصہ بڑھا کر سولہ دسمبر کے شہیدوں کی کچھ آبرو رکھ لیں۔
ہم سب موت کا غم مناتے ہیں‘ جس سے کسی کو فرار نہیں لیکن زندگی کو بہتر اور محفوظ بنانے کے لئے ہماری کوششیں بہت ناقص ہیں۔ اکثر چینی ٹی وی پر ایک اشتہار چلتا ہے جس میں ایک چھوٹی سی بچی کو سکول جاتے ہوئے پرانی اور غیر محفوظ بس میں سوار ہوتے دکھایا جاتا ہے اور پھر یہی بچی حکومتی توجہ کی وجہ سے ایک نئی، محفوظ اور سکول کے بچوں کی حفاظتی تدابیر والی بس میں سفر کرتے ہوئے دکھائی جاتی ہے۔ ہمارے لاکھوں بچے غیر محفوظ بسوں، ویگنوں پر سفر کرنے پر مجبور ہیں اور انہی کے ناقص گیس سلنڈرز والے حادثے پوری بستی کو سوگوار کر دیتے ہیں۔ عمارتوں کی تعمیر میں آگ لگنے یا کسی حادثے کی صورت میں بچنے کے محفوظ راستوں اور انتظامات کا شاید ہی خیال کیا جاتا ہو۔ دور دراز علاقوں کو تو چھوڑیں اگر کراچی، لاہور جیسے شہروں میں کسی بڑے شہری مرکز میں کہیں خوفناک آگ بھڑک اٹھے تو اس کو بجھانے میں ہی پورے شہر کی انتظامیہ کے ناکوں چنے چابنے پڑ جاتے ہیں۔ ہمارے ٹھیکیدار سرکاری اداروں کی ملی بھگت سے ناقص سڑکیں بناتے ہوئے یہ بھی نہیں سوچتے کہ ان پر ہونے والے حادثے کا شکار ان کے اپنے بھی ہو سکتے ہیں اور اس وقت حرام کی کمائی کسی کام نہ آئے گی۔ اسی طرح ناقص سکیورٹی کیمروں سے لے کر بلٹ پروف جیکٹس تک کی خریداری میں ہونے والی کرپشن دہشت گردی نہیں تو اور کیا ہے؟ نجانے کیوں ہمیں جینے کے حالات ٹھیک کرنے والے سیدھے سادھے کاموں سے بھی چڑ ہے۔ اگر خدا کو انسانوں کی موت محبوب ہوتی تو دماغ میں عقل رکھ کر نہ بھیجتا۔ وہ لو گ جو شہادت کو صرف مرنے کا نام ہی سمجھتے ہیں اور اس کی تبلیغ کرتے ہیں کم از کم اس اشرف المخلوقات میں نہیں آتے جس کے آگے فرشتوں نے سجدے کیے تھے۔ ہم خود زندگی کا لطف اٹھاتے ہوئے کسی کو دنیا کی بے ثباتی کی پٹی نہیں پڑھا سکتے۔ زندگی بھرپور طریقے سے بسر کرنا اور دوسروں کو بھی کرنے دینا ہی انسان کو ملنے والی عقل کا بھرپور استعمال ہے ۔کمزور طبقات، مجبور اور لا وارث بچوں کے گروہ بہتر زندگی کی کشتی میں سوار ہونے کے لئے ہم سب کا منہ تک رہے ہیں اور ہم تو اس بوڑھے 'جون‘ سے زیادہ توانا ہیں جو جنگ کے درمیان سے ایک گروپ کو بچا لے گیا۔ اس کالم کا چین اور شنگھائی سے بس اتنا ہی تعلق ہے کہ یہ یہاں بیٹھ کر لکھا گیا ہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں