گلگت بلتستان دنیا کا ایک حسین خطہ ہے۔ اس کے ایک گائوں 'دنیور‘ میں ان چینی انجینئرز اور محنت کشوںکی قبریں موجود ہیں جو 1970ء کی دہائی میں شاہراہ قراقرم کی تعمیر کے دوران جاں بحق ہو گئے تھے۔ دنیا کے اس دشوار گزار ترین علاقے میں تعمیر کی جانے والی اس شاہراہ میں ان چینیوں کے علاوہ سینکڑوں پاکستانی محنت کشوں اور فوجیوں نے بھی اپنی زندگیاں قربان کیں۔ شنگھائی میں مقیم ستر سالہ مسٹر وانگ نے اپنی جوانی کے بہترین سال اس خطے میں بحیثیت اردو ترجمان گزارے اور یہ میری خوش قسمتی ہے کہ میں نے ان سے بالمشافہ ملاقات کی۔ وانگ صاحب نے یہ بھی بتایا کہ وہاں چند ایک خالی قبریں ایسی بھی ہیں‘ جن کے مکین دریائوں کی بے رحم موجوں کا شکار ہو کر دوبارہ کبھی نہ مل سکے۔ وانگ صاحب سے میری پہلی ملاقات پاکستانی قونصل خانے شنگھائی میں 23 مارچ کی ایک چھوٹی سی تقریب میں ہوئی تھی‘ جہاں میں ان کی شستہ اردو سن کر حیران رہ گیا تھا۔ میری حیرانی اس وقت واقفیت میں بدل گئی‘ جب ان کی زبانی یہ پتا چلا کہ وہ اردو زبان سیکھنے کے لئے چار سال جامعہ کراچی کے شعبہ اردو میں زیر تعلیم بھی رہے تھے (جی ہاں جامعہ کراچی انہوں نے ہی کہا ہم جیسے تو کراچی یونیورسٹی پر اکتفا کرتے ہیں)۔ وہ 1960ء کی دہائی میں دونوں ملکوں کے طلبا کے درمیان تبادلے کے پروگرام کے تحت یہاں تین چینی طلبا کے ساتھ آئے تھے۔ پہلی ملاقات کے بعد یہ خواہش رہی تھی کہ ان سے مزید تفصیلی ملاقات کی جائے‘ جو میری تمام تر کاہلی کے باعث ہونے والی تاخیر کے باوجود بالآخر ہو ہی گئی۔
اس ملاقات سے قبل میرے ذہن میں زیادہ سوالات ان کے کراچی میں گزرے ہوئے دور کے حوالے سے تھے‘ لیکن جیسے گفتگو آگے بڑھی تو ان کی زندگی کا وہ حصہ اہمیت اختیار کر گیا جب وہ خنجراب سے لے کر حویلیاں تک بننے والی شاہراہ قراقرم کی ٹیم کاحصہ رہے۔ کراچی کے حوالے سے ان کی یادداشت میں وہ یونیورسٹی تھی‘ جو شہر سے میلوں دور ایک بے آباد جگہ پر وسیع جزیرے کی طر ح تھی۔ ہوسٹل میں رہائش اور پاکستانی طلبا کے ساتھ گزرا ہوا بے فکری اور تفریح کا وہ وقت ان کو خوب یاد تھا‘ جو کسی بھی نو عمر طالب علم کی زندگی کا ایک اہم حصہ ہوتا ہے۔ شعبہ اردو میں ان کو ڈاکٹر ابوالخیر کشفی کی سرپرستانہ تدریس بھی یاد تھی جبکہ بعض اساتذہ کے نام ان کے ذہن سے محو ہو چکے تھے۔ اپنے پاکستانی دوستوں سے انہوں نے وہ اردو بھی سیکھی جو شاید کلاس روم میں سیکھنے کو نہ ملتی۔ انہوں نے ہنستے ہوئے کھانے کی میز پر پڑے چمچ دیکھ کر بتایا کہ چمچہ گیری اور مکھن لگانے جیسے فقرے ان دوستوں کے ہی سکھائے ہوئے ہیں۔ کراچی کی دیگر یادوں میں ساحل سمندر پر سیر و تفریح اور پاکستانی کھانے بھی ان کی فہرست میں کافی اوپر تھے۔ ان کی باتوں سے پرانے لوگوں کی ان یادداشتوں کی تصدیق ہو گئی‘ جو اس دور کے کراچی اور اس کی روشنیوں کو دیکھ چکے تھے‘ جب مغربی سیاحوں سے لے کر مشرق وسطیٰ کے متمول لوگوں تک‘ سبھی برنس روڈ کے چٹ پٹے کھانے کھاتے اور شہر کی زندگی کا مزا لیتے تھے۔
اردو زبان سیکھنے کے بعد وہ شاہراہ قراقرم کی تعمیر جیسے منصوبے میں بحیثیت اردو ترجمان مقرر ہو کر خنجراب پاس کے علاقے میں تعینات کر دیے گئے۔ اس شاہراہ کی تعمیر ایک انتہائی مشکل اور چیلنجنگ کام تھا‘ جو دنیا کے اس بلند اور دشوار ترین قراقرم پہاڑی سلسلوں میں تعمیر ہو رہی تھی۔ چینی علاقے کاشغر سے شروع ہونے والی یہ شا ہراہ حویلیاں‘ ایبٹ آباد سے لے کر حسن ابدال کے راستے مشہور گرینڈ ٹرنک روڈ یعنی جی ٹی روڈ سے منسلک ہو جاتی ہے۔ تیرہ سو کلومیٹر طویل اس سڑک کی تعمیر انجینئرنگ کی دنیا کا ایک عجوبہ سمجھی جا سکتی ہے۔ وانگ صاحب نے بتایا کہ چین سے نوے ہزار کے قریب محنت کش اور انجینئرز اس پروجیکٹ کا حصہ رہے‘ جن میں سے سینکڑوں یہاں ہونے والی لینڈ سلائیڈنگ اور دیگر حادثات کا شکار ہوئے۔ پاکستان کی طرف سے فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن‘ جو افواج پاکستان کا ادارہ ہے‘ اس کی تعمیر میں مصروف تھا اور یہاں بھی سینکڑوں جوانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ مسٹر وانگ اس ایڈوانس ٹیم کا بھی حصہ رہے‘ جو تعمیراتی کام سے قبل مختلف دیہات اور دشوار گزار علاقوں میں جاتے تھے۔ یہ لوگ مقامی باشندوں کی مدد سے ان علاقوں میں لینڈ سلائیڈنگ‘ بارشوں اور سیلابوں کی تاریخ معلوم کرتے‘ جس سے ان راستوں کی منصوبہ بندی میں مدد ملتی۔ انہوں نے بڑے دلچسپ انداز میں بتایا کہ مقامی لوگ خصوصاً بزرگ اس حوالے سے بہت گرمجوشی کا مظاہرہ کرتے۔ علاقے کی پرانی تاریخ اور موسم کے تیوروں سے متعلق ان کی فراہم کردہ معلومات بے حد مفید ثابت ہوتیں۔ یہ عظیم پروجیکٹ‘ جو دو عشرے جاری رہا‘ لاتعداد لوگوں کی شبانہ روز محنت اور قربانیوں کے بعد 1979ء میں اپنی حتمی تکمیل تک پہنچا۔ وانگ صاحب نے اس پروجیکٹ کے علاوہ بھی ایک اردو دان چینی کی حیثیت سے پاکستان میں کافی خدمات انجام دیں اور وہ چین پاکستان تعلقات کے کئی اہم پہلوئوں سے آشنا رہے۔ ان سے ہونے والی یہ ملاقات بہت مفید اور خوشگوار رہی۔
مسٹر وانگ سے ملاقات اور شاہراہ قراقرم کے لئے دی گئی قربانیوں کا ذکر سن کر مجھے آج کل اقتصادی راہداری کے حوالے سے ہونے والے گرماگرم مباحث کا خیال آیا۔ عموماً میں ان معاملات پر‘ جہاں پہلے ہی کئی آرا چل رہی ہوں‘ اپنے خیا لات کا اظہار ضروری نہیں سمجھتا‘ نہ ہی یہاں تین برس کے قیام نے مجھے تکنیکی اور سیاسی معاملات پر کوئی ماہر بنا دیا ہے‘ لیکن اس کالم میں کچھ غیر ماہرانہ خیالات دینے پر اپنے آپ کو مجبور پاتا ہوں۔ ذاتی طور پر میں اس بحث کو بہت مفید سمجھتا ہوں۔ سوال اٹھتے رہنے چاہئیں تاکہ کوئی من مانی نہ ہو سکے؛ البتہ میرا سوال پاکستان میں بحث کا بازار گرم کرنے والے ہر ایک ذمہ دار سے یہ بھی ہے کہ ان لوگوں نے اپنے علاقے کے لوگوں کی فنی تربیت یا مہارت بڑھانے کے سلسلے میں کیا کیا ہے؟ کیا پنجاب میں لاکھوں ہنرمند اپنے ڈپلومے اور سرٹیفیکٹ لئے تیار بیٹھے ہیں کہ صنعتی زونز کو بنانے اور چلانے میں مدد دے سکیں؟ کیا خیبر پختونخوا کے ذمہ داروں کو یہ پتا ہے کہ ان کی کتنی افرادی قوت صنعتی ہنرمندی کی چیزیں سیکھ رہی ہے؟ ملک بھر کے مدرسوں میں لاکھوں طلبا عام تعلیم کے علاوہ کون سا ایسا ہنر سیکھ رہے ہیں‘ جس سے روزی کا بندوبست ہو سکے؟ بلوچستان کے سردار اور سندھ کے وڈیرے کب اپنے زیر اثر لوگوں کو اس فنی تعلیم کے لئے آزاد چھوڑیں گے؟ یہاں دور بیٹھے کم از کم مجھے تو کوئی ایسی خبر نہیں ملتی کہ ہمارے پالیسی ساز ہنرمندوں کی کوئی سٹریٹیجک کھیپ تیار کر رہے ہیں۔ سارا زور اس بات پر ہے کہ ہر کوئی بس اپنے گھر کے سامنے ایک سڑک چاہتا ہے‘ جہاں وہ پٹرول پمپ الاٹ کروا کے بیٹھ جائے۔ جب سڑکیں تعمیر ہوتی اور صنعتیں لگتی ہیں تو اس کا سب سے زیادہ فائدہ ان لوگوں کو ہوتا ہے جو تعلیم اور ہنر کے لحاظ سے اپنے آپ کو تیار کر چکے ہوتے ہیں‘ چاہے ان کا تعلق کسی بھی قومیت‘ نسل اور زبان سے ہو۔ کسی پیچیدہ بیماری کے لئے ماہر معالج ڈھونڈتے ہوئے ہم اس کی قومیت‘ زبان یا مذہب سے زیادہ اس کی پیشہ ورانہ اہلیت پر بھروسہ کرتے ہیں۔ محض انفراسٹرکچر سے کام بنتا تو آج روس کے لوگ دنیا بھر میں سب سے آسودہ ہوتے‘ اور اگر محض مقامی سطح پر اختیار ملنے سے قوموں کے مسائل حل ہو جاتے تو جنوبی افریقہ کی سیاہ فام آبادی اس وقت قابل رشک حالت میں ہوتی۔ چینی اور دوسری غیر ملکی سرمایہ کاری کے فوائد سمیٹنے ہیں تو ہمیں اپنی سب سے قیمتی چیز یعنی افرادی قوت کو تیار کرنا ہو گا‘ اور یقین کریں جس صوبے یا علاقے کے لوگ محنت کے ساتھ اپنا ہنر ٹھیک کر لیں گے‘ سب سے زیادہ فائدے میں وہی لوگ رہیں گے‘ چاہے یہ راہداری ان کے گھروں سے سو ڈیڑھ سو کلومیٹر دور ہی کیوں نہ ہو۔ چین سے اربوں ڈالر کی مدد اور قرضے لینے کے ساتھ یہ سبق بھی لے لیں کہ ہنرمندوں کی فوج کیسے تیار کی جائے۔ ہم بیس کروڑ آبادی کے ساتھ محدود انڈسٹری پر گزارا نہیں کر سکتے‘ صاف سی بات ہے کہ 'ہنر نہیں تو قدر نہیں‘۔