پرانے محلے

آٹھ‘ نو برس پہلے کی بات ہے کہ کراچی کے ایک ادارے میں ملازمت کے دوران ایک یورپی ملک کے کلچرل انسٹی ٹیوٹ کے اشتراک سے ٹی وی پروگرامز کے ایک فیسٹیول کے انعقاد کا موقع ملا۔ اس دوران یہاں موجود چند غیر ملکی طلبا و طالبات سے بھی رابطے رہے۔ یہ طلبا‘ جو عموماً دو یا تین کی تعداد میں انٹرن شپ کی غرض سے چند ایک مہینوں کے لئے یہاں آتے تھے‘ شہر میں گھومنے کے خاصے شوقین ہوتے‘ لیکن حالات کے پیش نظر ہم ان کو آزادی سے نقل و حرکت سے منع کرتے‘ اور وہ خاصی بوریت کا شکار ہو جاتے۔ اکثر نے تو اس نصیحت کو مجبوراً مان لیا‘ لیکن ان میں سے دو کی نڈر جوڑی خاصی پُرعزم ثابت ہوئی‘ اور ایک دن انہوں نے بڑے جوش و خروش سے بتایا کہ انہوں نے نہ صرف کراچی کی منی بسوں میں سفر کیا ہے‘ بلکہ لیمارکیٹ نامی پرانے اور گنجان علاقے سے بس لے کر اندرون سندھ ٹھٹہ اور مکلی قبرستان وغیرہ بھی دیکھ آئے ہیں۔ ان کے اس ایڈونچر پر حیرت ہوئی اور دل میں خیال آیا کہ کراچی کے اس تاریخی لیکن نسبتاً خستہ حال علاقے میں پبلک ٹرانسپورٹ کا سفر تو ہم نے بھی نہیں کیا‘ نجانے ان پر کیا بیتی ہو گی‘ لیکن ان لوگوں کا خیال مختلف تھا۔ انہیں لوگ دوستانہ مزاج کے لگے اور قمیض شلوار میں ملبوس ہو کر یہ بڑے مزے سے اس ایڈونچر سے گزر بھی گئے۔ اس واقعے کو آج یاد کرتا ہوں‘ تو عجیب سا محسوس ہوتا ہے کہ ان لوگوں کی عوامی زندگی اور قدیم جگہوں کو دیکھنے کی خواہش پر ہمیں کس بات کی حیرانگی تھی‘ آخر ہم بھی جب سیاحت کے لئے بیرونی دنیا کا رخ کریں گے‘ تو وہاں کی قدیم اور گہماگہمی والی جگہوں کی کشش تو کھینچے گی۔ شاید یہ شہر کے حالات پر عدم اعتماد والی نفسیات تھی جس کو ان ذہین طلبا نے بڑی ہمت دکھا کرچیلنج کر دیا تھا۔
بڑے شہروں خصوصاً بندرگاہوں کی اپنی بڑی دلچسپ تاریخ ہوتی ہے۔ یہ بحری تجارت کے مراکز ہونے کے باعث ہمیشہ سے ایک کھلا مزاج رکھتے ہیں‘ جنہیں تاریخ کا جبر اور حالات کی خرابی بھی ایک حد تک ہی متاثر کر سکتی ہے۔ اسی طرح وہ شہر جو ماضی میں تاج برطانیہ یا یورپی ممالک کی کالونی رہے‘ وہاں گوروں کی بنائی ہوئی عمارتیں اور محلے مقامی طرز تعمیر کے ساتھ مل کر اب ایک دلچسپ تاریخ بن چکے ہیں‘ جن کے نشانات کلکتہ سے لے کر ممبئی اور کراچی سے سنگاپور تک ہر جگہ دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ نئی تعمیرات اور ترقی میں کتنی پرانی نشانیاں رہ پاتی ہیں‘ اور کتنوں کو وقت روند کر نکل جاتا ہے۔ کراچی کے تو خیر حالات ہی عجیب و غریب چل رہے ہیں اور برسوں بیت گئے‘ سیاحوں نے ادھر کا رخ کرنا چھوڑ دیا ہے‘ لیکن کسی بھی میگا سٹی کی پرانی عمارات اور گلیوں کو بہرحال نئی تعمیرات سے ہمہ وقت ایک خطرہ محسوس ہوتا رہتا ہے۔ وہ تو بھلا ہو سیاحوں کی برادری کا کہ اس کے قدیم محلے اور بازار دیکھنے کے شوق نے ان شہروں کی انتظامیہ کو یہ باور کروا دیا ہے کہ تاریخی وراثت محفوظ رکھنا صرف جذباتی ضرورت ہی نہیں بلکہ ایک منافع بخش کمرشل مجبوری بھی ہے۔ شنگھائی بھی اپنی جدید شکل اور انفراسٹرکچر کے ساتھ نئے اور پرانے علاقوں میں گندھا ہوا ہے۔ ایک میگا سٹی کی گہماگہمی کے ساتھ ساتھ بکھرے ہوئے پرانے محلوں کی تنگ اور گنجان گلیوں میں ٹہلتی مقامی زندگی شہر کی تاریخ کو معتبر بنا دیتی ہے۔ شہر کی بے تحاشا ترقی کے باوجود ابھی تک بلند و بالا عمارات کے درمیان چند ایک پرانی آبادیاں موجود ہیں‘ اور سیاح کیمرے تھامے ان کو کریدتے پھرتے ہیں۔ 
گزشتہ دنوں سردی میں نکلی دھوپ اور فراغت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے قدیم نوادرات کے لئے مشہور 'دونگ تھائی روڈ‘ کا رخ کیا جہاں چند قدیم گلیوں میں نوادرات کے چھوٹے بڑے سٹالز کے درمیان گھومنا بڑا اچھا لگتا ہے۔ شہر کے مصروف علاقے میں بلند و بالا عمارات کے درمیان یہ چند گلیاں ماڈرن شنگھائی کے لینڈ سکیپ کے قدموں میں بے نیازی سے بیٹھی تھیں۔ 'لائو شی من‘ کے ٹرین سٹیشن سے نکل کر محض چند منٹ کی پیدل مسافت پر واقع ہے۔ وہاں پہنچا تو روڈ کو تقریباً خالی اور نئی تعمیر و مرمت کی غرض سے زیادہ ترپرانے گھروں کو منہدم دیکھ کر ایک جھٹکا سا لگا۔ دونگ تھائی کی اس مارکیٹ میں فروخت ہونے والی اکثر قدیم اشیا شاید قیمتی نوادرات کی فہرست میں تو نہیں آتی تھیں‘ لیکن ان اسٹالز پر مہاتما بدھ کے انواع و اقسام کے پرانے مجسمے‘ قدیم ظروف‘ منفرد انداز کا چھوٹا موٹا پرانا سٹائلش فرنیچر‘ جہازی سائز کے گراموفون‘ برسوں پرانے ٹی وی اور ریڈیو سیٹس‘ سلائی مشینیں‘ دوسری جنگ عظیم میں استعمال ہونے والے لڑاکا ہوائی جہازوں کے ماڈلز‘ کمیونسٹ انقلاب کے پرانے رنگ برنگے پوسٹرز اور 'مائوزے تنگ‘ کی جیبی سائز گائیڈ 'ریڈ بک‘ سب کچھ ہی یہاں کی دکانوں اور سٹالز پر پایا جاتا تھا۔ چین جیسے ملک میں نوادرات کی خریداری یا ان کی صحیح قدر و قیمت کا اندازہ لگانا آسان کام نہیں کیونکہ تھوڑا سا اصل بہت سے نقل کے ساتھ چلتا ہے‘ لیکن ان خستہ گلیوں اور پرانے سامان نے ایک دلچسپ ماحول بنا دیا تھا۔ اب یہ گلیاں نئی تعمیر و آرائش کی غرض سے خالی ہو چکی تھیں‘ اور میں اس کے وسط میں ایک دو منزلہ مکان کے سامنے کھڑا تھا‘ جس کے مٹیالے سے سفید رنگ کے ماتھے پر 1923ء کا سال درج تھا۔ اس کے عقب میں کچھ ہی فاصلے پر بہت نمایاں تیس چالیس منزلہ شیشے کی جدید بلڈنگ کچھ اس طرح نظر آ رہی تھی کہ میں نے ایک ہی فریم میں دونوں کی تصویر اتار لی۔ ایک دو باقی رہ جانے والی دکانوں کا سامان بھی باہر اپنی منتقلی کے انتظار میں پڑا تھا‘ اور انتظامیہ کی طرف سے یہ نوٹس لگا ہوا تھا کہ یہاں کی دکانیں اور سٹالز کوئی آدھے کلومیٹر کے فاصلے پر ایک دوسری جگہ منتقل ہو چکے ہیں۔ اس نوٹس کو پڑھ کر یہ تسلی تو ہوئی کہ چلو سب کچھ نہیں ختم ہوا؛ البتہ ان منفرد گلیوں کے جانے کا افسوس بہرحال تھا۔
'دونگ تھائی‘ کی گلیوں سے نکل کر ارد گرد کی دوسری پرانی گلیوں اور دکانوں کو دیکھا تو یہاں کی مخصوص زندگی جاری و ساری تھی۔ چھوٹی دکانوں پر سردیوں کے کپڑوں کا سستا مال بھرا ہوا تھا۔ دوپہر کے ساڑھے گیارہ بج چکے تھے‘ اور لنچ ٹائم قریب پہنچنے پر کھانے پینے کی دکانوں کے باہر مخصوص ڈمپلنگس سمیت طرح طرح کے کھانے تیار ہو رہے تھے‘ جبکہ فٹ پاتھوں کے سٹولوں پر مقامی آبادی اور ارد گرد کے دفاتر کے لوگ براجمان ہو چکے تھے۔ ایک نہایت پتلی سی گلی کے اندر کپڑے خشک ہونے کے لئے لٹکے ہوئے تھے‘ اور ایک شخص فٹ پاتھ پر ہی نہایت پھرتی سے مچھلیوں کی صفائی میں بھی مصروف تھا۔ انواع و اقسام کے پودوں اور پھولوں پر مشتمل گملوں کی دکانیں بھی اپنی جگہ موجود تھیں۔ دھوپ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تین عمر رسیدہ افراد کا گروپ باہر بیٹھ 'ماہجونگ‘ (ڈرافٹ کی طرح روایتی چینی بورڈ گیم) بھی کھیلتا نظر آ گیا‘ جو اب بہت کم دکھتا ہے۔ وہی بے ترتیب سا ماحول اور تنگ فٹ پاتھ دیکھ کر دل خوش ہو گیا کہ ابھی 'لائو شی من‘ کا یہ کمرشل علاقہ قدامت سے مکمل خالی نہیں ہوا۔
شنگھائی کی شہری حکومت تعمیر و توسیع کے ساتھ شہر میں بکھری ان اولڈ سٹریٹس کی قدر و قیمت سے واقف ہے‘ اور اسی لئے ماڈرن انفراسٹرکچر کی توسیع کے باوجود یہ محلے بھی نہ صرف سانس لے رہے ہیں‘ بلکہ ان کی دیکھ بھال بھی مناسب ہے۔ 'تھیان زی فنگ‘ نام کی ایک پرانی جگہ کو انہوں نے نہایت خوبصورت روایتی گلیوں والا بازار بنا دیا ہے‘ جس میں گھومتے پھرتے سیاحوں کو پرانے شہر کا فلیور اور نہایت عمدہ دکانیں‘ ریسٹورنٹس اور بارز وغیرہ مل جاتے ہیں۔ اسی طرح انیسویں صدی کے آغاز میں بنی یورپی تجارتی بستی 'فرنچ کنسیشن‘ کا وسیع و عریض محلہ بھی صفائی اور قرینے کے ساتھ محفوظ رکھا گیا ہے۔ شہر کے وسط میں بہتے 'ہانگ پھو‘ دریا کے ایک طرف پرانی عمارتیں محفوظ اور بہترین دیکھ بھال کا نمونہ ہیں‘ جبکہ دریا کے دوسری طرف نئے ڈسٹرکٹ کی بلند و بالا عمارات اور ٹاورز شہر کی دلکش سکائی لائن بناتے نظر آتے ہیں۔ جدت اور قدامت کی اس کشمکش میں خستہ حالی کے مقابلے میں بعض اوقات جدت اپنے پائوں ذرا زیادہ پھیلا لیتی ہے‘ اور قدامت اپنا سامان سمیٹتی نظر آتی ہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں