بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ آپ کوئی بات بہت گہرائی تک اور تفصیل کے ساتھ کرنے کی کوشش کرتے ہیں‘ لیکن دوسری جانب سے ملنے والا سیدھا سا جواب اس پورے آئیڈیے کے غبارے سے ہوا نکالنے والی سوئی ثابت ہوتا ہے۔ اسی طرح کا ایک تجربہ چینی لینگویج کلاس کے دوران ہوا‘ جب کہا گیا کہ موسموں کے لحاظ سے مخصوص خوراک اور ان کے اثرات پر بات کی جائے۔ ڈسکشن کے لئے گروپس بنا دیے گئے۔ میرے گروپ میں فِن لینڈ کی ایک سٹوڈنٹ تھی جسے یہ سمجھنے میں بڑی مشکل ہو رہی تھی کہ روایتی چینی خوراک‘ ورزشوں اور عادات کے معاملے میں اتنے تفصیل طلب کیوں ہیں۔ بات سمجھانے کی غرض سے میں نے کہا کہ تمہارے ملک میں کافی سردی پڑتی ہے تو اس سے بچائو کے لئے تم لوگ گرم رہنے اور کھانے پینے کے لئے کچھ نہ کچھ خاص انتظام تو کرتے ہو گے۔ اس نے بے چارگی سے مسکراتے ہوئے جواب دیا: ہم باہر گرم کپڑے پہن کر نکلتے ہیں‘ گھروں کو گرم رکھتے ہیں‘ کافی وغیرہ پی لیتے ہیں‘ اور کر بھی کیا سکتے ہیں۔ اس بات پر سبھی ہنس پڑے کیونکہ اس سے پہلے یہ ڈسکشن زور پکڑ چکی تھی کہ کون سے خشک میوے‘ پھل‘ جڑی بوٹیاں وغیرہ سردی کی شدت اور بیماریوں سے بچنے کے لئے مفید ہو سکتی ہیں۔ میں نے بادام‘ اخروٹ‘ مونگ پھلی سے لے کر کشمیری چائے‘ گرما گرم تلی ہوئی مچھلی‘ تل کے لڈوئوں اور گاجر کے حلوے وغیرہ پر بات کرنے کا جو ارادہ کیا تھا‘ وہ اس کے چہرے کی بے بسی کو دیکھ کر ملتوی کر دیا۔
اگر آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ اب کوئی سیدھی سادی باتیں ہونے والی ہیں تو اپنی غلط فہمی دور کر لیں کیونکہ چینی معاشرت اور لوگوں کے رویّوں کو سمجھنے کے لئے سادہ وضاحتیں ناکافی ہیں۔ مثال کے طور پر اس کالم کا عنوان 'گوآنشی‘ (Guanxi) ہی لے لیتے ہیں‘ جو ایک چینی لفظ ہے۔ صاف بات کی جائے تو گوآنشی کا مفہوم انسانی تعلقات یا وہ نیٹ ورکنگ ہے‘ جو باہمی فوائد حاصل کرنے کے غرض سے کی جاتی ہے‘ یعنی پبلک ریلشننگ۔ کاروبار ہو یا نوکری مضبوط 'پی آر‘ بنانا سب کی ضرورت ہوتی ہے‘ لیکن جب یہی تصور چینی اصطلاح گوآنشی کی صورت میں آتا ہے تو وضاحت خاصی تفصیل طلب ہو جاتی ہے۔ چینی معاشرے میں 'گوآنشی‘ ایک بہت طویل اور مستقل پریکٹس کے طور پر موجود رہی ہے‘ اور اس کی بنیاد بڑی حد تک ان کی تہذیبی روایات اور طرز زندگی سے جُڑی ہوئی ہے۔ چینی معاشرت میں کنفیوشس نامی فلسفی کی تعلیمات کا بڑا گہرا اثر رہا ہے‘ جس میں انسانوں کو انفرادی حیثیت سے زیادہ ایک نظام اور ماحول کے جزو کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ ان تعلیمات کی رو سے لوگ آپس میں اور ارد گرد کے ماحول سے اس طرح جڑے ہوئے ہیں کہ فرد کی سوچ اور فیصلے انفرادی نہیں بلکہ رشتوں‘ سماجی حیثیت اور رتبے کے اعتبار سے ہوتے ہیں۔ ہزاروں برس سے یہ لوگ اجتماعی زندگی میں خاندانوں‘ رشتہ داروں اور قریبی دوستوں کے درمیان تعلق اور سماجی حیثیت کی بنیاد پر تعاون کو بہت اہمیت دیتے رہے ہیں تاکہ کاروبار زندگی سہولت سے چلتا رہے۔
چین میں کمیونسٹ انقلاب کے بعد تمام قدیم خیالات‘ مذاہب اور کنفیوشس کی تعلیمات کو بڑی سختی سے ختم کرنے کی کوششیں کی گئیں تاکہ اشرافیہ سے پاک محنت کشوں کا سوشلسٹ معاشرہ وجود میں آ سکے۔ ان کوششوں کے کافی گہرے اثرات تو پڑے لیکن کمیونزم کی سخت گیر پالیسیوں کے باوجود ہزاروں برس سے معاشرے کی ساخت میں جو کلچر جڑ پکڑ گیا تھا وہ ختم نہ ہو سکا اور اسی کی ایک شکل 'گوآنشی‘ بھی ہے۔ جب یہاں آزاد سرمایہ کاری اور صنعتی ترقی کا نیا دور شروع ہوا تو 'گوآنشی‘ اپنی نت نئی شکلوں کے ساتھ سامنے آ گیا۔ صنعت کار ہوں یا تاجر طبقہ‘ کاروبار بڑے پیمانے پر ہو یا چھوٹے پیمانے پر ہر چیز میں آپس کے خو شگوار تعلقات‘ جو خالصتاً نفع اور فوائد کے حصول کے لئے ہوتے ہیں‘ ضروری ٹھہرے۔ کاروباری اور تجارتی تعلقات مستحکم کرنے کے لئے پُرتکلف ڈنرز ایک معمول کی بات ہے جن میں قیمتی مشروبات کے کئی رائونڈز چلتے ہیں۔ ادارے‘ چاہے وہ حکومتی ہوں یا پرائیوٹ‘ تحائف کے لین دین میں بڑے فراخدل ہوتے ہیں اور اتنی خوبصورت پیکنگ میں دیے جاتے ہیں کہ بعض اوقات ان میں موجود چیزوں سے زیادہ ان کی پیکنگ دل کو بھاتی ہے۔ اگر کسی تجارتی تقریب میں کسی سے آپ کا اچھا رابطہ بن رہا ہے تو اس کی ایک شکل یہ ہو سکتی ہے کہ وہ آپ کو قیمتی سگریٹ پینے کی آفر کرے اور اگر آپ نے اس کے کش لگاتے ہوئے تعریف کر دی تو وہ پورا پیکٹ بھی آپ کو تھما سکتا ہے۔
یورپ اور امریکہ کی بے شمار کمپنیوں نے جب سے چین میں اپنے کاروبار شروع کئے ہیں مغربی دنیا نے 'گوآنشی‘ کی اصطلاح کو رشوت اور کرپشن سے کے ہم معنی سمجھنا شروع کر دیا جو جزوی طور پر تو سچ ہو سکتا ہے لیکن مکمل تصویر نہیں پیش کرتا۔ ایک عام تاثر بنایا گیا کہ یہاں سارے کام لوگوں سے تعلقات اور تحائف کے ذریعے ہی ممکن ہیں۔ مغربی دنیا‘ جس کو اپنی انفرادیت پسندی اور اخلاقیات پر بڑا ناز ہے‘ مشرقی کلچر کو مخصوص نظر سے دیکھنے کی عادی ہے‘ جس میں اکثر تحقیر کا پہلو نمایاں ہوتا ہے۔ چینیوں کے نزدیک روایتی 'گوآنشی‘ محض تحائف اور مالی مفاد کے لئے رکھے گئے تعلقات کا نام ہی نہیں بلکہ طویل کاروباری پارٹنرشپ اور اعتماد کی نشانی کے طور پر بھی لیا جا سکتا ہے۔ ان لوگوں کے نزدیک معاملات ہر وقت سیاہ یا سفید نہیں ہوتے‘ بلکہ ان میں گہرائی اور طوالت کے کئی رنگ ہوتے ہیں جو وقت اور ماحول کے لحاظ سے بدلتے رہتے ہیں۔ اب جبکہ چین اور پاکستان کے تعلقات کا 'گوآنشی‘ اپنے عروج پر ہے تو اکثر یہ تاثر دیکھنے میں آتا ہے کہ شاید اس میں اصل مفاد اوپر والے ہاتھ یعنی چین کا رہے گا‘ جو ایک نامکمل تجزیہ ہے۔ چینی قوم کتنی بھی مغرب زدہ یا تبدیل ہو جائے ان کے ثقافتی خمیر میں مل بانٹ کر کھانا مغربی دنیا سے کہیں زیادہ ہے۔ اپنے مفاد کے لئے جس سے بھی وہ 'گوآنشی‘ کرتے ہیں تو اس کا لانگ ٹرم فائدہ دونوں کے لئے ہونا ایک بنیادی شرط اور اس اصطلاح کی اصل روح ہے۔ چینی مفت میں کسی کو لنچ نہیں کراتے لیکن اس وقت تک کرانے کا حوصلہ بھی رکھتے ہیں جب تک سامنے والے کے بٹوے میں بھی بالآخر دونوں کا بل دینے کے پیسے آ جائیں‘ ایسے لوگوں سے 'گوآنشی‘ کا بہرحال فائدہ ہی ہوتا ہے جس میںکھلانے والا کمانے کا راستہ بھی دکھا سکتا ہو۔
اگر ابھی تک آپ اپنا سر ہی کھجا رہے ہیں کہ آخر یہ گوآنشی کیا بلا ہے تو ایک ذاتی اور سادہ مثال دے کر بات کو مکمل کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ گزشتہ برس میں نے یہاں کی ایک مشہور کپڑا مارکیٹ سے چند مردانہ شرٹس سلوائیں‘ جو میرے قوت خرید کے لحاظ سے مناسب اور عمدہ فٹنگ کی تھیں۔ اسی ٹیلر کی دکان پر ایک واقف کار کو چند ایک کوٹ سلوانے کے لئے بھی لے گیا‘ جہاں مختصر مول تول کے بعد ہم نے آرڈر دے دیا۔ اگلے موقع پر جب وہاں کچھ سلوانے کے لئے گیا تو درزی نے مجھے ایک شرٹ مفت میں سی کر گفٹ کے طور پر دینے کی آفر کی جس پر میں ذرا گڑبڑا گیا کہ شاید اس کو کچھ زیادہ ہی فائدہ پہنچا دیا ہے‘ لیکن مستقل گاہک بننے کی خوشی میں وہ مجھے بطور تحفہ ایک شرٹ دینے پر آمادہ تھا۔ اسی دکاندار کے پاس اگر کوئی غیر ملکی محض ایک بار آئے تو زیادہ قیمت پر ہی کچھ خریدے گا‘ لیکن ایک وفادار گاہک کے طور پر طویل تعلق بننے کے باعث میں اس رعایت اعزاز کا حقدار ٹھہرا۔ چینیوں سے فائدہ ملنے کا امکان شاید اس وقت زیادہ ہوتا ہے جب لانگ ٹرم 'گوآنشی‘ بن جائے۔ معاشی اور سماجی سطح پر نہایت مختصر عرصے میں جتنی تیز رفتاری سے تبدیلیاں یہاں رونما ہوئی ہیں اس کی مثال ملنا مشکل ہے لیکن اس رولر کوسٹر رائڈ کے باوجود انسانی تعلقات پر سرمایہ کاری کی یہ عادت فی الحال تو باقی ہے دیکھیں آگے کیا رنگ اختیار کرتی ہے۔ اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ میں نے شرٹ کا تحفہ لینے سے شائستگی سے انکار کرتے ہوئے مزید سلائی کی رقم میں کچھ رعایت کروا لی تھی۔ سمجھیں یہ میرا آداب 'گوآنشی‘ تھا۔