سات منٹ کی سائیکل سواری قریب ترین میٹرو سٹیشن تک‘ سات ہی منٹ کی میٹرو ٹرین مرکزی ریلوے سٹیشن تک اور پچاس پچپن منٹ کی ہائی سپیڈ ٹرین کا سفر مجھے اپنے گھر سے 'ہانگ چو‘ شہر پہنچانے کا تیز ترین طریقہ ہے۔ شنگھائی سے تقریباً 180 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع اس شہر کا شمار چین کے قدیم اور خوبصورت ترین شہروں میں سے ہوتا ہے۔ اس شہر کا سرسری سا تذکرہ تو پہلے بھی ہو چکا ہے‘ لیکن حال ہی میں تیسری مرتبہ یہاں کی یاترا کرنے کے بعد خیال آیا کہ جنوب مشرقی چین کے اس تاریخی اور حسین شہر کو مزید تعارف کی ضرورت ہے۔ سر سبز و شاداب باغ کی مانند اس شہر کی سب سے بڑی وجہء شہرت 'ویسٹ لیک‘ کے نام سے معروف وسیع و عر یض جھیل ہے‘ جس کے اطراف کے دلکش پارکوں اور پُرسکون راہداری نما سڑکوں پر پیدل چلنا یا پھر سائیکل سواری ایک منفرد تجربہ ہے۔ ویسٹ لیک جھیل کی وسعت‘ اس کے ارد گرد بکھرا سبزہ اور اس میں رواں چھوٹی بڑی کشتیاں ایک سحر انگیز تاثیر رکھتی ہیں۔ یہ شہر چین کے چند ایک قدیم ترین دارالحکومتوں میں سے ایک رہ چکا ہے‘ اور کیوں نہ ہوتا کہ بادشاہوں کی طرز حکمرانی جیسی بھی رہی ہو‘ حسن نظر کے معاملے میں کم و بیش پوری دنیا کی بادشاہت یکساں ہی رہی ہے‘ چاہے شہروں کا انتخاب ہو یا اپنی بیویوں کا۔ سیاحت کے علاوہ اس شہر کو چین میں ریشمی کپڑے کی صنعت اور تجارت کا مرکز بھی سمجھا جاتا ہے۔ یہاں کی سیاحت کے دوران ریشمی کپڑوں سے بنی اشیا کے ڈھیر دکانوں میں نظر آتے ہیں‘ محض دلچسپی کی خاطر میں نے جب ایک ریشمی مردانہ سلیپنگ سوٹ کو ہاتھ لگایا تو اس کی نرمی اور ٹھنڈک سے ہی نیند کا جھونکا آنے لگا‘ جو اس پر لگی قیمت کا ٹیگ دیکھ کر فوراً ہی غائب ہو گیا۔
خالص ریشم کی تیاری کسی بھی طرح شہد کی تیاری سے کم نہیں بلکہ شاید ریشم اس سے زیادہ ہی نفاست اور توجہ چاہتا ہے۔ ریشم کے کیڑوں (Silkworms) کی پرورش کے مختلف مرحلے اور اس سے ریشم کے دھاگے اکٹھا کرنے کا فن چھ ہزار سال سے اس تہذیب کا حصہ ہے۔ ان کیڑوں سے خالص ریشم کے حصول کے لیے ان کے انڈے یا لاروا بننے پر انہیں مخصوص (Mulberry) درخت کے پتوں کی خوراک دی جاتی ہے۔ اپنی پرورش کے اگلے مرحلے میں یہ کیڑے خود کو سہارا دینے کے لیے اپنے گرد جالا بنتے ہیں جو ایک چھوٹے سے (Cocoon) کی شکل اختیار کر لیتا ہے اور اسی نرم و نازک گولے سے ریشم نکالا جاتا ہے۔ ریشم پہلی بار کب اور کیسے بنا‘ اس پر بھی ایک قدیم داستان حاضر ہے جس کے مطابق اس کیڑے کا 'کوکون‘ اتفاقاً ایک چینی ملکہ 'لئی زو‘ کی چائے کی پیالی میں جا گرا‘ ذہین ملکہ نے جب اس کو باہر کھینچا تو اس کے نفیس ریشے دیکھ کر حیران رہ گئی اور اس نے ان ریشوں کو بننے کا سوچا۔ جب ملکہ کا یہ تجربہ کامیاب رہا تو بادشاہ سلامت نے اس کیڑے کو پالنے اور سلک بنانے کا حکم صادر کر دیا۔ ملکہء عالیہ کو اسی مناسبت سے ریشم کی دیوی کا خطاب مل گیا۔ ہمارے خیال میں تو یہ بھی ممکن ہے کہ کسی درباری مورخ نے اس قصے کو تحریر کیا ہو۔ ہو سکتا ہے یہ دریافت کسی غریب کسان کی بیوی یا معمولی کنیز کے ہاتھوں ہوئی ہو‘ لیکن غریب غربا کے ہاتھ کب کوئی مورخ لگا ہے جو ان کو بادشاہوں کے آگے گھاس ڈالے۔ بہرحال قصہ جو بھی ہو ریشم کی ایجاد اور پھیلائو کا سہرا چینی بادشاہوں کے سر ہی ہے‘ جنہوں نے اس قیمتی اور نفیس کپڑے کو پوری دنیا میں چین کی پہچان بنا دیا۔ ایک عرصے تک یہ ریشمی راز چینیوں کے پاس ہی رہا بلکہ شاہی فرمانوں کے مطابق ریشمی کیڑوں اور ان کے لاروا کی برآمد یا اس کے بنانے کی تکنیک کسی اور کو سکھانے والوں کو موت سمیت ہر قسم کی سخت سزا دی جا سکتی تھی۔ ریشم کی ماں لیکن کب تک خیر مناتی بالآخر یہ راز جاپانی بھی پا گئے اور عمدہ قسم کی ریشم بنانے لگے۔ ریشم کی چینی تجارت اتنی مشہور ہوئی کہ تجارتی راستے ہی شاہراہ ریشم بن گئے‘ قدیم رومن اور یونانی ایک اصطلاح (Seres) استعمال کرتے‘ جس کا مطلب ہی ریشم والے دور دراز کی سلطنت کے لوگ یعنی آج کا چین تھا۔ ہانگ چو شہر اسی ریشم کی پیداوار اور تجارت کا ایک بڑا مرکز ہے۔
ہانگ چو شہر کی ویسٹ لیک کے اطراف میں کئی ایک تاریخی مقامات بھی ہیں جن میں ایک 'لی فنگ پگوڈا‘ اس جھیل کے پس منظر میں بہت نمایاں کھڑا نظر آتا ہے۔ کم و بیش ہزار سال قبل تعمیر ہونے والے اس پگوڈا کی نئی تعمیر و مرمت کی گئی ہے۔ جھیل کے ایک کنارے پر پہاڑی ٹیلے پر موجود اس عمارت کی بلندی پر جا کر آپ کے سامنے دلکش سر سبز پہاڑیوں کے دامن میں بیٹھی یہ جھیل تا حد نگاہ پھیلی ہوئی نظر آتی ہے۔ سیاحوں کی آسانی اور پگوڈا تک دشوار چڑھائی کے پیش نظر محکمہء سیاحت نے ایک بڑے حصے پر لفٹ والی سیڑھیاں یعنی ایسکیلیٹرز بھی نصب کر دی ہیں۔ ان برقی سیڑھیوں کے بعد مزید پیدل چڑھ کر آپ پگوڈا کے عین نیچے موجود ایک ہال میں پہنچ جاتے ہیں‘ جہاں پرانی عمارت کے آثار اور اینٹوں کو بہت نفاست سے محفوظ کیا گیا ہے۔ شیشے کی دیواروں کے عقب سے آپ اس ہزار سالہ عمارت کی باقیات اور خستہ اینٹوں کو دیکھ سکتے ہیں۔ ان پرانے آثار کے ساتھ ہی ہزاروں کی تعداد میں چمکتے سکے پڑے نظر آتے ہیں جو یہاں آنے والے اکثر لوگ منت کے طور پر ڈالتے ہیں جس کی وجہ اس مقام سے منسوب قدیم قصے ہیں۔ ان قصوں کے مطابق یہ مقام ایک ایسے سفید مادہ سانپ کی پناہ گاہ بھی رہا‘ جو اس جھیل سے ایک خوبصورت انسانی عورت کی شکل میں نکل آئی تھی۔ یہ عورت انسانی محبت کا شکار ہو کر امر ہو گئی اور اپنے محبوب کی خاطر ہر طرح کی تکالیف برداشت کی۔ اس قدیم قصے کی چین کے روایتی تھیٹر اور فلموں پر بھی بڑی شہرت رہی ہے۔ پگوڈا کی مزید بلندی پر جانے کے لیے بھی جدید شیشے کی لفٹ کا انتظام ہے‘ جس سے قدامت‘ جدت اور سہولت سب کچھ ہی ایک وقت میں مل جاتا ہے۔ ہانگ چو شہر کو پوری دنیا میں اس وقت بھی بہت مقبولیت حاصل ہوئی جب کمیونسٹ چین کے قیام کے اکیس برس بعد امریکی صدر رچرڈ نکسن نے اپنے پہلے دورہء چین کے موقع پر اس شہر میں بھی کچھ وقت گزارا۔ 1972ء میں ہونے والا یہ دورہ نہایت تاریخی اہمیت کا حامل تھا‘ جس پر ساری دنیا کی نظریں لگی ہوئی تھیں۔ صدر نکسن‘ ان کی اہلیہ اور امریکی حکام کے علاوہ امریکی ذرائع ابلاغ کے کئی نمائندے بھی اس دورے میں موجود تھے۔ اس سے پہلے لوگوںکو بیجنگ اور شنگھائی جیسے شہروں کا تو علم تھا لیکن' ہانگ چو‘ کی خو بصورتی نے بھی امریکیوں کو بہت متاثر کیا۔ یہاں اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ امریکی صدر کے اس دورے اور دونوں ممالک کے درمیان برف پگھلانے کے لیے اس سے قبل ان کے خصوصی معاون ہنری کسنجر نے چند ماہ قبل چین کا ایک خفیہ دورہ پاکستان کی مدد سے کیا تھا۔ چینیوں اور امریکیوں کے درمیان براہ راست سفارتی تعلقات نہ ہونے کے باعث ہنری کسنجر پاکستان کے دورے پر جولائی 1971 میں تشریف لائے تو پاکستانیوں کی خفیہ سفارت کاری کے باعث یہاں سے بیجنگ پہنچے اور چینی قیادت سے ملاقاتوں میں امریکی صدر کے اس تاریخی دورے کی راہ ہموار کی۔ بہرحال قصہ مختصر کہ ہانگ چو کی خوبصورتی کو چینیوں نے امریکیوں سے سفارت کاری کے لیے بھی استعمال کیا۔ حال ہی میں یہاں ایک کانفرنس میں صدر پاکستان نے شرکت کی۔ اس بین الا قوامی کانفرنس میں چینی صدر کے علاوہ روسی سربراہ پیوٹن سمیت وسط ایشیائی ممالک کی کئی سربراہ شریک تھے اور اطلاع یہ ہے کہ صدر ممنون حسین نے اس موقع پر اردو میں خطاب کیا‘ جس کا انگریزی اور دیگر زبانوں میں ترجمہ حاضرین کے سامنے پیش کیا گیا۔ محترم صدر پاکستان کے قومی زبان میں اس خطاب نے ایک نئی روایت کو جنم دیا ہے‘ جسے جاری رہنا چاہیے کیونکہ جس طرح چین کے بانی نے انگریزی جانتے ہوئے بھی چینی بولنے کو ترجیح دیتے ہوئے کہا تھا کہ چین گونگا نہیں ہے‘ اسی طرح پاکستان بھی گونگا نہیں رہا‘ اور یہ بات بتانے کے لیے 'ہانگ چو‘ کا انتخاب بھی بہت خوب رہا۔