کچھ لوگوں کو سردی زیادہ لگتی ہے اور کچھ کو گرمی جلدی بدحواس کر دیتی ہے۔ میرا شمار بدقسمتی سے ان دونوں گروپس میں کیا جا سکتا ہے‘ لہٰذا آج کل شنگھائی کی معصوم سی سردی نے بھی طبیعت صاف کر رکھی ہے۔ گزشتہ ہفتوں میں یہاں کے مقامی باشندوں کو شکایت رہی کہ سردی زور نہیں پکڑ رہی‘ ویسے میرے خیال میں درجہ حرارت اوسطاً چھ سات ڈگری ہوتے ہوئے کبھی منفی دو تک پہنچ رہا ہو تو اس ٹھنڈک کو ناکافی قرار دینا تھوڑی سی زیادتی ہو گی۔ ممکن ہے کہ شنگھائی کے لوگ یہ شکایت بیجنگ والوں سے جل کر کرتے ہوں‘ جہاں آج کل معاملہ منفی دس سے پندرہ ڈگری تک پہنچا ہوا ہے۔ گزرے ہوئے ویک اینڈ نے البتہ یہاں کے لوگوں کی شکایت بھی دور کر دی‘ جب موسم منفی آٹھ ڈگری تک پہنچ گیا۔ شاید اسی لیے کہتے ہیں کہ کسی بھی چیز کی تمنا سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے کیونکہ وہ پوری بھی ہو سکتی ہے۔ شنگھائی آمد کے پہلے سال فروری کے چند دنوں میں ہلکی پھلکی برف باری کا مزا تو لیا تھا‘ لیکن اب دو برس کا وقفہ ہو چکا ہے کہ موسم اگر منفی کی طرف جاتا بھی ہے تو برف باری کا کچھ اتا پتا نہیں۔ موبائل فون پر موسم دیکھنے کی ایپلیکیشن بھی برف باری کی اس تمنا کو بھانپتے ہوئے کچھ شرارتی ہو گئی ہے کہ اکثر آگے کے دنوں میں در جہ حرارت منفی ہونے پر برف باری کا نشان دکھا دیتی ہے‘ لیکن اگلے ہی روز وہ اس پیش گوئی کو بارش میں تبدیل کر دیتی ہے۔ موسم کی ان بدلتی چالوں کی وجہ سے دو ہفتے قبل جب رات میں بات منفی دو تک پہنچ جانا تھی‘ میں نے پلاسٹک کے چھوٹے سے پیالے میں پانی بھر کر بالکونی میں رکھ دیا کہ شاید صبح اسی بہانے کچھ برف دیکھنے کو مل جائے ۔ بدقسمتی سے صبح کی بھاگ دوڑ میں پیالہ دیکھنا یاد نہ رہا اور جب شام میں اس کا خیال آیا تو ٹمپریچر تین چار ڈگری تھا اور پانی ٹھنڈا ہونے کے باوجود برف کی کوئی تہہ نہیں جمی تھی۔ ممکن ہے صبح سویرے دیکھ لیتے تو برف کی کوئی ہلکی سی جھلک مل بھی جاتی لیکن کیا کریں 'حسرت اس برف پر ہے جو بن جمے پگھل گئی‘ بہرحال برف جمانے اور ہلکی سی برف باری کی حسرت اس ویک اینڈ پر پوری ہو ہی گئی اور صبح منفی سات ڈگری نے پیالے کے پانی کو مناسب سی برف میں تبدیل کر دیا اور باہر ہلکی سی برف کی تہہ نے بھی جھلک دکھلا ہی دی۔
شنگھائی کے باسی جتنا شور کر لیں کہ یہاں سردی 'کڑاکے‘ کی نہیں پڑتی اس سے بچائو کے انتظام اور ملبوسات میں پیچھے رہنے والے نہیں۔ مرد ہوں یا عورتیں طرح طرح کے کوٹ‘ جیکٹس‘ مفلرز‘ فر والے لانگ بوٹس سب کچھ ہی پہنے نظر آتے ہیں۔ شاید انہی نخروں کے باعث بیجنگ کے لوگ ان کو 'شو باز‘ اور مغرب زدہ سمجھتے ہیں۔ ویسے بے شک منفی دس پندرہ بیجنگ کا موسم ہوتا ہو لیکن یہاں کا زیرو ڈگری زیادہ تکلیف پہنچاتا ہے کیونکہ بیجنگ کے گھروں اور اپارٹمنٹس میں فرش کو گرم رکھنے کا معقول اور سستا سرکاری انتظام ہے۔ شنگھائی میں عمومی طور پر اس طرح کا کوئی انتظام نہیں ہوتا‘ اس لیے گھروں کے اندر بھی سردی زیادہ محسوس ہوتی ہے۔ خوش قسمتی یا بدقسمتی سے ہمارے اپارٹمنٹ میں فرش گرم کرنے کی یہ سہولت موجود تو ہے لیکن اس کا بل کوئی دل والا ہی ادا کر سکتا ہے۔ یہاں سردیوں میں پالا صرف سردی سے ہی نہیں بلکہ ایک اور مصیبت سے بھی پڑتا ہے جسے فضائی آلودگی کہتے ہیں۔ دھند اور ہوا اگر دو چار دن ٹھہر جائے تو موبائل فون پر ہوا کی کوالٹی بتانے والی ایپلیکیشن خطرے کا الارم بجا دیتی ہے۔ ان حالات میں بہتر ہوتا ہے کہ آپ چہرے پر ماسک لگا کر نکلیں۔ میں تو عموماً ماسک پہننے سے گریز کرتا ہوں کہ مزید گھٹن محسوس ہوتی ہے لیکن بیجنگ میں معاملات اتنے گڑبڑ ضرور ہوتے ہیں کہ اکثر کو منہ ڈھانپنا ہی پڑتے ہیں۔ اب یہ بھی سمجھ آ گیا ہے کہ چینی مرد اتنے دھڑلے سے سگریٹ نوشی کیوں کرتے ہیں۔ آخر آلودگی ہی آلودگی کو مارتی ہے‘ جس طرح گرمی گرمی کو مارتی ہے۔
سردی میں ایک اور امتحان سائیکل اور بائکس چلانے والوں کا ہوتا ہے لیکن یہاں کے باشندے اس معاملے میں بھی کافی خود کفیل واقع ہوئے ہیں۔ یہ خود تو گرم جیکٹس‘ مفلرز وغیرہ پہنتے ہی ہیں‘ ساتھ میں اپنی بائکس کو بھی گرم کپڑے پہنا دیتے ہیں۔ سب سے پہلے ہینڈلز پر بڑے سے دستانے چڑھا دیتے ہیں تاکہ ہر وقت پہننے اور اتارنے کی زحمت ہی نہ کرنا پڑے۔ ٹانگوں کو سرد ہوا سے بچانے کے لیے چمڑے کی بنی اضافی پٹی بھی باندھ لیتے ہیں اور اگر اس سے مطمئن نہ ہوں تو ایک موٹی رضائی نما جیکٹ ہینڈلز اور ٹانگوں کے درمیان اس طرح فکس کر لیتے ہیں‘ جیسے ہمارے ہاں ویسپا کی سکوٹر ہوتی تھی۔ بارش کے لیے بھی پیراشوٹ کے کپڑے کا بنا ڈھیلا سا رین کوٹ سر سے پیر تک ڈھانپ لیتا ہے‘ بلکہ بعض لوگ تو اپنی بائکس پر تکون نما مخصوص سی چھتری تان لیتے ہیں تاکہ پیچھے بیٹھی سواری بھی بھیگنے سے محفوظ رہے۔ ان سارے انتظامات کے بعد بالآخر آپ سائیکل یا بائک چلانے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ میرا معاملہ ان چینیوں سے زیادہ سادہ اور محفوظ ہے کہ ان حالات میں پیدل چلنے کو ترجیح دیتا ہوں‘ بے شک میری سائیکل مجھے کم ہمتی اور سستی کے کتنے ہی طعنے کیوں نہ دے لے۔ گھر سے نکلتے ہوئے بھی آج کل اکثر دیر ہو جاتی ہے جس کی وجہ دیر سے اٹھنا یا سستی نہیں بلکہ عین داخلی دروازے کے سامنے موجود گرم کپڑوں کا سٹینڈ ہے‘ جس کی کمر گرم کپڑوں کے بوجھ سے دوہری ہو چکی ہے۔ اس کے سامنے پہنچ کر کوٹ اور جوتوں کا فیصلہ کرنا بھی ایک امتحان سے کم نہیں۔ اگر درجہ حرارت دس سے زیادہ ہو تو نسبتاً ہلکی جیکٹ ڈھونڈی جائے‘ بارش کی صورت میں پیراشوٹ کے کپڑے اور ٹوپی والی جیکٹ‘ سردی زیادہ تو موٹا لانگ کوٹ وغیرہ وغیرہ۔ بات یہاں بھی نہیں رکتی ایک نئی مصیبت موسم چیک کرتے ہوئے یہ بھی درپیش ہوتی ہے کہ اصل درجہ حرارت اور محسوس ہونے والی سردی میں کتنا فرق ہے۔ اب اگر چھ ڈگری کے حساب سے تیاری کر لی اور باہر آ کر کم محسوس ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ محسوس ہونے والا ٹمپریچر (Feels Like) اپنے فون پر دیکھ لینا چاہیے تھا‘ جو شاید دو یا تین ڈگری ہو۔ بہرحال اس ساری کارروائی میں تاخیر کا امکان بڑھتا ہی جاتا ہے۔ اگر آپ کو یہ خیال گزرے کہ میں سردی کے موسم کو کچھ زیادہ ہی گلیمرائز کر رہا ہوں تو بے جا نہیں ہو گا لیکن کیا کروں مجھے سردی لگتی بھی تو زیادہ ہے۔
اب کپڑوں‘ موزوں اور جوتوں سے نکل کر مونگ پھلی کی بات بھی کر لی جائے۔ ممکن ہے چین دنیا میں مونگ پھلی پیدا کرنے والا سب سے بڑا ملک ہو لیکن مجال ہے جو پاکستان کے ٹھیلوں کی طرح گرماگرم مل جائے؛ البتہ یہاں پر ایک اور طرح کا 'کافی‘ کی رنگت والا گول سا میوہ موٹی سیاہ ریت میں بھون کر فروخت کیا جاتا ہے۔ ایک مرتبہ شوق میں لے کر کھانے کی کوشش کی لیکن مزا نہیں آیا۔ شاید اسی لیے اس کا نام بھی یاد نہیں رہا حالانکہ مقامی لوگ بہت شوق سے کھاتے ہیں۔ دل کی تسلی کے لیے ٹھنڈی مونگ پھلیاں ہی ٹھونگنا پڑتی ہیں‘ جو ذائقے میں بہرحال بہت عمدہ ہوتی ہیں۔ یہاں سردیاں نومبر سے لے کر مارچ اور بعض اوقات اپریل تک کمبل کی طرح چمٹی رہتی ہیں۔ کبھی دھیمے سروں میں تو کبھی اونچے سروں میں راگ الاپتی ہیں۔ کس کو کتنی سردی لگتی ہے یہ اس بات پر منحصر ہے کہ وہ کہاں رہتا ہے۔ بیجنگ والے شنگھائی والوں کو سردی لگنے پر ہنس سکتے ہیں تو بیجنگ سے مزید شمال میں واقع 'ہربن‘ (Harbin) شہر کے لوگ بیجنگ والوں پر مسکرا سکتے ہیں۔ یہ شہر جو دنیا بھر میں برف سے تراشے گئے شاندار محل نما آرکیٹکچرز اور مجسموں وغیرہ کی نمائش کے لیے مشہور ہے منفی تیس ڈگری سے لے کر منفی پندرہ کے درمیان چل رہا ہے۔ اسی دوران اگر کراچی میں کسی سے بات ہو اور وہ کہے کہ آج یہاں بھی ہوا میں بڑی ٹھنڈک تھی اور مجھے نزلہ ہو گیا ہے تو مسکراہٹ چہرے پر آتے آتے رک جاتی ہے کیونکہ زیادہ عرصہ نہیں گزرا ہمیں کراچی میں بھی سردی نہ سہی زکام تو لگ ہی جاتا تھا۔